امریکی غلامی اور دہشت گردی، مسائل کا حل کیا ہے؟

ویسے تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد تقریباً تمام حکومتوں نے عوام کی خواہشات کے برعکس اپنے آپ کو امریکی غلامی میں دینے پر ہمیشہ فخر محسوس کیا لیکن مشرف کی آمریت میں امریکی غلامی نے مملکت خداد پاکستان کو انتہائی بدحال کردیا۔ ایک فون کال پر سجدے میں گرنے والے ”کمانڈو“ آمر نے امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر اس ملک اور اس کے عوام کی ایسی درگت بنائی، ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد کیا کہ جس کی سزا شائد آنے والے کتنے برس جاری رہے گی۔ 9/11 کے بعد جب امریکی احکام پر پاکستان نے اپنی افغان اور کشمیر پالیسی پر یو ٹرن (U-Turn) لیا تو کوئی ذی شعور سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کا مستقبل اتنا بھیانک بھی ہوسکتا ہے۔ یقیناً دہشت گردی ایک بہت گھناﺅنی اور قابل مذمت حرکت ہوتی ہے لیکن ایک خاص سوچ اور نظریہ کے تحت ایسے اعمال سرانجام دئے گئے، اس طرح سے معصوم اور بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا کہ رد عمل میں لاتعداد ایسے لوگوں نے جنم لیا جن کا مقصد حیات ہی اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ انہوں نے اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لینا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ حکومت نے آج تک قبائلی علاقوں میں شہید ہونے والے بے گناہوں کے لواحقین کو کبھی اعتماد میں لینے کی کوئی شعوری کوشش ہی نہیں کی، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ہر روز پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں دہشت گردی کی ایسی کاروائیاں ہوتی ہیں جس میں بے شمار معصوم اور بے گناہ لوگ شہید و زخمی ہوجاتے ہیں۔ حکومت شہید ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کر کے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔

ہمیں یقیناً دہشت گردی اور جہاد و امریکی پالیسیوں کے خلاف رد عمل کو الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی شخص جس نے کلمہ پڑھا ہو، چاہے نام کا ہی مسلمان ہو، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا امتی ہونے کا دعویدار بھی ہو، وہ کسی بھی دہشت گردی کی کاروائی میں ملوث ہو سکتا ہے۔ اسلام تو ایک مکمل امن کا مذہب ہے، یہ تو کسی بھی انسان کے خلاف ایسی کاروائی کی اجازت نہیں دیتا کجا کہ کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف! ہماری حکومت جو مکمل طور پر اپنے آپ کو امریکی غلامی میں دے چکی ہے، جس کا قبلہ اللہ کے گھر کعبہ کی بجائے وائٹ ہاﺅس بن چکا ہے، وہ قطعاً عوام کو سچ نہیں بتا رہی۔ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے بعد ایک خود ساختہ تنظیم ”تحریک طالبان پاکستان“ کی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کروا لی جاتی ہے، حکومتی زعما، وزراء اور بیوروکریسی کے کل پرزے دہشت گردی کے خلاف بیانات دے کر اور مالی امداد کا اعلان کر کے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ جگہ جگہ ناکے، چیک پوسٹیں اور تلاشیاں صرف عوام کو تنگ کرنے اور دکھانے کے لئے ہوتی ہیں جبکہ بھارت، امریکہ، اسرائیل، بلیک واٹر اور کسی حد تک افغانی ایجنسیوں کے لوگ جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں، کاروائی بھی کر جاتے ہیں اور ہم سانپ کی لکیر کو پیٹتے رہ جاتے ہیں۔

اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اصل طالبان امریکہ کے خلاف افغانستان میں جہاد کررہے ہیں، مذہب کے ساتھ وابستہ وہ لوگ کسی مسلمان تو دور کی بات اپنی قید میں آئے ہوئے عیسائیوں اور یہودیوں پر بھی کسی قسم کا تشدد نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے حسن سلوک سے بے شمار امریکی، یورپی اور دوسری اقوام کے فوجی اور میڈیا سے وابستہ لوگ ایمان کی دولت سے بھی سرفراز ہوئے۔ خبروں اور دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان نامی دہشت گردانہ تنظیم کو بھارت اور امریکہ کی مالی اور افرادی امداد حاصل ہے۔ بلیک واٹر کے دہشت گردوں کی ملک میں موجودگی اب کوئی معمہ نہیں رہا۔ بلیک واٹر کے اہلکار امریکی سفارتی کوور (Diplomatic Cover) کا سہارا لے کر پورے ملک میں بلا روک ٹوک دندناتے پھرتے ہیں اور پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیوں میں سے کسی میں اتنی جرات نہیں کہ ان کو روک کر تلاشی ہی لے سکیں۔

”دہشت گردی“ کے خلاف جنگ جس کے ساتھ پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، ہم پر زبردستی مسلط کر ہی دی گئی ہے تو حکومت اور پوری قوم کو اس سے کس طرح نکالا جائے، یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہماری حکومت، ملکی دفاع سے وابستہ افراد اور ایجنسیوں کو بہت پہلے سوچ لینا چاہئے تھا۔ اپنی روایات کے مطابق اس سلسلہ میں ہماری کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ صرف ناکے لگا کر، چیک پوسٹیں قائم کر کے اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی نقل و حرکت کو محدود کر کے، ساری کی ساری پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو صرف چند لوگوں کی حفاظت پر مامور کر کے ہم کوئی حوصلہ افزاء نتائج حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی جنگ جیتنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ اگر ہمیں اس مسلط شدہ جنگ کو جیتنا ہے، اور ہمیں اپنے بچوں کو عراق اور فلسطین جیسے حالات سے بچانا ہے تو اس جنگ کو ہمت، حوصلے اور جرات مندانہ سے لڑنا بھی ہوگا اور جیتنا بھی ہوگا۔ سب سے پہلی بات جو میں اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہمیں بطور قوم اللہ تعالیٰ سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنی ہوگی۔ اللہ کسی فرد کے انفرادی گناہوں کو تو معاف کردیتا ہے لیکن قوموں کے اجتماعی گناہوں کو معاف نہیں کرتا۔ ہمیں گڑگڑا کر، رو رو کر اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے اللہ کو منانا ہے، روٹھے ہوئے اللہ کو منانے اور اس کی رحمتوں کے حصول کے لئے ہمیں غیر اللہ کی غلامی سے نکلنا ہوگا چاہے وہ امریکہ کی صورت میں ہو یا کسی بھی اور شکل میں! اللہ کی وحدانیت اور اسکی ذات و صفات کے ساتھ جو شرک ہمارے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی معرکہ کو جیتنے کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”اپنے گھوڑے تیار رکھو“ ہمیں اس وقت درپیش چیلنجز کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی۔ صرف پولیس، رینجرز، فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر انحصار کی بجائے پوری قوم کو ایسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے جس کے تحت ہم اپنے دشمنوں کو پہچان سکیں اور اپنی صفوں سے نکال سکیں۔

حکومت کا فرض ہے کہ وہ پولیس اور دیگر ایجنسیوں کی سائنسی اور جنگی بنیادوں پر تربیت کا اہتمام کرے۔ ہمارے اکثر پولیس اور چیک پوسٹوں پر تعینات جوانوں کو بارود کی ”بو“ اور ”رنگ“ کا بھی اندازہ نہیں۔ موجودہ حالات کے مطابق ان کی خاطر خواہ ٹریننگ ہونی چاہئے۔ دھماکہ خیز مواد کہیں سے بھی مل سکتا ہے اور اسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ ایسی چیزوں پر اس طرح سے پابندی عائد کی جائے اور پھر اس پر عمل بھی کیا جائے کہ کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر ایسی اشیاء دستیاب نہ ہوسکیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ”کمیونٹی پولیس“ کا تصور عام ہے جس میں ایک مخصوص علاقہ میں کسی بھی اجنبی کی آمد خفیہ نہیں رہ سکتی، دوسری طرف ہماری معاشرتی اقدار زوال پذیر ہونے کی وجہ سے ایک شخص کے علم میں ہی نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ والے گھر میں کون رہائش پذیر ہے، کیا کرتا ہے، اس کے ہاں کس طرح کے لوگوں کی آمد و رفت ہے، اس سلسلہ میں بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کمیونٹی پولیس یا اس سے ملتے جلتے نظام کے لئے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کے طالب علموں، مقامی مساجد کے خطباء و اماموں، فوج،پولیس، بیوروکریسی اور دیگر تمام محکموں کے ریٹائرڈ لوگوں سے معاونت لی جاسکتی ہے اور وہ بخوشی اس کام کو عین ثواب سمجھتے ہوئے اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پولیس ،امن و امان قائم رکھنے والی دیگر ایجنسیوں اور عوام میں فاصلے کم کرنے کی اور اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایک اور اہم بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ پورے پاکستان میں شائد ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں کسی جرائم پیشہ فرد کو مکان کرایہ پر لینے میں کسی مشکل اور دقت کا سامنا ہو، پراپرٹی ڈیلر حضرات کو بھی اعتماد میں لینے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ صرف چند ہزار کے عوض وہ نہ صرف ایک غیر قانونی کام سرانجام دے دیتے ہیں بلکہ اپنی اور باقی لوگوں کی جان کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے پاس مختلف النوع ”تھنک ٹینک“ موجود ہیں، اگر ان سے صحیح طریقے سے افادہ کیا جائے، خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی جائے، روٹھے ہوئے اللہ کو منایا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے، عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں اعتماد دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان مشکل حالات سے عہدہ برا اور سرخرو نہ ہوسکیں۔ بس ہمیں چاہئے کہ اپنی نیت ٹھیک کرلیں، امریکہ کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکیں، اللہ کی ذت بہت رحمان و رحیم ہے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222428 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.