قرآن پاک کی سورۃ بقرہ میں ارشاد
ربانی ہے کہ ! ایمان والو تم اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاوٗ اور شیطان
کے قدموں کی پیروی نہ کرو ، بیشک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ۔متذکرہ بالا آیات
مبارکہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب انسان دائرہ اسلام میں داخل ہو
جائے تو احکامات خداوندی کی مکمل طور پر پیروی کرے ۔اسی طرح ایک اور جگہ
ارشاد ہوتا ہے کہ ! بے شک ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا کہ وہ عبادت
کریں، آج عبادت کے مفہوم کو صرف نماز اور روزہ کی حد تک محدود کر دیا گیا
ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، مومن کے ہر عمل کو جو رضائے الہٰی اور احکام
خداوندی کے تحت کیا جائے وہ عبادت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ۔مختصر الفاظ
میں حلال روزی کمانے کیلئے جدوجہد کرنا،حقوق العباد کا خیال جن میں والدین
، ہمسائے،عزیز و اقارب ، دوست احباب اور سب سے بڑھکر مسلمان بھائی کی تکلیف
کے ازالے کیلئے کوشش کرنا شامل ہے۔
خلفائے راشدین کا دور بہت طویل ہے مگر عنوان کی مناسبت سے حضرت عمرؓ کے دور
خلافت اور زندگی کا مختصر سا احاطہ کرنا مقصود ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اسلامی
فلاحی ریاست کا باقائدہ آغاز حضرت عمرؓ کے فلاحی کارناموں سے ہو ا جسمیں
مسلمانوں کیلئے سنہری اصول مرتب کئے گئے جن میں انصاف کی فراہمی سر فہرست
ہے۔مسلمانوں کی بد نصیبی کہ اُن زریں قوانین کو غیر مسلم اقوام نے اپنا کر
اپنا نظام سلطنت درست کرلیا او ر فلاحی ریاست (ویلفیر اسٹیٹ) قائم کرکے
انسانی خدمت کا فریضہ انجام دینا شروع کردیا یہ ممالک آج بھی ان قوانین کو
(لاء آف عمر)کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔دیکھا جائے تو متذکرہ بالا آیات قرآنی
کی روشنی میں ہی حضرت عمر ؓ نے اپنے دور خلافت میں رعایا کی خدمت کی خاطر
اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر دن رات ایک کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے۔مشہور
ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں ایک قاضی کو صرف اس بناء پر اُس کے عہدے
سے برخاست کردیا تھا کہ وہ خلیفہ کی عدالت میں حاضری کے وقت احتراماً کھڑا
ہو گیا تھا ایسی اور بہت سی مثالیں قارئین کی نظر، حضرت عمرؓ جب کسی کو
سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تو اُس کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس
رکھ لیتے تھے اگر سرکاری عہدے کے دوران اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو اُس کی
باز پرُس کرتے، آپ کا فرمان تھا کہ ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم
ہے۔ آپ کا یہ فقرہ آج انسانی حقوق کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت عمر بن
عبدالعزیز جن کے بارے کہا گیا کہ اگر خلفائے راشدین میں کوئی پانچواں خلیفہ
ہوتا تو وہ درجہ اُن کو ملتا ۔آپ کا دور خلافت بھی مثالی دور تھا انصاف کے
تقاضے اس حد تک پورے کئے کہ تمام نا اہل اور نا فرض شناس افسروں کو معزول
کرکے اُن کی جگہ نیک اور دیانتدار افسر مقرر کئے جبکہ آج کے حکمرانوں کا
طرز عمل اس کے برعکس ہے ۔ خال خال جو ایماندارافسران ہیں وہ دیوار کے ساتھ
لگا دئیے گئے ہیں یا انھیں زبان بندی پر مجبور کیا جاتاہے۔ دیکھا جائے تو
امور سلطنت میں رعایا کی خوشحالی ہمیشہ مقدم ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں الٹی
گنگا بہتی نظر آتی ہے کسی بھی نظام کی کامیابی یا نا کامی کا سہرا اُس ملک
میں رائج قانون پرعمل درآمد سے مشروط ہ ہوتاہے۔آج کے دور کا موازنہ کیا
جائے تو ہماری بربادی کی اصل وجہ انصاف کے حصول میں دشواری اور تاخیر کے
ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر فائز حکمرانوں کے استسنیٰ میں پنہا ہے یہاں جو
شخص جتنا بڑا قانون شکن ہوتا ہے اُس کی اُتنی ہی تعظیم کی جاتی ہے اور اُس
کے جرائم پر پردہ ڈالنے اور خانہ پرُی کی خاطر بے گناہ شہریوں کو پکڑ کے
پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ آج کے حکمرانوں اور صاحب اختیار طبقہ میں حکمت
و دانش کا فقدان اس حد تک پایا جاتا ہے کہ انسانی جذبات اور حساس نوعیت کے
معاملات پر بیان بازی بھی جذباتی انداز میں کی جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں
کراچی میں رونما ہونے والی اجتماعی اموات جو کہ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی
کا شاخسانہ ہے پھر بھی ایک حکومتی کارندے کے بیان نے کہ اس میں حکومت کی
کوئی غلطی نہیں کہ کر عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ۔ گزشتہ کئی سالوں سے
عوام کو دھوکہ دینے کیلئے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے رٹے رٹائے بیانات تسلسل سے
آرہے اور آتے رہیں گے اور عوام کی سمع خراشی کا سبب بتتے رہیں گے۔ اس حوالے
سے ٭پرہیز علاج سے بہتر ہے ٭کے مصداق اگر حکومتی سطح پر دفاتر میں اور دیگر
تقریبات میں بجلی کی بچت کی جائے تو بھی عوام کو شدید عذاب نہ سہنا پڑے
یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک وزیر ْ ْ مشیر کے کئی کئی دفاتر قائم ہیں اور ہر
جگہ یکساں آسائشیں مہیا کرنا کارندوں کی ذمہ واری ہے کے نجانے صاحب کب اور
کہاں وارد ہوجائیں۔
عام مشاھدے کی بات ہے کہ حکومت جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنجانے کا عزم
کرلے اُس پر بیان بازی کم مگر دن رات ایک کرکے مقررہ مدت میں مکمل کرلیتی
ہے مگر اجتماعی مفاد کے منصوبے التواء کا شکار رہتے ہیں۔
تاریخ کے آئینہ میں جھانکا جائے تو کامیاب حکمران صرف وہ ثابت ہوئے جنھوں
نے علامہ اقبال کے شعر کی روح کو سمجھا اور حکمرانی کی
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
ہمارے حکمران دکھلاوے کیلئے اگر غریبوں کی دلجوئی کیلئے جائیں بھی تو صرف
فوٹو سیشن کی حد تک ورنہ ہمدردی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی خود ساختہ
القابات سے انسان میں وہ خصلتیں پیدا نہیں ہوتیں انسانیت کی خدمت ایک ایسا
مقدس فریضہ ہے جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آیا اور رہتی دنیا تک لوگ
اُن کے کارناموں کو یاد کرتے رہیں گے۔قائداعظم کے بعد اگر کسی حکمران نے
خود داری کا مظاہرہ کیا اور عوامی رائے کے احترام میں اقتدار کو خیر باد
کہا تو صرف ایوب خان کی مثال ملتی ہے ورنہ جو بھی آیا اُن کا انجام سب کے
سامنے ہے۔
سوشل میڈیا پر اگرچہ بہت سے باضمیر لوگ اپنی آرا ء سے بیداری کی مہم کو
جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی آواز بھی نقارخانے میں طوطی کے مترادف
ہے جبکہ زیادہ تر اندھی تقلید ہو رہی ہے اور تمام ا خلاقی قدروں کو پامال
کیا جارہاہے ۔ |