دی موسٹ ڈینجرس نیشن

جوقومیں اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں تاریکیوں میں بھٹکنا ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ بھارت کو ’’ موسٹ فیورٹ نیشن ‘‘ قرار دینے کی باتیں ہورہی تھیں ۔ ’’ امن کی آشا‘‘ کے نام پر ایک مخصوص طبقہ اپنی تاریخ ، تہذیب اور قوم کا مستقبل اندھیروں کی نذر کرنے پر تُلابیٹھا تھا ۔ نام نہاد دانشوروں کی ایک کھیپ صدیوں کے تاریخی حقائق کو ’’ نفرت کا زہر ‘‘ قرار دے کر قوم کی آنکھوں پر پٹی باندھنے میں مصروف تھی۔ بھارت سے دوستی کے سلوگن ایسے گائے جارہے تھے جیسے بھارت ازلی دشمن نہ ہو بلکہ خاندا ن کا بچھڑا ہوا کوئی فرد ہو۔ بعض دانشور تویکطرفہ دوستی کے نشے میں اندھے ہوکر اس حد تک آگے نکل گئے تھے کہ تعلیمی نصاب سے تاریخی مواد کو نکالنے کے درپے تھے ۔بقول ان کے ’’ پاکستان میں تاریخ کے نام پر نفرت کا زہرپھیلایا جارہا تھا ‘‘ ۔

لیکن آج وہی ’’ نفرت کا زہر ‘‘ حقیقت بن کرسامنے آگیا ۔جب ایک طرف بھارت پاکستان میں جاری دہشت گردی اور قتل وغارت گری کے سب سے بڑے محرک کے طور پر ظاہر ہوچکا ہے اور دوسری طرف مودی سرکار نے سقوط ڈھاکہ میں بھارت کا ’’ امن کی آشا‘‘ والا چہرہ خود بے نقاب کردیا ہے ۔

متعصب ہندو ذہنیت کی مکارانہ چالوں اور دجالی ہتھکنڈوں پر مبنی صدیوں کی تاریخ کو فراموش کرکے یکطرفہ دوستی کی پینگیں بڑھانے والا یہ طبقہ شاید بھول چکا تھا کہ بظاہر امن کی بھاشا بھولنے والا ہندو بنیا ’’ بغل میں چُھری منہ میں رام رام‘‘ کی وجہ سے کیوں مشہور ہے ۔

عین اس وقت جب پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے زیر سایہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کی باتیں ہورہی تھیں اور بھارت کی جانب سے بھی ’’ امن کے بھاشن پربھاشن ‘‘آرہے تھے ، پس پردہ وہی بھارت کیا گل کھلانے جارہا تھا ۔ 2فروری 2010ء کو ایک انگریزی روزنامہ میں رپورٹ شائع ہوئی جس میں واضح طور پر لکھاگیا تھا کہ ’’ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی ایک دستاویز سے لیکڈ انکشافات کے مطابق بھارت نے ’’را ‘‘کی زیرنگرانی ایک سپیشل کاوئنٹر انٹیلی جنس تنظیم ’’ CITX‘ قائم کی ہے جس کو پاکستان میں بڑے پیمانے پر ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کا ٹاسک دیاگیا ہے ۔ اس دوران نئی دہلی کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مذاکرات میں سرگرمی دکھائی جائیگی اور پاکستان کو مسلسل مذاکرات کے عمل میں الجھایا جائے گا ۔‘‘

ممکن ہے اس وقت یہ رپورٹ ہمارے ارباب اختیار کی نظروں سے بھی گزری ہو مگر ’’ فیورٹ نیشن ‘‘ کی طرف سے امن کے بھاشن سن کر یقین نہ کیا گیا ہو ۔تاہم بعد کے حالات ثابت کرتے ہیں کہ رپورٹ غلط نہیں تھی ۔ پاکستان میں کافی خون خرابہ ہوجانے کے بعد سابق بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے امریکن صدر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انتہائی فاخرانہ انداز میں جو مشترکہ پریس کانفرنس کی وہ ہو بہو اس رپورٹ کی تصدیق تھی ۔ من موہن کے الفاظ تھے ’’ ممبئی حملے کے بعد مجھ پر اندرونی اور بیرونی دباو ٔ تھا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن ہم نے ایک اور راستہ اختیار کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ ہمارا وہ فیصلہ صحیح تھا‘‘۔

بظاہر ’’ امن کی آشا‘‘ کی ’’ مالا جپنے‘‘ اور خفیہ طور پر پاکستان میں فسادات کروانے اور بے گناہ لوگوں کا خون بہانے کایہ شیطانی منصوبہ مکار انہ ہندو ذہنیت کا بہترین عکاس اور’’بغل میں چُھری منہ میں رام رام ‘‘ کی واضح مثال ہے ۔ جبکہ پاکستان میں اس دوران بھی ’’ امن کی آشا‘‘ اور ’’ فیورٹ نیشن ‘‘ کی صدائیں گردش کرتی رہیں ۔ تاوقت کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں ’’ را‘‘ کا ہاتھ کھل کر سامنے آگیا اور مودی کی بنگلہ دیش یاترا نے بھی بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ۔

بھارت کے غیر ہندو اقوام کے خلاف مکروہ عزائم، غاصبانہ سوچ ،دجالی ہتھکنڈوں اور شیطانی فکر و فلسفہ کی بنیاد پر دنیا کو بلآخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہندوستان دنیا میں ایک بڑا فتنہ اور اقوام عالم کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے ۔ جس نے کبھی غیر ہندو قوموں کو نہ تو برداشت کیا اور نہ انہیں امن و سلامتی کے ساتھ جینے کا حق دیا ۔ بلکہ غیر ہندو قوموں کے خلاف نفرت ہندو ؤں کی فطرت میں شامل ہے ۔

مشہور جرمن فلاسفر ہیگل نے اپنی کتاب ’’ فلسفہ تاریخ ‘‘ میں لکھا ہے کہ دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنی شدت کے ساتھ خاک بستہ (Earth Rooted) نہیں جتنی ہندو قوم ہے ۔البیرونی نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کے نزدیک ان کے وطن کی سرزمین سے باہر کی ساری دنیا ناپاک ہے( گویاپاک دھرتی صرف انہی کا وطن ہے) ۔وہ غیر ملکیوں کو ملیچھ کہتے ہیں ‘‘۔

تمام کائنات اﷲ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور زمین اﷲ کی مسجد ۔ جہاں انسان کاکام رب کائنات کے کلمۂ توحید کو بلندکرنا ہے لیکن اس کے برعکس ہندؤں کاانوکھا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی سرزمین ان کے دیوتاؤں کی سرزمین ہے اس پر صرف ہندوؤں کا حق ہے ۔ اپنے اس بے سروپا مفروضے کوبنیاد بنا کرہندو سماج ہمیشہ غیر ہندو اقوام کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا ۔ بدھ ، یونانی ، ہن سمیت بے شمار قومیں مکار ہندو ذہنیت کے دجالی ہتھکنڈوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اکھنڈ بھارت کی بنیادوں میں دفن ہوگئیں ۔ مسلمانوں کو بھی ’’ دین اکبری‘‘ اور آئین اکبری جیسے ابلیسی فریب کے ذریعے ’’ رام ‘‘ کرنے کی مزموم کوشش کی گئی لیکن مجدد الف ثانی ؒ ،شاہ ولی اﷲ ؒ ، شاہ اسمعیل شہیدؒ ،سید احمد شہید ؒ جیسے اﷲ کے نیک بندوں نے مسلمانوں کے علیحدہ قومی تشخص کوزندہ و قائم رکھا ۔ جس کی بناء پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا جو کہ ہندؤوں کے مکروہ عزائم اور غاصبانہ سوچ (اکھنڈ بھارت) پر کاری ضرب تھی ۔ ہمیشہ سے غیر ہندو قوموں کو تسلیم نہ کرنے کی عادی قوم پاکستان کو کیسے تسلیم کرسکتی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ گاندھی ، نہرو اور دوسرے کانگریسی لیڈروں نے ہر سطح پر ہندؤوں کو پاکستا ن کے خلاف اُبھارا۔ مسٹر ماورکر ، ڈاکٹر مونجے اور مکر جی نے مسلمانوں کی خلاف ایک پیغام میں کہا کہ ’’آریوں کو چاہیے کہ ہندوستان میں ایک بھی مسلمان باقی نہ رہنے دیا جائے ‘‘۔ پونا کی سادھو کانفرنس میں مسٹر انیے نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا ’’ پاکستان یعنی اسلامستان کی تحریک نہایت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔ میں ہندو سادھوں اور سنتوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ بحیثیت مجموعی اسلامستان کی تحریک کی مخالفت کریں اور ہندوستان کو کسی دوسری قوم پر تقسیم نہ ہونے دیں کیونکہ ہندوستان صرف ہندوؤں کے لیے ہے ‘‘۔

آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ہز ماسٹر ز وائس ، ہندو مہاسبھا کے صدر اور رہنما شنکر اچاریہ نے کھلے لفظوں میں اعلان کیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے ۔ مسلمان یہاں مہمان ہیں اگر ان کو یہاں رہنا ہے تو ان کو چاہیے کہ مہمانوں کی طرح رہیں ۔ دیوان چمن لال جو مشہور ہندو لیڈر تھے کے الفاظ ہیں ۔ ’’میں نااُمید ہونے والوں میں سے نہیں ہوں ، اس لیے مجھے یقین ہے کہ تقسیم ہند ایک عارضی حادثہ ہے ۔ ‘‘

قیام پاکستان سے چند ماہ قبل یعنی 1947ء کے اوائل میں پروفیسر بلراج مدھوک کی کتاب (Hindustan on the Gorss Roads)شائع ہوئی ۔ وہ لکھتا ہے کہ ہندو مسلم مسئلہ کا حل فقط یہ ہے کہ یہاں کی ساری آبادی کو ’’ ہندوایا ‘‘ جائے ۔ مراد یہ ہے کہ یہاں کے سارے باشندے اس طرح ہندوستانی بنیں کہ نام بھی غیر ہندوستانی نہ رکھیں ،لباس بھی غیر ہندوستانی نہ اختیار کریں ۔ انہیں چاہیے کہ اپنے ہیرو بھی ہندوستانی بہادروں کو مانیں ۔ اگر ایسا ہو تو ہندو مسلم مسئلہ ختم ہو جاتا ہے ۔ پھر مسلمان یہاں امن اور چین سے رہ سکتے ہیں ۔ اسی پروفیسر بلراج مدھوک کا بعد میں (1990ء یا 1991)ہندوستان سے ایک مضمون شائع ہوا جسے نوائے وقت نے بھی شائع کیا ۔وہ اپنے مضمون کا ہندوستان میں رواد اری اور مذہبی آزادی کے حوالے سے کرتا ہے اور آخر میں لکھتا ہے ۔

’’ ہندوستان مذہبوں کی دولت مشترکہ ہے ۔ حال یہ ہے کہ نہ یونانی رہے ، نہ ہن رہے ، نہ بدھ رہے اور نہ مسلمانوں کو مسلمانوں کی طرح رہنے دیا جارہا تھا ۔ ان سے تو صرف یہ کہا جارہا تھا کہ وہ کہلائیں فقط ہندو ، نام عربی نہ رکھیں یعنی محمد ، احمد ، حسین ، علی وغیرہ بلکہ دیال ، آنند ، کنہیا ، رام ، کرشن ، دھوتی پرشاد ، چُٹیارام جیسے نام رکھیں اور اپنے ہیرو ارجن ، بھیم ، بکرماجیت ، رانا پرتاب اور شیوا جی کو تسلیم کریں ۔ پھر کوئی غم نہیں ، مسلمان امن سے رہ سکتے ہیں ۔ بھارت تو عالی ظرف لوگوں کا وطن ہے اور نظریات و مذاہب کی دولت مشترکہ ‘‘

ہندوؤں کا پاکستان کے خلاف نفرت کا یہ عالم ہے کہ 68سال گزرجانے کے بعد بھی ان کے مکروہ عزائم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ آزادی نیم شب (Freedom at midnight)میں نتھو رام گوڈسے (جس نے 48ء میں گاندھی کو قتل کیا تھا )نے اپنی آخری خواہش یہ ظاہر کی تھی کہ اس کو مرنے کے بعد جلا دیا جائے اور اس کی راکھ اکھٹی کرکے گنگا میں نہ بھائی جائے بلکہ اس راکھ کو اس وقت تک سنبھال کر رکھا جائے جب بھارت دوبارہ متحد ہو اور اس وقت اس کی راکھ دریائے سندھ کے منبع میں گرائی جائے تاکہ وہ پوری وادی ٔ سندھ میں سے گزرتی ہوئی بحیرہ عرب میں جاگرے ۔ گویا اس کی راکھ اس ساری زمین کو پاک کردے گی جو پاکستان بن جانے سے بھرشت (پلید) ہوگئی ہے۔اسکے بھائی گوپال داس گوڈسے نے یہ راکھ سنبھال کر رکھی ہے ۔ وہ پونا میں رہتا ہے ۔ اس نے اپنے مکان کے ایک کمرے کی ایک دیوار پر متحدہ ہندوستان کا نقشہ بنارکھا ہے ۔ اس نقشے کے نیچے چاندی کے مرتبان میں نتھو رام گوڈسے کی راکھ ہے ۔ ہر سال 15نومبر کو نتھو رام گوڈسے کے ’’گوروداسے ‘‘ اکٹھے ہوکر تجدید عہد کرتے ہیں کہ وہ بھارت کو پھر متحد کریں گے اور پاکستان کا (خدانخواستہ ) نام و نشان مٹا دیں گے ۔

پاکستان میں ہر نئی حکومت کے ساتھ پالیسیاں بھی بدلتی رہتی ہیں ، بھارت سے دوستی اور تجارت ہر حکومت کی خواہش رہی ہے نیز بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا ایک طبقہ ہر دور میں موجود رہا ہے مگر بھارت کی تمام تر پالیسیاں ابھی تک قدیم منو سمرتی سے باہر نکلتی دکھائی نہیں دیتیں اور نہ ان میں کبھی کوئی تبدیلی رونما ہوسکی ۔

’’ ہمیشہ حملے کی تیاری رکھ ، اپنی طاقت کی نمائش کرتا رہ ، اپنے راز چھپائے رکھ اور دشمن کی کمزوری کا کھوج لگا ، بگلے کی طرح یکسوئی سے شکار کو تاڑ ، شیر کی طرح وار کر ، بھیڑیے کی طرح نوچ ڈال اور فرار کے وقت خرگوش کی طرح بھاگ ۔ اپنے ہمسائے راجہ (پاکستان)کو دشمن اور دشمن(چین) کا ساتھی سمجھ ، ہمسائے کے ہمسائے (افغانستان)کو دوست رکھ ، جو راجہ ان دونوں کے پرے ہو(ایران) اس کے ساتھ غیر جانبدار رہ ۔ جب امکان آئندہ غالب آنے کا اور حال میں کچھ نقصان ہونے کا ہو تو امن کا چرچا کرتا رہ ۔ اگر خوشحال ہو تو فوراً جنگ کر ۔ جب تیرے رتھ ،جانور اور فوجیں کم ہوں تو احتیاط سے خاموش بیٹھ اور رفتہ رفتہ دشمنوں سے صلح اور آشتی کی گفتگو کرتا رہ ۔ بیوی کو بچانے کے لیے دولت دے ڈال لیکن اپنی ذات کو محفوظ کرنے کے لیے بیوی اور دولت دونوں دے ڈال ‘‘

ہندوؤں کے اس ابلیسی فکر وفلسفہ ، مکار ذہنیت ، اکھنڈ بھارت جیسے مکروہ عزائم اور غاصبانہ سوچ ، منو سمرتی جیسے دجالی نظام ، کفر وشرک پر مبنی شیطانی تہذیب ، ’’شدھی ، سنگٹھن اورگھر واپسی ‘‘ جیسے دجالی ہتھکنڈوں ، اقلیتوں کی بستیاں اُجاڑنے اورانہیں زندہ جلانے جسے انسانیت سو ز مظالم کی بنا ء دنیا کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ موسٹ فیورٹ نیشن نہیں بلکہ ’’ دی موسٹ ڈینجرس نیشن ‘‘ ہے ۔ جسے اسلام نے آج سے 1400سال قبل ایک بڑا فتنہ قرار دیتے ہوئے غزوہ ہند کی خصوصی اہمیت بیان کی ۔نبی برحق رحمت اللعالمین ﷺ کا یہی فرمان عالی بھارت کے ظلم و استحصال کی چکی میں پستی ہوئی اقلیتوں اور خطہ کے مسلمانوں کے لیے نجات کا ذریعہ ہے ۔ جلد یا بدیر خطہ کے تمام مسلمانوں کو اسی بنیاد پر متحد و منظم ہونا ہوگا کیونکہ یہی ان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے ۔

Rafiq Chohdury
About the Author: Rafiq Chohdury Read More Articles by Rafiq Chohdury: 38 Articles with 52297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.