لہو کے چراغ

 ارینہ کے یہا ں کچھ ہی دنوں کے بعد پہلے بچے کی پیدائش متو قع تھی اس کے چہرے پر ابھی سے مامتا کی الو ہی محبت ایک ان دیکھے وجود کے لیے چمک رہی تھی۔ سب کچھ نارمل تھا وقت مقررہ پر ارینہ اس مر تبے پر فا ئز ہو گئی کہ جب جنت اس کے قدموں تلے بچھ گئی ۔پہلی اولاد بھی انتہا ئی خوبصورت ہوتی ہے۔ کومل گول مٹول سر خ و سفید فر شتوں جیسی مسکراہٹ لیے اس بیٹی کا وجود جیسے ارینہ کی ذات کو مکمل کر گیا اس وقت ارینہ کے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ اس کی ذات کو مکمل کر نے والی یہ ننھی سی ذات خود نامکمل ہے۔ آنے والے چند دن اس نئی ماں کے لیے بہت تکلیف دہ اوراذیت ناک تھے۔ دنیا ئے رنگ و بو میں نازک سے قدم رکھنے والی اسکی یہ ننھی بیٹی کونسی ایسی بیماری میں مبتلا تھی جس میں جسم میں خون بنا نے کی صلاحیت نہیں پا ئی جا تی اور اسے ہر پندرہ دن بعد خون کی ضرورت تھی۔ پندرہ دن صرف پندرہ دن۔ ایک طویل صبر آزما دور کا آغاز ہو چکا تھا ۔وہ اپنی بچی کی زندگی کے لیے دوسروں کی محتاج تھی۔ خود اس کا شوہر کئی بار اپنی لخت جگر کو خون دے چکا تھا ۔ان دونوں کا بس چلتا تو ننھی جان پر اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچھا ور کر دیتے مگر یہ کو ئی افسانہ یا ناول کی اسٹوری تو نہ تھی۔ یہ تو زندگی کی وہ تلخ حقیقت تھی جس کا ایک ایک کڑوا گھونٹ ان کو ہر ہر دن پینا تھا ۔اک آگ کا دریا تھا جو اُن کو طے کر نا تھا ۔

ہر پندرہ دن بعد خون کا حصول گو یا جو ئے شیر لا نے سے کم نہ تھا مگر بچی کی زندگی کی خاطر وہ کسی نہ کسی طر ح خون کا انتظام کر تے۔ جس دفعہ کہیں سے نہ ملتا وہ دونوں ماں باپ خود اپنا خون دیتے مگر عملاً یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ ہر دفعہ اپنا ہی خون دیتے۔ انہیں بہر حال کسی نہ کسی ڈونر کا انتظام کرنا ہی پڑ تا۔ ہر صحتمند سے صحتمندشخص خون دینے سے ڈرتا تھا لیکن کچھ خدا ترس ایسے بھی تھے جو ہر تین ماہ بعد با قاعدگی سے خون کا عطیہ کر تے تھے۔ خون کا ہر ہر قطرہ ننھی علینہ کے جینے کا سبب بن جا تا ۔

تیرہ سال ایک طویل عرصہ ہو تا ہے ۔اب ننھی علینہ نے مستقبل کے ننھے ننھے خواب بننا شروع کر دیے تھے۔ وہ خواب جنہیں شاید کبھی پو را نہیں ہو نا تھا۔ اس کی ماں ان جگمگا تی آنکھوں کو دیکھ کر دوبارہ لہو کی بھیک مانگنے نکل جا تی تا کہ ننھی پر ی کو ادھار کے چند اور دن جینے کے لیے مل جا ئیں ۔

تھیلیسیماخون کی ایک ایسی بیماری ہے جو ماں باپ کی طرف سے اولاد میں منتقل ہو تی ہے (Inherited)اس میں جینGeneکی خرابی یا ورانٹی کا عمل دخل ہو تا ہے بیمو گلوبن کی افزائش کم ہو تی ہے یا بالکل نہیں ہو تی جس کی وجہ سے انسا نی جسم میں ریڈ بلڈ سلیز کی کمی ہو جا تی ہے۔

تھیلیسیمیا میں انسانی جسم میں آئرن کی زیا دتی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ہڈیوں کا بھر بھرا یا ٹیڑھا ہو جا نا عمل میں آتا ہے۔تھیلیسیمیا کی اقسام کو سمجھنے کے لیے ہمیں بلڈ خون کی بہت سمجھنا پڑے گا ۔ ہیمو گلوبن آکسیجن کیری کر نے والا ریڈ بلڈ سیل ہے۔ R.B.Cجو کہ دو مختلف پرو ٹین پر مشتمل ہو تا ہے نمبر ایک الفا نمبر دو بیٹا ۔

انسانی جسم اگر ان میں کو ئی ایک یا دونوں پر وٹین بنانے سے قاصر ہو تو ریڈ بلڈ سیل اور ہیموگلوبن بننے کا عمل کم یا ختم ہو جاتا ہے۔ بہت ساری صورت حال میں ریڈ بلڈ سیل R.B.Cکا سیل بہت چھو ٹا (Small)سا ئز کا ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آکسیجن کیری نہیں کر پاتا۔

ریڈ بلڈ سیل اور ہیموگلوبن ہی وہ عنصر ہے جوانسانی جسم کو آکسیجن کی ترسیل کا کام سر انجام دیتا ہے اس کے علا وہ انسانی جسم میں مو جود بون میرو جو کہ ایک اسفنج نما جیلی لا ئک اسٹر کچر ہو تا ہے اور انسانی خو راک میں مو جود آئرن کو استعمال کر کے ریڈ بلڈ سیلز اور ہیمو گلو بن پیدا کر تا ہے جو انسا نی افعال و حرکات میں استعمال ہو تا ہے ۔لیکن تھیلیسیمیا کے مریض کے جسم میں مو جود بون میرو میں آئرن کو استعمال کر کے ریڈ بلڈ سیلز اور بیمو گلو بن کو پیدا کر نے کی صلا حت یا تو سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے یا ہیمو گلوبن پیدا کرنے کی یہ صلا حیت بہت کم ہو تی ہے جس کی وجہ سے مر یض کے جسم میں شدید خون کی کمی (اینمیا)پیدا ہو جا تی ہے ۔شدید تھیلیسمیا کے کیس میں مر یض کو ریگولر بلڈٹرانسفیوژن کی ضرورت پیش آتی ہے۔

دوالفا گلوبن سیل اور دو بیٹا گلوبن سیل کے چین ہیمو گلوبن کو انسانی جسم میں پیدا کر نے کے ذمہ دار ہو تے ہیں اور اسی کی منا سبت سے تھیلیسیمیا کی دو اقسام ہو تی ہیں۔
۱) الفا تھیلیسیمیا ۲) بیٹا تھیلیسیمیا

۱) الفا تھیلیسیمیا دراصل ما ئنر یعنی کیریئر ہو تے ہیں ان کو خا موش کیریئر Silent Careerبھی کہا جا تا ہے جب کہ بیٹا تھیلیسمیا میجر ہو تا ہے جس کا واحد علا ج تبدیلی خون ہے اور تبدیلی خون کے لیے صحتمند انسان کا خون درکار ہو تا ہے ۔یہ بات ایک حقیقت ہے کہ صحت مند انسان ہر تین ماہ بعد خون دے سکتا ہے مگر ہما رے معا شرے میں ابھی تک علم کی روشنی اتنی نہیں پھیلی کہ ہر انسان اس بات پر یقین کر لے کہ ایک صحتمند انسان اگر ایک مر تبہ خون دے تو وہ صرف ایک گلا س دودھ ،پانی یا جوس پی کر اس کا متبا دل حا صل کر لیتا ہے گو کہ اسی معا شرے میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں کہ جن کو سلام پیش کر نے کا دل چا ہتا ہے وہ دکھی انسا نیت کی خدمت کے جذبے سے سر شار سو سے بھی زائد مر تبہ خون کا عطیہ دے چکنے کے با وجود خدمت کے جذ بے سے سر شار ہو تے ہیں۔مشعلِ راہ ہو تے ہیں۔ خون کے طلب گار ان جگمگاتی آنکھوں والے بچوں کی زندگی صحت مند انسانی خون کے عطیے سے مشروط ہو تی ہے۔ اس خون کے عطیے کے بدلے انہیں دل سے نکلنے والی ماں کی دعا ئیں ملتی ہیں ۔

دراصل ہما رے معا شرے میں عطیہ خون سے متعلق آگا ہی کی ضرورت ہے اور یہ آگا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ آگا ہی ہر سطح پر درکار ہے اسکولوں کی سطح پر یو نیو رسٹی کا لج حتیٰ کہ شہروں اور دیہا توں کی آبا د یوں میں میں عطیہ خون کے متعلق آگا ہی مہم کی ضرورت ہے۔ لا یعنی خدشات جو ہما ر ے ذہنوں میں پل رہے ہو تے ہیں کہ خو ن کا عطیہ دینے والا کمزور ہو جا تا ہے یا بیما ری کا شکا ر ہو جا تا ہے یا کچھ افراد کے ذہن میں یہ بات ہو تی ہے کہ عطیہ خون کے بعد وزن بڑ ھ جا تا ہے حا لانکہ یہ تصور بالکل غلط ہے ۔کچھ لو گ خون کا عطیہ کر نے کے بعد اپنی خو راک میں اضا فہ کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا وزن بڑ ھ جا تا ہو گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خون کا عطیہ کر نے والے زیا دہ صحت مند جسم و دما غ کے مالک ہو تے ہیں ۔ایک طرف وہ بیمار بچوں اور افراد کی دعائیں لیتے ہیں تو دوسری طرف ان بیمار بچوں کے والدین بھی ہر ہر لمحہ ان افراد کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں ۔جس طر ح مال کی زکوۃ پیسے سے ادا کی جا سکتی ہے اسی طر ح اﷲ کی طرف سے عطا کردہ صحت مند جسم کی زکوۃ عطیہ خون سے ادا کی جا سکتی ہے۔
خون کا عطیہ تھیلیسیمیا کے مر یض بچوں کے جسموں میں زندگی بن کر دوڑ تا ہے ان کا رواں رواں عطیہ دینے والے کی صحت و سلامتی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتا ہے ۔

گز شتہ دنوں ایک تنظیم کی جانب سے ایک نجی اسکول میں عطیہ خون سے متعلق آگا ہی کہ مہم چلا ئی گئی۔ خواتین و مرد اسا تذہ کو خون دینے سے متعلق تو ہمات و خدشات کے حوالے سے جوابات دیے گئے ۔اسٹاف میں مو جود و بیشتر افراد نے عطیہ خون دیا اور بیمار بچوں کی دعا ئیں سمیٹیں ۔اس مو قع پر سو سے زائد دفعہ عطیہ خون دینے والے کر نل مصطفی کما ل اکبر بھی مو جود تھے ۔

جن کی صحت مندی اس بات کا بین ثبوت تھی کہ خون کا عطیہ دینے سے کو ئی کمزور یا بیمار نہیں ہو تا۔ اس مو قع پر ایک ماں مسز شبنم بھی مو جو د تھیں جن کی اپنی بیٹی اسی مرض کا شکار رہ کر لقمہ اجل بن چکی تھی اور وہ اپنے تجر بات سب سے شئیر کر رہی تھیں کہ کس طر ح انہوں نے اپنی بیٹی کی وفات کے بعد اپنی زندگی تھیلیسیمیاکا شکار مر یض بچوں کے لئے وقف کر دی۔ اسکول میں موجود خواتین و مرد اسا تذہ کا جو ق در جوق خون کا عطیہ دینے کا عمل اس بات کا ثبوت تھا کہ انسانیت ابھی ختم نہیں ہو ئی۔ شمع سے شمع جلا نے کا عمل جا ری ہے آگا ہی کے اس عمل کو اسکول یو نیورسٹی کا لج اور شہری و دیہی آبادی میں جاری رہنا چا ہیے تا کہ تھیلیسیمیا کے مر یض یہ بچے اپنے آپ تو تنہا نہ سمجھیں ۔
بقول شاعر ۔
کرو نہ فکر ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
لہوکا تیل چرا غوں میں روشنی کے لئے

پا کستان میں تھیلیسیمیا کے بڑ ھتے ہو ئے مر یضوں کو دیکھتے ہو ئے آگا ہی مہم ضروری ہے۔ شادی سے پہلے بلڈ ٹسٹ کی ترویج پر توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ شادی سے قبل کرایا جانے والا ایک چھوٹا سا ٹیسٹ آنے والے کل میں تھیلیسیمیا کے مر یضوں میں کمی کا باعث بن سکتا ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48375 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.