بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے بیٹھا ہے ملک عزیز کی
معاشی، اقتصادی، اور سیاسی حالت انتہائی گھمبیرہوتی جارہی ہے۔ مہنگائی اور
بے روزگاری نے غریب اور مفلس عوام کو بے سدھ کر کے رکھ دیا ہے۔عوام کے سروں
پر مسائل و مشکلات کے بڑھتے ہوئے انبار نے ان کی کمر دہری کر دی ہے ۔
خودکشی کا رجحان غالب ہے۔
ادنیٰ سے ادنیٰ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری عہدیدار بھی اس حقیقت سے اچھی
طرح باخبر ہے کہ سفارش اور رشوت جیسی معاشرتی برائیوں نے انتہائی مہلک
انداز میں ہماری قومی زندگی کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بے
روزگاروں کے ازدہام میں لوگ اپنی اپنی درخواستیں براہ راست وزراء اور دیگر
بااثر عہدیداروں کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن وہ بھی انہیں
ملازمت دلانے سے مجبور نظر آتے ہیں لگتا ہے ان کے پاس بھی کوئی اختیار نہیں
رہا کہ وہ اپنے مخصوص دوستوں کو خوش کر سکیں۔
سب سے زیادہ پریشان میرے وطن کا مزدور ہے جس کو اس لئے نوکری سے فارغ کردیا
جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا عذاب صنعتوں کے پہیے کو روک دیتا ہے۔دوسرا مزدور کو
ان کی محنت کا پورا پورا معاوضہ نہیں ملتا ۔ منافع خوری کا رجحان درندگی کی
حدوں کو پھلانگ رہا ہے ۔ محنت کشوں کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ بہتر
حالات کار، منصفانہ شرائط ملازمت اور خوشحال مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے
لیکن ان بر سر روزگار مظلوموں سے بھی زیادہ مظلوم و محروم افراد وہ ہیں جو
بے روزگار ہیں ۔ معاشرہ کی تمام دکھتی ہوئی رگوں سے زیادہ پریشان کن بے
روزگاری کا رستا ہوا ناسور ہے۔ اس موذی مرض نے صرف روزگار کو ہی نہیں بلکہ
ان کے چھوٹے خاندان کو بھی زندہ درگور کر رکھا ہے ۔ آخر ان لاکھوں کروڑوں
بندگان خدا کے شب و روز کس دردوکرب میں گزرتے ہوں گے۔ان کی چھوٹی چھوٹی
ضرورتیں بھلا کیسے پوری ہوتی ہوں گی۔ یہ اپنے باہمی انسانی رشتے ناطوں کی
معصومیت اور تقدس کس طرح برقرار رکھتے ہوں گے ۔
کوئی ہے جو ان کے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب دے ۔ مجھے تو کوئی سبیل نظر
نہیں آرہی۔ دور دور تک گور اندھیرے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں ۔ مگر
بے روزگاروں کی فوج ظفر موج بازاروں ، گلیوں میں رلتی دیکھ سکتے ہیں لمحہ
بہ لمحہ بڑھتی ہوئی اس ہوش ربا گرانی کے باوجود بر سر روزگار افراد تو کسی
نہ کسی طرح ایک دوسرے کا ساتھ دے کر اور ایک دوسرے کا سہارا لے کر اس سرد،
ویران اور اندھیری زندگی میں جگنوؤں کی روشنی حاصل کر لیتے ہیں مگر ان بے
روزگاروں کی تو کوئی یونین بھی نہیں ان کا تو کوئی پرسان حال بھی نہیں ۔
منافع خور، لٹیرے گروہ چو طرفہ لوٹ کھسوٹ سے تنگ آکر کام بند کر دینے والے
ہڑتالیوں کی ہڑتال توڑنے کے لیے سب سے پہلے یا سب سے آخر میں جنون کی حد تک
پریشان حال بے روزگاروں پر مشتمل اسی فوج کثیر کو سامنے لے آتے ہیں ۔ یہ تو
بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑے ہوئے انسانوں کو حیوان بننے پر مجبور کر دیا
جاتا ہے یا تو ہونا پڑتا ہے۔ یہ چاقو گھونپنے یا کلاشنکوف چلانے یا گھوٹنے
کے لیے ملازم رکھے جاتے ہیں ڈاکہ ڈالنے کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
اغواء کی مہمات منظم کرتے ہیں اور اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو بالاّخر
ہیروئن کے گرداب میں پھانستے یا پھنستے چلے جاتے ہیں۔
یہ ہیں وہ ٹھوس حقائق اور ناقابل تردیدواقعات اور معاملا ت جو چونکا دینے
والی موٹی موٹی رنگارنگ سرخیوں اور چٹخاروں سے بھری خبروں کا سہارا لے کر
چلنے والے اخبارات اور رسالوں کے ذریعے صبح و شام ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔
اگر یہ سوچنے کی کی بات ہے تو سوچئے ضرور کہ آج بدی اور شیطانیت کی تمام
شکلیں خود بخود بھی ایک پیشہ بن گئی ہیں یا بنا دی گئی ہیں۔
اسمگلنگ ، وطن دشمنی، عصمت فروشی ، قومی غداری، دہشت گردی اور اصول فروشی
کے یہ سارے کاروبار اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو زندگی سے عاجز بے روزگاروں
کو نام نہاد قسم کا روزگار فراہم کر کے ہی چلاتے ہیں ۔ قطعی طور پر تو یہ
ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ ہر بیروزگار گمراہ ہوتا ہے ۔ مگر ہاں یہ وثوق سے
کہا جاسکتا ہے کہ بے روزگار اور اس سے تعلق رکھنے والے عام طور پر مجبور
اور بے بس افراد نیکی اور بدی کے دوراہے پر دھکیل دئے جاتے ہیں اور قدم قدم
پر انکی آزمائش ہوتی ہے۔
دن بدن بڑھتی ہوئی بیروزگاری ۔ ہاتھوں کی لکیریں نہیں جو مٹائی نہ جاسکیں۔
جب تک منافع خوروں اور اس منافع کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ جب تک نجی
ملکیت کی بدترین علامت جاگیرداری پھلتی پھولتی رہے گی تب تک صنعتکاری کی
نشونما اور بے روزگاری کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر رہے گا۔اگر ہمیں ملک
سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے تو مردہ سرمایہ کو زندہ کرنا سرمایہ بنانے
والی ’’محنت‘‘ کا احترام کرنا ہو گا۔ مردہ مشینوں کو حرکت میں لانے والی
محنت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اصل رقم میں اضافہ کرنے والی محنت کے کردار کو
سمجھنا ہوگا اور اس محنت کی بدولت ہونے والے منافع کو محنت نہ کرنے والے کی
جیب میں رکھنے کی بجائے محنت کش کی ملکیت قرار دینا ہوگا، قومی ملکیت مانند
ہوگا۔چھوٹے چھوٹے قصبوں میں صنعتکاری کا انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ مشینوں کی
رفتار تیز ہوگی ۔ خوشحالی کے چشمے پھوٹیں گے، جب بڑھتی ہوئی آمدنی کی مضبوط
اور مستحکم بنیادوں پر ہر ایک کو روزگار ملے گا تب بے روزگاری کے ناگ کا
پھن کچلا جاکے گا۔پیکو اور اتفاق جیسی صنعتیں جو ہماری ناقص منصوبہ بندیوں
اور حکمت عملیوں سے زمین بوس ہو چکی ہیں ان کو دوبارہ زندہ بنانا ہوگایہ
ناممکن نہیں۔ موجودہ حکمران جو صنعتی ترقی اور خوشحالی کے نادر گُر اور
ہُنر جانتے ہیں یہ سب کچھ کر سکتے ہیں ، ایک وہ دور تھا جب کوٹ لکھپت ریلوے
اسٹیشن پر مزدوروں کا جم غفیر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آیا کرتا تھا اب وہاں
ہُو کا عالم ہوتا ہے ایسا کیوں ہوا اس بارے میں کہنے کو میرے پاس بہت کچھ
ہے مگر کیا کیا بیان کروں سوچ سوچ کر میری سوچوں پر فالج ہوجاتا ہے ۔ میں
نے اپنی سروس کے دوران ایسے ایسے مردہ پراجیکٹس چلائے ہیں جہاں آج مزدور کی
حکمرانی ہے۔
میں ڈی سی او قصور سے بھی کہو ں گا کہ اگر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی ترقی و
تعمیر کے لیے میری ضرورت پڑے تو ضرور موقع دیجئے گا کیونکہ اس پلانٹ کے
بالمقابل ٹیوٹا کے لیدر سروس سینٹ کو جو کبھی بھوت بنگلہ کا روپ دھارے ہوئے
تھا آج نہ صرف شیش محل کا نقشہ پیش کرتا ہے بلکہ اس پراجیکٹ کی یومیہ آمدنی
پچاس، ساٹھ ہزار روپے ہے ۔ یہ سب کچھ محنت اور مشقت اور اچھی منصوبہ بندی
کا نتیجہ ہے ۔ |