2013کے عام انتخابات میں منظم دھاند لی کی تحقیقات کرنے
والے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے 237صفحات پر مشتمل اپنے میں صاف الفاظ میں
انتخابات میں منظم دھاندلی اور مینڈیٹ چرانے جیسے الزامات کو رد کرتے ہوئے
متعدد بے قاعدگیوں اور کوتاہیوں کی نشان دھی کی ۔ تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو بادل ناخواستہ قبول کرلیا۔ ویسے بھی
کپتان قبول ہے قبول ہے کرنے کا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں۔اگر وہ ٹھان لیں کہ
انہوں نے قبول ہے کرنا ہے تو حالات خواہ کیسے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوں وہ
قبول کرکے دم لیتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو قبول کرنے کے باوجود
کپتان مطمئن نہیںوہ کمیشن کی رپورٹ کا پیراگراف نمبر534کا حوالہ دیتے نظر
آتے ہیں۔ جس میں بقول حا مدمیر کمیشن نے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر
رپورٹ کے نتائج حکومت کے خلاف چلے جائیں تو ریاست پر کتنے منفی اثرات مرتب
ہوتے۔ دوسرے الفاظ میں کمیشن نے ریاست کا ساتھ دیا، حامد میر کا کہنا ہے کہ
یہ خان صاحب کی اپنی تشریح ہے تاہم انہوں نے یہ بات میڈیا پر کھل کر نہیں
کہی اور کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کر لیا ‘۔رپورٹ کا یہ 534پیراگراف کیا ہے
؟ اسے دیکھیںاس میں کیا لکھا ہے:
534. "However on account of the potential serious consequences which it
findings may have on the Governing of the State and potential criminal
consequences for individuals the Commission did not deem it appropriate
to adopt a standard proof lower than the balance of protabilities"
کمیشن کی رپورٹ کوسرے سے ہی تسلیم نہ کرنے سے عمران خان اور ان کی جماعت
زیادہ مشکلات کا شکار ہوجاتے ساتھ ہی اُس معاہدہ کا کیا کرتے جو انہوں نے
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے سلسلے میں حکومتِ وقت سے کیا تھا جس میں یہ صاف
اقرار کیا گیا تھا کہ’ فیصلہ جو بھی ہوگا اسے تسلیم کیا جائے گا‘۔ پھر
تسلیم نہ کرنے کی صورت میںان کے پاس سوائے سڑکوں پر آنے کے کوئی دوسرا آپشن
موجود ہی نہیں تھا۔ اسلام آباد کی اہم شاہراہ پر 126 دن کا دھرنا اور اس
کانتیجہ ساری قوم کے سامنے ہے ۔اسمبلیوں کو کپتان نے پہلے ہی بوگس ، جعلی
کہا، حکومت کو للکار للکار کرکہا گیا کہ ہمارے استعفے منظور کرو۔ چنانچہ اب
قبول لیکن، اگر ،مگر کرتے ہوئے قاضی کی عدالت سے عوام کی عدالت جو کہ
اسمبلیاں ہیں میں ہی جانا دانشمندی تھی۔ اب جب اسمبلی میں پہنچے تو وہاں
ایک اور مشکل پیش آگئی، سیاست میں کوئی کسی کو بخشنے والا نہیں، جیسی کرنی
ویسی بھرنی، کپتان نے حکومت سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی سیاسی جماعت، حتی کے
انفرادی لوگوں سے بھی پنگے لیے ہوئے ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری،سابق
صدر جنرل پرویز مشرف، 35 پنکچر ، جیو نیٹ ورک اور جنگ اخباراور دیگر کون ہے
جس کی پگڑی دھرنوں کے اسٹج سے نہیں اچھالی گئی۔ مولانا فضل الرحمن کو
دھرنوں کے بلند و بالا اسٹیج سے کیا کچھ نہ کہا گیا، اس بات کا بھی لحاظ نہ
کیا گیا کہ وہ سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنما بھی
ہیں، عالم دین بھی ہیں، ان کے عقائد سے ، نظریات سے اختلاف اپنی جگہ، ان کی
ایسی پگڑی اچھالی گئی کہ بس، رہی سہی کسر تحریک انصاف کے بہادر اور جیالے
ورکرز سوشل میڈیا پر پوری کردیا کرتے تھے اور اب بھی فیصلے کے خلاف کر رہے
ہیں۔ بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ،حالات نے پلٹا کھایا، بلند بانگ دعوے
کرنے والے اب ندامت اور شرمندگی کے عالم میں مصنوعی ہنسی کے ساتھ اپنا دفاع
کرر ہے ہیں۔
الطاف حسین سے تو کپتان کو جدی پشتی بیر لگتا ہے، دھرنوں میں تو ایم کیوں
ایم پر کپتان کا نہ معلوم کس مصلحت کے تحت ہلکہ ہاتھ رہا لیکن وہ وقت سب کو
یاد ہے جب کپتان اپنے بریف کیس میں الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کا پلندہ لے
کر برطانیہ اپنی سا بق سسرال گئے تھے۔ لیکن نتیجہ صفر رہا۔ چند دن قبل بھی
تحریک انصاف کے واڈی والا نے برطانیہ جاکر ایم کیو ایم کے خلاف مظاہرہ کیا،
جس کا جواب اسی طرح برطانیہ میں ہی دے دیا گیا۔ دھرنوں کے بعد کپتان اور ان
کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم کو آڑے ہاتھوں لیا۔ زرداری صاحب تو کپتان کو
شروع ہی سے نہ پسند ہیں۔ یہی صور ت حال دیگر سیاسی جماعتوں ، سیاسی لوگوں
کے ساتھ تحریک انصاف کی رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اب جب کہ جوڈیشل کمیشن نے
فیصلہ سنادیا جو کہ کپتان کے خلاف اور حکومت ِوقت کی حماعت میں ہے تو تحریک
انصاف نے اسمبلیوں کا رخ کیا۔ باقی تو ابھی خاموش ہیں لیکن مولانا فضل
الرحمٰن کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام اور الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ
نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین جو مدت سے اسمبلیوں سے غیر حاضر
تھے ، اپنے استعفے اسپیکر کے پاس جمع بھی کراچکے تھے کے خلاف اسمبلی سے ڈی
سیٹ کرنے کی قرار داد لانے کے لیے جوڑ توڑ شروع کردیا، دونوں جماعتیں تو
کھلم کھلا اس کے حق میںآگئیں،کئی جماعتوں کے اراکین بھی اس کے حق میں ہیں۔
مسلم لیگ نو ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے دونوں جماعتوں سے تحریک واپس
لینے کی درخواست کی جسے دو نوں نے نہیں تو نہیں کیا لیکن دونوں نے سوچ نے
کے لیے وقت مانگ لیا۔ مسلم لیگ ن کے بعض اراکین اسمبلی کھلم کھلا ٹی وی ٹاک
شوز میں اس بات کے حامی نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کے اراکین کو ڈی سیٹ
کردینا چاہیے۔ اسی طرح قائد حزب اختلاف خورشید شاہ تحریک انصاف کے اراکین
کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف ہیں، اس کے پیچھے کیا مصلحت کارفرما ہے،پیپلز پارٹی
کے بعض ارکان بھی اس بات کے حق میں نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ
کردینا چاہیے۔
نواز شریف اور خورشید شاہ بہ ظاہر اپنے اپنے بیانات کی روشنی میں عمران خان
کو اسمبلی میں دیکھنے کے خواہشمند ہیں اور اس کے لیے عملی کوششیں بھی کررہے
ہیں ۔ درپردہ مقاصد کیا ہیں؟ عدالتی فیصلے نے نواز شریف کو عمران کے لیے اس
قدر نرم دل کردیا کہ وہ عمران کی کہی ہوئی منفی باتیں تو دور کی بات ہے خود
انہوں نے عمران اور اس کی پارٹی کو کیا کچھ نہیں کہا بھول گئے یا پھر اِسی
چیز کا نام سیاست ہے۔ کسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ نواز شریف ’دل میں رکھنے
والا مزاج‘ رکھتے ہیں، اپنے مخالفین کے لیے ظاہر ی مصلحت پسندی ، اندر سے
انتقام ان کے اصل مقاصد ہوتے ہیں۔ بعض لوگ اس رائے کے حوالے سے جنرل پرویز
مشرف اور ان پر چلائے جانے والے غداری کے مقدمہ کی مثال دیتے ہیں۔ کسی نے
یہ بھی کہا کہ نواز شریف اس معاملے پر عمران کی حمایت کرکے اس سے ناک
رگڑوانا چاہتے ہیں۔ گویا عمران خان کے اراکین اسمبلی کو دوبارہ اسمبلی میں
بلواکر اس پر ایک ایسا احسان کردینا چاہتے ہیں کہ عمران خان کی نظریں ، ان
کے طرف سے جھکی رہیں۔ عدالتی فیصلے نے تو انہیں جھکا ہی دیا ہے اب اس
معاملے
میں بھی تحریک انصاف کو جھکا دینا چاہتے ہیں۔
دھرنوں کی سیاست میں ناکامی (کپتان یہ تسلیم نہیں کرتے) کے بعد عدالتی
فیصلے نے کپتان اور ان کے ٹیم کو خجالت اور خفت سے دوچار کیا اور اب
اسمبلیوں سے ڈی سیٹ ہونے کی تلوار ان کی پارٹی کے سر پر لٹ رہی ہیں۔ اسپیکر
نے تحریک ایک ہفتہ کے لیے موخر کردی ہے ۔ نواز شریف نے تحریک پیش کرنے والی
سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں سے ملاقاتیں کرکے انہیں تحریک واپس لینے کا مشورہ
دیا جس کو سر دست قبو ل کرنے سے معزرت کر لی گئی ہے۔ مسئلہ کے حل کے لیے
وزیروں مشتمل ٹیم دونوں جماعتوں کوقائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ مختلف
قسم کی باتیں ادھر ادھر سے سنائی دے رہی ہیں، سیاست میں ’کچھ لو اور کچھ دو
‘اور’ نظریہ ضرورت ‘کو بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر بھی کچھ دو کچھ
لو پر معاملات کو حل کرنے کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ متحدہ آج کل پاکستان
پیپلز پارٹی کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی
خائف ہے۔ ان کے تحفوظات ہیں، جنہیں ان کے لیڈر پریس کانفرنسوں کے ذریعہ ،
وزیر داخلہ سے ملاقات میں حتیٰ کے وزیر اعظم سے ملاقت کرکے ان کے گوش گزار
کر چکے ہیں۔ متحدہ کے ایک رکن ِ کے حوالے سے یہ بات پرنٹ میڈیامیں آچکی ہے
کہ متحدہ کے بقول ان کے کارکنوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا جارہا ہے۔
بقول متحدہ اس کے کارکنو ں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا یا جارہا ہے اگر
اس کو بند کردیا جائے یاپھر عمران خان ، الطاف حسین سے معافی مانگ لیں تو
متحدہ اپنے اس مطالبہ سے پیچھے ہٹ جائے گی۔ جہاں تک عمران خان کا الطاف
حسین سے معافی مانگنے کا سوال ہے تو عمران خان جس قسم کے انسان ہیں، جو
عادات و اطوار ان میں پائی جاتی ہیں ، یا الطاف حسین کے لیے وہ جس قسم کی
سوچ رکھتے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ تو ممکن نہیں ہوسکے گا۔ البتہ اگر نواز
شریف تحریک انصاف کو ڈی سیٹ ہونے سے بچانے میں واقعی سنجیدہ ہوں گے تو وہ
متحدہ سے کچھ دو کچھ لو کی بنیاد پر معاملے کو نمٹانے میں کامیاب ہوجائیں
گے۔
جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا معاملہ ہے مولانا صاحب صاف الفاظ میں کہہ چکے
ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے خلاف کسی بھی عمل کی حمایت نہیں کریں گے۔ لیکن
مولانا صاحب کی سیاست کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا ، ان کی جماعت
اقتدار کے بغیر مشکل سے وقت گزارتی ہے۔ وہ ہر دور میں اقتدار میں کسی نہ
کسی طور رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کشمیر کمیٹی کے سربراہی پر بھی انہوں نے گزارا
کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات
کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں اجنبی لوگوں (اراکین تحریک انصاف) کی
موجودگی میں ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک جعلی اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ’ ہمیں کسی سے ذاتی پرخاش نہیں لیکن آئین
اور قانون کی روشنی میں ہی معاملت کو طے کرنا ہوگا۔ انہوں نے یاد دلا یا کہ
اگر جاوید ہاشمی اپنے مستعفی ہونے پر ندامت کا اظہار کریں تو کیا ان کی
رکنیت اسپیکر بحال کردیں گے۔ انہوں نے یہ بھی یاد دلا یا کہ 2007میں سردار
ایاز صادق سمیت 90 ارکان مستعفی ہوئے۔ سردار ایاز صادق ہی یہ بات بتادیں
کیا ان سے استعفوں کی تصدیق کی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت
تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوچکے اور ان کی نشستیں خالی ہوچکی ہیں اگر
ایسا نہیں تو پھر تحریک انصاف کے اراکان خود کہہ دیں کہ وہ مستعفی نہیں
ہوئے تھے ہم ان کا جھوٹ بھی مان لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ریاعت دیں گے تو
آئین کا کیا بنے گا‘۔اور دیکھئے سیاست کے کھیل کے مولانا فضل الرحمن اور
الطاف حسین میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں کپتان کی ٹیم کو ڈی سیٹ کر نے
کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔ نواز شریف اگر چاہیں تو مولانا صاحب کو بھی کچھ
لو کچھ دو کے فارمولے پر قرادادوں کے محرکین کو قائل کرکے کپتان کی جماعت
کو اسمبلی سے ڈی سیٹ ہونے سے روک سکتے ہیں۔
ڈی سیٹ کے معاملے پر اگر کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا اور اسمبلی میں اس مسئلہ
پر رائے شماری کرائی جاتی ہے ۔ اس صورت میں نوز شریف اور پیپلز پارٹی اس
پوزیشن میں ہیں کہ اکثریت سے فیصلہ ان کے حق میں آجائے لیکن اس معاملے میں
قانونی فلا ہے۔ معاملہ عدالت میں لے جایا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس مسئلہ پر
قانون بہت واضح ہے۔ جس نے استعفیٰ دے دیا اسے منظور ہوجانا چاہیے تھا، کیوں
نہیں ہوا؟ اسمبلی سے اتنے لمبی غیر حاضری پر نوٹس کیوں نہیں لیا گیا،
اسپیکر صاحب کیوں مصلحت کا شکار رہے۔ وغیر وغیرہ۔دوسری جانب سابق چیف جسٹس
بھی کپتان کے لیے دھار لگا رہے ہیں انہوں نے پریس کانفرنس میں کہہ دیا ہے
کہ دھرنے کی تحقیقات اور آرٹیکل 6کے تحت کاروائی کی جائے۔ انہوں نے دھرنوں
کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ، اگر متحدہ اور جمعیت علمائے اسلام
عدالت نہیں بھی گئے تو بہت ممکن ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ہی اس
مسئلہ کو عدالت لے جائیں، اس لیے نظر یہی آتا ہے کہ حکومت کسی نہ کسی طرح
دونوں محرکین کو کپتان کی حماعت کے لیے تیار کر ہی لے گی اور معاملہ طے ہو
جائے گا۔
عمران خان یہ نہیں کہہ رہے کہ ان کے اراکین نے استعفے دے دیے تھے، قبول
نہیں کیے گئے، مراعات بھی لیتے رہے، اسمبلی سے غیر حاضر بھی رہے۔ اب کپتان
کا کہنا ہے کہ انہیں بڑی خوشی سے ڈی سیٹ کر دیا جائے وہ دوبارہ زیادہ
اکثریت سے جیت کر اسمبلیوں میں پہنچیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ معاملہ ضمنی
انتخابات تک پہنچ جائے، بڑے پیمانے پر ضمنی انتخابات ملک کو ایک نئے سیاسی
بحران میں ڈال دے گا۔ پوری مشینری حکومت، الیکشن کمیشن، عدلیہ، اسکول و
کالج، میڈیا تمام کام چھوڑ کر الیکشن الیکشن کھیلنے میں لگ جائیں گئے۔ بہت
ممکن ہے کہ تحریک انصاف احتجاج کا پروگرام بنا کر سڑکوں آجائے، دوبارہ
دھرنے شروع ہوجائیں اور ملک انتشار کا شکار ہوجائے۔ حکومت نے اپنی آدھی مدت
پوری کرہی لی ہے ، دو سال باقی ہیں۔ اگر کوئی بہت بڑا بحران ملک میں نہیں
آتا اور حکومت اپنی تمام تر توانائیاں عوام اور ملک کی بھلائی ، خیر خواہی
پر صرف کردیتی ہے تو وہ ملک و قوم کے لیے زیادہ مفید ہوگا۔ متحدہ اور
مولانا فضل الرحمن کو بھی ملکی حالات کے پیش نظر در گزرسے کام لینا چاہیے۔
بے شمار کام آئین اور قانون
کے خلاف ہورہے ہیں ، ہوچکے ہیں، اگر یہ بھی ہوجائے گا اور اس سے ملک سیاسی
انتشار سے بچ جائے تو سودا برا نہیں۔(2 اگست2015) |