متاع کارواں جاتا رہا
(Raja Muhammad Attique Afsar, )
۱۰ جولائی ۲۰۱۵ کوایک دردناک
خبر نے آزاد کشمیر کی فضا کو سوگوار کر دیا تھا۔آنکھیں اشکبار تھیں۔غازی
آباد کے مقام پر عوام کے جم غفیر کے روبرو ایک جنازے کو عقیدت اور فوجی
اعزازسے جنازگاہ میں لایا گیا ۔ فوج اور پولیس کے دستوں نے سلامی دی اور
پاکستان کے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپرد خاک کر دیا گیا ۔ یہ جسد خاکی آزاد
کشمیر کے سابق صدر و وزیراعظم مجاہد اول سردار محمد عبدلقیوم خان جیسی ہمہ
پہلو شخصیت کا تھا جو ۹ دہائیوں پہ محیط ایک بھرپورزندگی گزارنے کے بعد
نیکیوں کے موسم بہار رمضان المبارک میں دارفانی سے کوچ کر گئے ۔ انا ﷲ وانا
الیہ راجعون ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
وہ ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
سردارصاحب کواس قدر تکریم اور اعزاز کے ساتھ رخصت ہوتے دیکھ کر ذہن ماضی کے
جھروکوں میں گم ہو گیا اور ۲۳ اگست ۱۹۴۷ کے دن کا تصوراتی منظر آنکھوں کے
سامنے آگیا ۔ نیلہ بٹ کا مقام ہے دور دراز سے سفر کرکے آنے والے ہزاروں لوگ
ایک جلسے کی صورت میں جمع ہیں اور کچھ بزرگ ان سے باری باری مخاطب ہو رہے
ہیں ۔ اتنے میں ایک ۲۲ سالہ نوجوان ابھرتا ہے اور شیر کی طرح دھاڑتا ہے اس
کی بات میں روانی ہے اس کے الفاظ میں کشش ہے وہ عالم دین نہیں لگتا مگر بات
علم دین سے بھرپور ہے اس کی بات نے مجمع پہ سحر طاری کر دیا ۔ وہ جہاد فی
سبیل اﷲ کا درس دیتا ہے اور ڈوگرا راج کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی دعوت
دیتا ہے تمام سامعین اس کی تائید کرتے ہیں اور قران پاک پہ حلف لیتے ہیں کہ
ڈوگرا حکومت سے اس وقت تک لڑیں گے جب تک وہ ریاست جموں و کشمیرکے مسلمانوں
کے حقوق حاصل نہ کر لیں اور ریاست کا الحاق پاکستان سے نہ کر لیں ۔ یہ عقاب
صفت نوجوان سردار عبدالقیوم خان تھا جو برطانوی فوج کی ملازمت کو خیر باد
کہ کر اپنے آبائی علاقے محض اس لئے آیا تھا تاکہ مسلمانان ریاست کو پاکستان
کے ساتھ ملانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکے ۔
پاکستان اہل کشمیر کے لیے اس مقدس زمیں کی طرح ہے جو اﷲ کی عبادت اور محمد
رسول اﷲ ﷺکی اطاعت کے لیے وقف ہے اسکی حیثیت مسجدکی سی ہے ۔ اس مسجد کے
قیام کے لیے انہوں نے ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ میں وہ اذاں دی تھی جسکی نظیر دنیا
میں نہیں ملتی ۔ سری نگر کی سنٹرل جیل کے سامنے آذاں دیتے ہوئے ۲۲ افراد نے
جام شہادت نوش کیا تھا ۔ ان کی آذان کے الفاظ تو وہی تھے لیکن ان میں کچھ
نئے معانی پوشیدہ تھے جو دلوں سے محسوس کیے جاسکتے تھے ۔ جب وہ تکبیر کہہ
رہے تھے تو گویااعلان کر رہے تھے کہ اﷲ کی زمین پہ اقتدار اعلیٰ کا حق صرف
اﷲ کو حا صل ہے ، جب وہ شہادتیں ادا در رہے تھے تو ببانگ دہل کہہ رہے تھے
کہ اس سرزمیں پہ وہی نظام چلے کا جو اﷲ کے رسولﷺ کامل دین کی صورت میں ہم
تک لائے ہیں ، جب وہ حی علی الصلاۃ کہتے تو گویا پکار رہے ہوتے تھے کہ
بندوں کی غلامی چھوڑ کر رب العباد کی بندگی اختیار کرو ، جب حی علی الفلاح
کی صدا بلند کرتے توکہہ رہے ہوتے تھے کہ کامیابی تو اس چلن میں ہے جس کی
جانب ہم پکارتے ہیں ۔ ہم صدا لگاتے ہیں ہم تمہیں بلاتے ہیں آؤ ہمارے راستے
پہ تم بھی کامیاب ہو جاؤ گے۔اس مسجد کے قیام کے لیے دی جانے والی آذان کو
مکمل کرتے ہوئے ۲۲ نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ پاکستان سے یہی عقیدت تھی
جسکی وجہ سے ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ کو مسلمانان جموں و کشمیر کی نمائندہ جماعت آل
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے الحاق پاکستان کی متفقہ قرارداد منظور کی ۔
ڈوگرا سامراج کو یہ کہا ں منظور تھا کہ کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہو
۔ لہذا درون خانہ ہندوستان سے ساز باز ہونے لگا ۔ اس ساز باز کی بو
کومسلمانان کشمیر نے محسوس کر لیا تھا اور حتمی فیصلہ کرنے کے لیے نیلہ بٹ
آئے تھے ۔ سردار صاحب کی ولولہ انگیز تقریر کے بعد بالآخر انہوں نے یہ
فیصلہ کر لیا کہ گنبد خضری ٰ کی طرح سرسبز ریاست جموں و کشمیر کا الحاق کسی
صورت کفر و شرک کے صحرا بھارت سے نہیں ہونے دیں گے۔ اﷲ نے جو خطہ ٔ ارض عطا
کیا ہے اسے پاکستان جیسی مسجد کا حصہ ہی بنائیں گے ۔اس اعلان نے ڈوگرا
سامراج کو ہلا کر رکھ دیا ۔بات چیت اور لالچ کے ذریعے اس تحریک کو ختم
کرانے کی کوشش بھی کی گئی اور بزور طاقت کچلنے کی سعی لا حاصل بھی کی گئی ۔
مسلح تصادم میں سردار صاحب نے ڈوگرا حکومت کے خلاف پہلی گولی چلائی ۔
سردار صاحب اس مشن میں اکیلے نہ تھے گرد و نوا ح میں ان کے ہمنوا اور بھی
تھے جو اس دور کی تاریکی میں جگنو بن کے ٹمٹمائے اور بعدازاں وہ تحریک
آزادی ٔکشمیر کے افق پہ چمکنے والے درخشندہ ستارے بن گئے ۔ ان روشن ستاروں
میں سردار فتح محمد کریلویؒ (والدگرامی سردار سکندر حیات)، نائیک سیف علی
خان جنجوعہ شہیدؒ (ہلال کشمیر ملٹری مساوی نشان حیدر) ، راجہ محمدحیدر
خانؒ، بابائے پونچھ کرنل خان محمدخانؒ اور امیر شریعت مولانا عبداﷲ
کفلگڑھویؒ جیسی شخصیات شامل ہیں ۔ ان افراد نے اپنے اپنے حلقوں میں افراد
کو منظم کیا اور ڈوگرا فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ اس موقع پہ غازی ملت
سردارمحمد ابراہیم ؒخان نے ان مجاہدین کی سیاسی سرپرستی کی اور ان کی اقوام
عالم کے سامنے بھرپور وکالت کی ۔مسلمان لشکر آگے بڑھتا گیا ڈوگرا فوج کو
پسپا ہونے پہ مجبور کر دیا ۔ مجاہدیں کے پاس اسلحے کی کمی تھی لیکن اﷲ
تعالی نے اسے پورا کر دیا ۔ بے کس مسلمانوں کی مدد کے لیے والی ٔ سوات کی
جانب سے مسلح لشکر امداد کے لیے روانہ کیے گئے جبکہ پنجاب کے سکاؤٹس نے بھی
کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے کمر کس لی ۔ مسلمانان ریاست جموں و کشمیر نے
۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ کو آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کا اعلان کر کے مہاراجہ
ہری سنگھ کو معزول کر دیا ۔ مفرور مہا راجہ نے ہندوستان سے پناہ کے عوض
الحاق کا معاہدہ کر لیا۔ ایک معزول و مفرور حکمران سے معاہدے کو بنیاد بنا
کر ہندوستان کی فوجیں کشمیر میں در آئیں اور یہاں قتل و غارتگری کا بازار
گرم کر دیا۔ ریاست کے مقبوضہ علاقوم میں رقص ابلیس بپا تھا ہر جانب لاشیں
خون اور دھواں دکھتا تھا۔ ۶ نومبر۱۹۴۷ کوصرف جموں شہر میں دو لاکھ سے
زائد مسلمانوں کو پاکستان لے جانے کا جھانسہ دے کر گاجر مولی کی طرح کا ٹ
دیا گیا ۔ ان کٹے بدنوں کی قبریں یا تو دریاؤں کی مچھلیاں بنیں یا جنگل کے
درندے ۔
ماضی کی خون آشام یادوں سے ناطہ توڑا تو حال میں پھر سردار صاحب کی آخری
رسومات جاری تھیں ۔تدفین کے بعد آبدیدہ جان نثاران گھروں کو واپس لوٹ رہے
تھے لیکن سب کے لبوں پہ کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے تھے ۔ چھے دہائیوں سے
زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کشمیری عوام خود کو پاکستان کا حصہ بنانے
کے لیے پرعزم ہیں، اسکے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور استقامت کی
تصویر بنے ہوئے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ جنت ارضی کو پاکستان کا حصہ بنایا
جائے ۔ قومی مواقع پہ وہ بھارتی بربریت کے سامنے سبز ہلالی پرچم لہراتے
دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی آرزو ہے کہ وہ پاکستان کی گھنی چھاؤں میں آبیٹھیں
۔ شہداء کی لازوال قربانیاں جن کے نتیجے میں آج ہم آزاد و خودمختار مملکت
میں بیٹھے ہیں ہم سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم تو دین پہ کٹ مرے تھے کیا
ہمارے بعد تم نے ہمارے مشن کو تاپنی جان ،مال اور قویٰ کے ذریعے تقویت دی
؟، ہمارے حکمرانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ ہمارے خون کو نظر انداز کر کے
ہمارے ہی دشمنوں سے دوستی کی پینگیں چے معنی دارد؟ اور میڈیا کے اہلکاروں
سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم تو دین پہ کٹ مرے آپ کو ہماری قربانی کے کس
گوشے پہ شک ہے کہ اس تحریک کارشتہ دین سے جوڑنے کے بجائے آج یہ سوال اٹھا
رہے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی تھی یا سیکولر؟جس خطہ ٔ ارضی کو مسجد بنانے کے
لیے ہم نے آذان دی تھی جب پاکستان کی صورت میں وہ مسجد معرض وجود میں آگئی
تو قوم بحیثیت مجموعی رب کے آگے سربسجود ہونے سے گریزاں کیوں ؟چھوٹے بڑے ،
امیر غریب ، کالے گورے اور ہر قسم کی معاشرتی تقسیم کو ختم کر کے ایک صف
میں کھڑے ہونے کے بجائے صوبائیت ، علاقائیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پہ
انتشار کیوں؟ رب کی عطا کردہ زمیں پہ غیر اﷲ کا نظام کیوں ؟اسلام کے نظام
عدل ومساوات کے بجائے استبداد کا نظام ظلم کیوں؟ ہماری معیشت کی بنیاد اﷲ
اور اس کے رسول سے اعلان جنگ (سود) پہ مبنی کیوں ہے ؟ہم نے صدائے حق پہ
لبیک کہا ، اسکی خاطر قربانی دینے سے نہیں ٹلے اور نیل کے ساحل سے لے کر
تابخاک کاشغرایک امت ہونے کاعملی مظاہرہ کیا مگر مملکت خداداد میں اپنے ہی
شہریوں ، اپنے ہی مسلم بھائیوں کو غیروں کے ہاتھ فروخت کر کے قومی خرانہ
بھرنے کی تجارت کیوں؟اپنے ہی ملک کے شہریوں پہ غیروں کے ہاتھوں بمباری اور
اس پہ تفاخر کیوں ؟ غرض یہ قربانیاں ہمارے ضمیروں پہ مسلسل دستک دے رہی ہیں
کہ خدا را ہمارا لہو بھلا نہ دینا۔خون شہیداں ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ
ہمارے مشن کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچائے بنا آرام سے نہ بیٹھ جانا۔ تحریک
آزادی کو منطقی انجام تک پہنچائے بنا نہ چھوڑنا ، کسی مصلحت پسندی کا شکار
نہ ہو جانا ۔اب یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ شہدا ء کے مشن کو پایہ ٔ
تکمیل تک پہنچانے کے لیے کمربستہ ہو جائیں اور جہد مسلسل کو اپنائیں ۔ ان
شہدا نے مسجد کے قیام کے لیے قربانیاں دے دیں ہم کروٹ بدل کرخواب غفلت کا
شکار نہ ہو جائیں بلکہ ہمیں آگے بڑھ کر اقوام عالم کی امامت کرنا چاہیے ۔اس
کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو ذوق جہاد اور شوق شہادت سے سرشار کیا جائے
اور انہیں ایک قوت کی صورت منظم کیا جائے اور اس نظام زندگی کے نفاذکی عملی
جدوجہد کی جائے ۔ اﷲ تعالی ٰ ہمیں شہداء کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے
کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین۔
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں چیتے کی آنکھ جس کا چراغ |
|