اظہار رائے کے ذرائع میں
وسعت پیدا ہو نے سے اس مطالبے میں تیزی آئی ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک با
اختیار اور باوقار حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔آزاد کشمیر میں حکومت
کام تو کر رہی ہے لیکن اسے بااختیار اور باوقار قرار دینا بہت مشکل ہے۔آزاد
کشمیر حکومت کو با اختیار بنانے کے حوالے سے مختلف آراء نظر آتی ہیں۔ عمومی
طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ 1974ء کے عبوری آئین میں ترامیم کر کے آزاد
کشمیر حکومت کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے اورکچھ اسے پاکستان کا صوبہ
بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔آزاد کشمیر کے نام کے خطے کا قیام کسی غیر
منظم بغاوت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ معتصب ہندو غلبے والے ڈوگرہ راج کے خلاف
ریاستی مسلمانوں کی ایک سوچی سمجھی جدوجہد آزادی تھی۔آزاد کشمیر کے بانی
صدر سردار محمد ابراہیم خان نے اپنی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ تمام
ریاست میں ایک ہی وقت جدوجہد آزادی شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا
تھا۔مختلف وجوہات سے یہ منصوبہ قبل از وقت افشاں ہو جانے سے ڈوگرہ حکومت نے
اس کے سد باب کے طور پر مسلمان فوجیوں سے اسلحہ واپس لے لیا۔گلگت بلتستان
کے فاتح کمانڈر کرنل مرزا حسن خان نے بھی اپنی کتاب میں مسلح جدوجہد آزادی
بیک وقت شروع کرنے کے اس منصوبے کے متعلق لکھا ہے۔ کرنل مرزا حسن خان
سرینگر تعینات تھے اور انہوں نے مقررہ وقت پر تمام ریاست کی طرح وہاں سے ہی
بیک وقت آزادی کی مسلح جدوجہد کا اآغاز کرنا تھا۔ڈوگرہ حکومت کے پیشگی
اقدامات کے طور پر کرنل مرزا حسن خان کا تبادلہ گلگت کر دیا گیا جس پر
انہوں نے وہاں سے ہی منصوبے کے مطابق جنگ آزادی کا آغاز کر دیا۔24 اکتوبر
47 ء کو سردارمحمد ابراہیم خان کی صدارت میں باقاعدہ حکومت ’’آزادجموں
وکشمیر حکومت ‘‘کے نام سے قائم کی گئی چنانچہ اس دن پلندری سے حسب ذیل
اعلان جاری ہوا،
’’ہنگامی حکومت نے جسے عوام نے کچھ ہفتے قبل ناقابل برداشت ڈدوگرہ مظالم کے
خاتمہ اور عوام کے آزادانہ اقتدار کے حصول کے لئے بنایا تھا، اب ریاست کے
ایک بڑ ے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور بقیہ حصے کو ڈوگرہ ظلم کے تسلط سے آزاد
کرانے کی امید کئے ہوئے ہے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت کی تشکیل نو عمل میں
لائی گئی ہے ا ورصدر دفاتر کو پلندری منتقل کر کے مسٹر ابراہیم بیرسٹر کو
عارضی حکومت کا صدر مقرر کیا گیا ہے ۔نئی حکومت ریاست جموں و کشمیر کے
لوگوں کی متحدہ آواز کی ترجمان ہے کہ عوام کو ظالم اور غاصب ڈوگرہ خاندان
سے نجات دلائی جا سکے۔ آزادی کی یہ تحریک جس نے اس عبوری حکومت کو جنم دیا
ہے 1929 ء سے جاری ہے اس تحریک میں جموں و کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے جیل
کاٹے اور جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ بہرحال عوام کی متفقہ آواز کی جیت ہوئی
ہے اور حکمران کی متشدد فوج ہار گئی ہے ۔ حکمران اپنے وزیراعظم کے ساتھ
کشمیر سے بھاگ چلا ہے اور شاید عنقریب جموں سے بھی بھاگ نکلے گا۔ عارضی
حکومت جو ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے ہی ہے ایک فرقہ وارانہ حکومت
نہیں ہے۔ اس حکومت کی عارضی کابینہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی شامل
ہوں گے۔ حکومت کا مقصد سردست ریاست میں نظم و نسق کی بحالی ہے تاکہ عوام
اپنی آزادانہ رائے سے ایک جمہوری آئین ساز اسمبلی ا ور ایک نمائندہ حکومت
چن لیں۔ عارضی حکومت اپنے ہمسایہ مملکت ہائے ہندوستان اور پاکستان کے لئے
بہترین جذبات دوستی و خیر سگالی رکھتی ہے اور امید کرتی ہے کہ ہردو مملکتیں
کشمیری عوام کی فطری آرزوئے آزادی کے ساتھ پوری پوری ہمدردی کریں گی۔ عارضی
حکومت ریاست کی جغرافیائی سا لمیت اور سیاسی انفرادیت برقرار رکھنے کی
متمنی ہے۔ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا سوال یہاں کے
عوام کی آزادانہ رائے شماری سے طے کیا جائے گا۔ غیر ملکی مبصرین و مشاہدین
کو دعوت دی جائے گی کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ عوام کی آزادانہ رائے
سے مسئلہ بخیر وخوبی طے ہوگیا‘‘۔ (روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ لاہور27
اکتوبر 47 ء)
یہ درست ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی غلط ،ناقص اور نقصاندہ پالیسیوں
کی بدولت تحریک آزادی کی نمائندہ حکومت کی حیثیت اور کردار ختم کر کے آزاد
کشمیر کوانحطاط پزیری کی جانب مائل کیا گیا۔یعنی جنگ آزادی کے ذریعے آزاد
کردہ علاقے میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں
لایا گیا تھا،جسے جنگ بندی کے بعد سے ہی ’’رول بیک‘‘ کرنے کا عمل شروع
کرتے، تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کو بے اختیار کرتے ہوئے سیاسی
طور پر ایک پابندانتظامیہ/حکومت کے طریقہ کار کو رواج دیا گیا۔مختلف اوقات
میں مختلف معیار کے حکومتی سیٹ آزاد کشمیر کے لئے بنا کر دیئے گئے۔یہ تحقیق
کے لئے ایک دلچسپ موضوع ہے کہ کس کس سیاستدان نے آزاد حکومت ریاست جموں و
کشمیر کی حیثیت کی تبدیلی میں کیا کردار ادا کیا؟کسی نے مزاحمت بھی کی یا
سب ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کے مصداق سیاسی تنزلی کے اس عمل میں
معاون رہے؟
یہ سننے میں آتا ہے کہ 1970ء میں پاکستان کی وفاقی حکومت کے دیئے گئے آئین
میں آزاد کشمیر کے لئے کئی اچھی باتیں بھی شامل تھیں لیکن یہ بات یقینی ہے
کہ وہ آئین بھی تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کے مقام کی سیاسی حکومت
کا کسی طور بھی بدل نہیں ہو سکتی۔آزاد کشمیر حکومت کے وزیر اعظم تو نہیں
لیکن آزاد کشمیر کے صدر خود کو تمام متنازعہ ریاست کا صدر قرار دینے پر فخر
رکھتے ہیں،حالانکہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین کے تحت ایسا نہیں ہے۔تمام
متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے باشندے ہر معاملے میں کسی بھی ملک کے پابند
نہیں ہیں۔پاکستان اور بھارت نے باہمی سمجھوتے میں کشمیر کو غیر منصفانہ اور
غیر انسانی طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین کو لائین آف کنٹرول قرار
دیا لیکن کشمیری اس کے پابند نہیں ہیں اور وہ کشمیراور کشمیریوں کو مصنوعی
اور جابرانہ طور پر تقسیم کرنے والی اس لکیر کو اب بھی سیز فائر لائین ہی
کہتے اور سمجھتے ہیں۔اگر ہم واقعی آزاد کشمیر میں ایک با اختیار اور باوقار
حکومت کی خواہش اور مطالبہ رکھتے ہیں تو ہمیں مشاورت کے بغیر تیار کئے گئے
اور تھونپے گئے کسی ایسے عبوری آئین ،جو آزاد کشمیر کو ایک مقامی نظم و نسق
کی ،وہ بھی ایک حد تک،میں ترامیم کے بجائے آزاد کشمیر میں تحریک آزادی
کشمیر کی نمائندہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کا مطالبہ کرنا
چاہئے۔آزاد کشمیر حکومت کے آزاد حکومت کی حیثیت اور کردار کی بحالی کے بغیر
نہ تو آزاد کشمیر نام کے خطے میں ایک بااختیار اور باوقار حکومت کی توقع
رکھی جا سکتی ہے اور ناہی ایسا کئے بغیر مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی
نیک نیتی ظاہر کی جا سکتی ہے۔اکثر کشمیری اس بات پہ تشویش رکھتے ہیں کہ آخر
پاکستان کی کشمیر پالیسی ہے کیا؟اس وقت تک کی صورتحال کوئی فیصلہ کن نتائج
کی امید نہیں دیتی،یوں آزاد کشمیر میں کشمیریوں کی طویل جدوجہد آزادی کی
نمائندہ آزاد حکومت کی بحالی سے اس نیت کا واضح اظہار ہو جائے گا کہ
پاکستان حقیقی طور پر کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو فیصلہ کن بنا نے کی
سوچ،فکر اور عمل رکھتا ہے۔ |