قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئر مین قمرزمان چوہدری
کو وزیر اعظم میاں نواز شر یف اورپیپلزپارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے
مشاورت سے نیب کا چیئرمین مقرر کیا تھا ۔ یعنی قمرزمان چوہدری ان کی نظرمیں
وہ شخص تھا جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے لیے مسائل پیدا نہیں کر سکتا ہے۔
تحر یک انصاف کی طرف سے ہمیشہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ پر یہ الزامات لگائے
جاتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کی درمیان مک مکاؤ ہو چکا ہے۔آپ میری کرپشن پر
بات نہیں کر یں گے اور میں آپ کے کر پشن کیسز نہیں کھلوں گا۔
سب سے پہلے تو یہ طریقہ کار ہی غلط ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر نیب
چیئرمین کا چناؤ کریں ۔ جب نیب جسے ادارے کا چیئرمین جس کا کام حکومت کی
کرپشن کو روکنا اور سابق حکومتی کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوتا ہے جب
ان کاانتخاب یہ لوگ کریں تو وہ احتساب کیا کر یں گا اگر غلطی سے وہ احتساب
کی کوشش بھی کر یں تو عوام کی نظروں میں اس میں بھی سچائی نہیں ہو گی بلکہ
اس کے پیچھے لو گ دوسری کہانیاں تلاش کر یں گے جس کہ آج کر رہے ہیں، تو
لہٰذا سب سے پہلے اس طر یقہ کا رکو تبدیل ہو نا چاہیے۔ نیب کے ان ایک سو
پچاس کیسز کی کہانی ایسی نہیں ہے جس طرح میڈیا میں بات کی جاتی ہے کہ نیب
نے حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا اور اب کوئی نہیں بچے گا ۔ حقیقت اس
کے بر عکس ہے ۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع ہوئی کہ نیب میں ماضی کی
کیسز کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی ہے ، سپریم کورٹ ایکشن لے اور ان ہائی
پروفائل کیسز کا نیب سے جواب طلب کر یں۔ سپر یم کورٹ نے دراخوست پر عمل
کرتے ہوئے حکومت کے اٹار نی جنرل سے کیسز کی تفصیلات جمع کرانا کا حکم دیا
جس پر اٹارنی جنرل نے نیب سے تفصیلات مانگی ، نیب حکام نے وہ تفصیلات اٹرنی
جنرل کودی جو انہوں نے سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔ اس لسٹ میں میاں نواز
شریف سے لیکر سابق تین وزرائے اعظم ، یوسف رضاگیلانی، راجہ پر ویز اشرف
اورچوہدری شجاعت سمیت وزیر خزانہ اسحاق ڈاراور بہت سے دوسرے وفاقی وزرا کے
نام شامل ہے۔ سپر یم کورٹ میں اس لسٹ کو پیش کرنے کے بعد حکومت اورپیپلز
پارٹی جاگی اور نیب کو اپنی اوقات یاد دلائی ۔ حالاں کہ یہ لسٹ نیب نے براہ
راست نہیں جمع کرائی تھی بلکہ و فاقی حکومت کے نمائندے اٹارنی جنرل کے
ذریعے جمع کرائی تھی لیکن حکومت کا غصہ یہ ہے کہ نیب کی جرات کیسی ہوئی کہ
وزیراعظم نواز شریف اور دوسرے وفاقی وزرا کانام لسٹ میں ڈالے ۔یہاں سے
کہانی خراب ہوئی جس پر وزیر اطلاعات پر ویز رشید اور اسپیکر قومی اسمبلی نے
نیب پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ نیب حکومت کو چیلنج کر رہی ہے ۔پارلیمنٹ سب
سے بڑا ادارہ ہے ان کی ایک عزت ہے ، نیب کے خلاف پارلیمنٹ میں ریفرنس بھی
آسکتا ہے۔ نیب اپنی اوقات میں رہے جبکہ پر ویز رشید کا کہنا تھا کہ نیب ہی
سب سے کرپٹ ادارہ ہے ،نیب کر پٹ لو گوں کے خلاف تحقیقات کیوں نہیں کر تا ۔
پندرہ پندرہ سالوں سے کیسز نیب میں موجود ہے لیکن کارروائی نہیں ہوتی ۔ اب
نیب کو پرانے کیس یاد آئیں ۔ پارلیمنٹ بڑا ادارہ ہے تو کیا ان کے ارکان کے
خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی ؟دوسرا پرویز رشید اگر سچ کو پہلے بیان کرتے تو
آج نیب میں پرانے کیسز نہ ہوتے۔ پر ویز رشید صاحب کی خدمت میں صرف یہ عرض
ہے کہ جب بھی نیب تحقیقات شروع کر تا ہے آپ جیسی حکومتیں رونا شروع کرتی ہے
اور معاملے کو دبادے دیتی ہے۔ آپ کی پارٹی جب اپوزیشن میں تھی تو اس وقت کے
صدر آصف زرادری کی حکومت کو سب سے کرپٹ حکومت کہتے تھے اور زرادری سے کر
پشن کاپیسے نکالنے کے لیے ان کو سڑکوں پر گھسٹنے کی باتیں کر رہے تھے کہاں
کیا وہ کرپٹ حکومت سے کر پشن کا پیسہ نکالنے کے بیانات اور تقر یریں؟آپ ان
کے خلاف کر پشن کیسز کی تحقیقات کیوں نہیں کر رہے ہیں اور وہ آپ کے کرپشن
پر خاموش کیوں ہے؟ وجہ صاف ہے کہ دونوں کا مک مکاؤ ہوا ہے بلکہ مجھے یاد پڑ
تا ہے کچھ دن پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے تواس پر پیپلز پارٹی اور ایم
کیوایم سے معافی بھی مانگی تھی کہ میں نے غلط کہا تھا کہ ہم آپ سے کر پشن
کا پیسہ وصول کر یں گے۔ حکومت اب بھی پر یشان نہ ہو کہ ان کے اور پیپلز
پارٹی کے خلاف کوئی کا رروائی ہونے جارہی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کیسز
میں کوئی دم خم ہی نہیں جس پر کسی کو سز ا ملے۔ سپر یم کورٹ میں کیسز چلے
گئے وہاں سے اب ختم ہو جائیں گے ۔
صرف ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پر یس کانفر نس میں
کہا کہ ہم نے تو دسمبر دو ہزار چودہ میں تمام رقوم جمع کرائی تھی تو ان سے
یہ سوال پو چھا جا سکتا ہے کہ آپ نے پھر کس قانون کے تحت 2013کے الیکشن میں
حصہ لیا تھا حالاں کہ نیب نے اس کیس کو دبایا تھا ۔ اب سپر یم کورٹ میں یہ
چیلنج ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ اس کا پتہ کچھ دنوں میں ہوجائے گا ۔
ملک میں کر پشن اس وقت تک ختم نہیں کی جاسکتی جس تک احتساب کا قانون سب کے
لیے برابر نہیں ہوتا۔ نیب کو اگر خود مختیار ادارہ بنانا ہے تو ان کو
آزادنہ طور پر کام کر نے دیا جائے ان کا سربراہ حکومتی اثرو رسوخ سے آزاد
ہو ، جیسا کہ اب خیبر پختوں خوا حکومت نے کیا ہے لیکن و فاقی حکومت نیب کو
آزاد نہیں کر یں گی ۔وجہ یہ ہے حکومت چاہتی ہی نہیں کہ احتساب سب کے لیے
ہو۔ پیپلز پارٹی کی طرح میڈیا کا بھی زیادہ تر حصہ حکومت کے ساتھ ملی ہوئی
ہے ۔ حکومت کے خلاف کو ئی کر پشن کیسز پر بات نہیں ہوتی۔اگر آنے والے وقتوں
میں ایک آزاد حکومت آئی جو پیپلزپارٹی اور ن لیگ حکومت کی کرپشن کی تحقیقات
کر یں تو دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ جیلوں میں ہو گی ۔ چیئرمین نیب کے پاس
بھی اچھا مو قع ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ان کیسز کی تحقیقات شروع کر یں تو
پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو گی ۔ حکومت کی کر پشن اور پیپلزپارٹی کے
درمیان مک مکاؤ پر انشاء اﷲ آئندہ کالم میں بات ہو گی۔ |