آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس
ریاست کی پہلی سیاسی پارٹی ہے ، یہ پارٹی ریاست جموں کشمیر کے جبراً تقسیم
ہونے کے بعد بھی عرصہ تک ریاست کی آزادی و خود مختاری کی حامی رہی ہے۔
تقسیم ہندوستان کے وقت ریاست کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت جیلوں میں مقید تھی
نیشنل کانفرنس کے شیخ عبداﷲ سرینگر جب کہ مسلم کانفرنس کے چوہدری غلام عباس
جموں جیل میں قید تھے ۔انہی دنوں مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدرحمیداﷲ نے
۱۸ جولائی ۱۹۴۷ کو سرینگرمیں مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا جس میں
پارٹی صدر چوہدری غلام عباس کا ایک خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں تمام مہذب
ممبران سے کہا گیا کہ وسیع تر قومی مفاد کی خاطر ریاست کی آزادی و خود
مختاری کی قرارداد کو منظور کیا جائے جو کہ بلکل ویسے ہی ہوا ۔اس کے برسوں
بعد ایک مرتبہ ریاست کے اس پار کے اہم رہنما شیخ عبداﷲ نے بھارتی قیادت سے
کچھ یقین دہانیاں لیں اور جموں جیل میں مقید چوہدری غلام عباس سے بات چیت
کر کے انہیں ایک اہم مشن پر آزادکشمیر بھیجا،انہوں نے آکر پاکستانی قیادت
سے کہا کہ بھارت کہتاہے کہ اگر پاکستان ہماری آزادی کو قبول کرے تو وہ بھی
کشمیر چھوڑنے کے لئے تیار ہے،یہ سن کر پاکستانی عاقبت نا اندیش قیادت کے
ہاتھ پاؤں پھول گئے ،تب یہ فیصلہ کیا گیاکہ چوہدری صاحب کو اتنا ’’پروٹوکول
‘‘ دو کہ وہ ریاست کی خودمختاری کو بھول جائیں ،حکم کی تعمیل ہوئی ،چوہدری
صاحب کو آزادکشمیر کی بے اختیار حکومت کا چیف ایگزیکٹیوبنا ئے جانے کے
علاوہ کئی ایک مراعات دے کرآزاد و خودمختار کشمیر کی ایک اہم آواز کو گم کر
دیا گیا ،اس کے کچھ عرصہ بعد شیخ عبداﷲ پاکستان تشریف لائے اور لیاقت باغ
جلسے میں جہاں چوہدری غلام عباس بھی موجود تھے کہا کہ ہم نے چوہدری صاحب کو
ایک مقدس مشن پر پاکستان بھیجا تھا وہ عوام کو بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا
۔۔۔چوہدری صاحب نے سٹیج پر آئے اور ایک مختصر خطاب میں سیاست سے ہی کنارہ
کشی کا علان کر دیا اور اس کے بعد گوشہ نشینی میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئے ۔وہاں
سے مسلم کانفرنس میں ایک بڑا یو ٹرن آیا اور قیادت کے ساتھ ساتھ آزادی کے
نعرے کی جگہ ’’کشمیر بنیگا پاکستان‘‘ نے لی اور چوہدری صاحب کی گدی مکمل
طور پر سردار قیوم (مرحوم) نے سنبھالی ۔آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے
سپریم ہیڈ سردارمحمد عبدالقیوم خان گزشتہ دنوں قضا الہیٰ اسے انتقال کر گئے
اﷲ باری تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے (آمین) موت بر حق ہے
ہر زی روح کو جاناہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یوم حساب کو ہمیں اپنے تمام
اعمال کے لئے جوابدہ ہونا ہے ۔ہر انسان دنیا میں مثبت یا منفی سہی بہر حال
ایک کردار اداکرتا ہے ،کردارکے میعار جیسے ہو ں انہیں ویسے ہی دنیا میں یاد
رکھا جاتا ہے اور عوامی سطح پر بحث جاری رہتی ہے پھر اچانک بات آئی گئی ہو
جاتی ہے اور لوگ بھول بھال جاتے ہیں لیکن تاریخ سب یاد رکھتی ہے اور مورخ
ہمہ وقت سرگرم رہتا ہے اور اصل حقائق لا کر تاریخ کے سپرد کر دیتا ہے ۔سردار
عبدالقیوم (مرحوم) کے نظریات و کردار اپنی جگہ لیکن ان کے انتقال کے موقع
پران کے ہمدردومخالفین اور ریاستی پرنٹ میڈیا نے بڑی ہی غیر سنجیدگی کا
مظاہرہ کیا ،ایسی ایسی خبریں سننے کو ملی جو تکلیف دہ ہونے کے ساتھ ساتھ
حیران کن بھی تھیں ۔ ایسے وقتوں میں اکثر بدترین رعاکاری دیکھنے کو ملتی ہے
مظلوم ومحکوم ملک جو اپنی غلامی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے تین سے زائد
حصوں میں منقسم ہے جہاں بنیادی انسانی حقوق کی میت چھ عشروں سے ونٹیلیٹر پر
ہے اس پر ستم کہ جو لوگ وحدت کی خاطر لڑتے لڑتے قربان ہوئے انہیں ایجنٹی کا
سرٹیفکیٹ دیدیا جاتا ہے لیکن موجودہ سیاسی و جغرافیائی ناگفتہ بہ حالات کے
زمہ داران کو عظمت عالی شان کے خطابات ’’تھوک‘‘ میں تفویض کر دیئے جاتے ہیں
۔سردار صاحب کے انتقال پر ملال پر تحریک آزادی وتاریخ کشمیر سے نا بلدپی ٹی
وی اور پاک میڈیا نے یہ کہا کہ’’ نیلہ بٹ کے مقام سے بھارتی فوج پر پہلی
گولی چلانے والے اور تحریک آزادی کشمیر کے بانی’’ امت مسلمہ‘‘ کے عظیم
مجائد اول سردار قیوم انتقال کر گئے۔۔ ۔ تقریباً ساٹھ مسلم ممالک میں ڈیڑھ
ارب مسلمان ایک امت ہیں لیکن یہاں کچھ لوگ آزاد کشمیر کو مسلم امہ سمجھتے
ہیں اور جو تھوڑے زیادہ ’’سیانے ‘‘ ہیں ان کی مسلم امہ ’’آزاد کشمیر اور
پاکستان ‘‘ کی حد تک ہے اور ہمارے ملک میں شیخ عبداﷲ سے سردار قیوم (مرحوم)
تک جتنے لوگوں نے اسلام آباد اور نیو دہلی کی خوشنودی کو متاع حیات جانا و
ماناتوانہیں شہید ملت،قائد ملت،غازی ملت ،رئیس الحرار اور مجائد اول جیسے
انعام و اکرام سے نوازہ جاتا رہا ہے ،دوسری جانب ان کے ہمدردوں میں یہ
موضوع زیر بحث بنا کہ کہ ان کے تدفین میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے اور یہاں تک
کہ ایک پاکستانی وزیر بھی تشریف لائے پاک فوج کے ایک دستے نے سلامی دی اور
رمضان کا آخری عشرہ جو کہ جنتی ہونے کی بشارت ہے ۔ قارئین کرام! اس جنازے
سے زیادہ لوگ شیخ عبداﷲ کی تدفین میں تھے جب کہ وہاں بھارتی وزیر اعظم
اندرا گاندھی ،صدر یونین اور انڈین چیف آف آرمی سٹاف شریک ہوئے تھے لیکن اس
کا مسئلہ کشمیرپر کوئی اثر نہیں پڑھا اور وہ قبر آج بھی کشمیری عوام کے لئے
نفرت کا مقام ہے اور تدفین میں لوگوں کے زیادہ ہونے سے کسی کی بخشش وابستہ
نہیں ہے ہر کسی کو اپنے کئے کا حساب دینا ہوتا ہے،جن لوگوں نے زاتی مفاد
وخواہشات کی خاطر بالاخصوص دو کروڑ کشمیری اور بالعموم دو ارب ایشین
انسانوں کے حقوق اور امن کو خطرات میں ڈال دیا ہو ان کی تدفین میں پانچ
ہزار لوگوں کی شرکت انہیں اﷲ کے انصاف سے بچا نہیں سکتی ہے ۔جہاں تک رمضان
میں انتقال ہونا۔۔۔سات ارب انسانوں کی دنیا میں صرف ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں
باقی ساڑھے پانچ ارب لوگ اﷲ و رسول کو نہیں مانتے کافر و مشرک ہیں لیکن
قدرت کے مروجہ نظام کے مطابق وہ لوگ بھی رمضان میں مرتے ہیں ایسا قطعی خارج
از امکان ہے کہ وہ سب جنتی ہوں گے۔ جہاں تک بھارتی فوج کے خلاف گولی چلانے
کا دعویٰ تو تاریخ میں ایسے کوئی شوائد نہیں ملتے کہ مغلوں کے بعد ۲۷،
اکتوبر ۱۹۴۷ تک کشمیر میں انڈین فوج رہی ہو۔ جب کہ آزاد کشمیر کے نیلہ بٹ
کے علاقے میں تو قطعی ایسا نہیں ہوا تو پھر انہوں نے بھارتی فوج کے خلاف
گولی کیسے فائر کی اور وہ بھی نیلہ بٹ سے ۔۔۔؟ اس دوران ریاستی میڈیا نے
بھرپور آواز میں سردار صاحب کو تحریک آزادی کشمیر کا بانی اور مجائد اول
کہا ۔اب سوال یہ ہے اگر آپ نے واقعی پہلی گولی چلائی اور تحریک آزادی کے
بانی ہیں تو پھرآپ کو اس وقت کی قبائلی یلغار جو آج کی بدترین تقسیم کی
بنیاد ثابت ہوئی تھی کی زمہ داری بھی قبول کریں اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے
تو پھرآپکو تحریک آزادی کے بانی ہونے سے دستبردار ہو نا ہوگا ۔رہا مسئلہ
مجائد اول کا ۔۔۔تو یہ لقب محض سیدنا حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے لئے مختص
ہے ۔اس لئے کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار کفر کے خلاف ہتھیار آپ نے اٹھایا
تھا تبھی آپ مجائد اول ٹھہرے ۔اس کے بعد بھی ہزاروں مرتبہ یہ کارنامہ
سرانجام دیا گیا اس لئے اول ہونے کا حق صرف ایک ہی شخصیت کو ہے وہ ہیں
سیدنا حضرت ابراھیم علیہ اسلام ۔ |