سردار عبدالقیوم خان کا آخری اعلان آزادی
(Syed Muzammil Hussain, Chamankot)
آزاد کشمیر کے سابق صدر اور
وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان کا حا ل ہی میں انتقال ہو گیا ۔ اور انہیں
پورے سرکاری اور عوامی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیااس سے قبل انہوں
نے ہسپتال سے جہاں وہ شدید علالت کے باعث زیر علاج تھے ایک اعلان آزادی
جاری کیاتھا جس کے مطابق انہوں نے عام لوگوں کو اپنی تیمارداری اور مزاج
پرسی کی اجازت دے دی تھی۔ سردار عبدالقیوم خان نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پورے
کشمیر اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پورے برصغیر کے ایک تجربہ کارفر د کا نام
ہے ۔
سردار عبدالقیوم خان کا یہ اعلان آزادی اُن کے مختلف مواقع پر کئے گئے دبنگ
اعلانات میں سے ایک تھا۔
آئیے ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں ۔یہ بات ہے اگست 1947 کی جب بر صغیر کی
تقسیم کو محض ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ کشمیر میں بھی لوگ اُس وقت کے
مہاراجہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ۔اس کا زیادہ تر زور موجودہ آزاد کشمیر اور
گلگت بلتستان میں تھا ۔ریاست کے باقی علاقے شیخ محمد عبداﷲ کے سحر میں
گرفتار تھے ۔ آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں بغاوت پھوٹ پڑی ۔مختلف مقامات
پر جلسے جلوس شروع ہوگئے ۔ پونچھ شہر میں پاکستان کا پرچم لہرا دیا گیا
۔مہاراجہ کشمیر نے عوامی لہر کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بقائے باہمی
کا معاہدہ کر لیا لیکن کشمیریوں کی بد قسمتی کہ بھارت کو کشمیر میں مداخلت
کا موقع مل گیا ۔اُس کے بعد کیا ہو ا یہ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کشمیر
تقسیم ہو گیا ۔
سردار عبدالقیوم خان نے کیا کیا؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ 23 اگست 1947 کو
نیلہ بٹ (موجودہ ضلع باغ آزاد کشمیر )کے مقام پر ایک جلسہ عام ہوا جس کی
صدارت اُس وقت کے جیدّعالم دین اور روحانی شخصیت سید مظفر حسین شاہ آف
سوہاوہ شریف نے کی ۔ اُس جلسے سے خطاب کرنے والوں میں ایک الہڑ نوجوان بھی
شامل تھا جس نے جذباتی انداز میں مہاراجہ کشمیر سے ریاست کے مستقبل کے بارے
میں واضح اعلان کرنے کا مطالبہ کیا ۔ بعد میں کہا گیا کہ اُس نوجوان نے
وہیں پہلی گولی بھی چلائی اور مجاہد اول کہلایا ۔ یہ نوجوان نیلہ بٹ کے
قریب ایک گاؤں جولی چیڑھ کا رہنے والا عبدالقیوم تھا جس نے آخری اعلان
آزادی کردیااور لمبے سفر پر روانہ ہو گیا ۔
سردار عبدالقیوم خان نے خود اپنی زبان سے پہلی گولی چلانے یا مجاہد اول
ہونے کا کبھی دعوی نہیں کیا بلکہ وہ اس ضمن میں سردار محمد ابراہیم خان کے
عقیدت مند رہے اس لئے کہ سرادر محمد ابراہیم خان نے آزاد کشمیر کا پہلا صدر
ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا ۔ یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سردار محمد
ابراہیم خان سے پہلے بھی آزاد کشمیر کی ایک عبوری حکومت قائم ہو چکی تھی جس
کے سربراہ انور نا م کے کوئی فرد تھے ۔ یہ حکومت 4اکتوبر 1947 سے 23 اکتوبر
1947 تک قائم رہی تھی ۔
سردار عبدالقیوم خان نے نیلہ بٹ کے مقام پر جو کچھ کیا ، اُس کا ماحصل
موجودہ آزاد کشمیر ہے ۔آزاد کشمیر جیسا بھی ہے مقبوضہ کشمیر سے بہتر ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں چپے چپے پر گولی چلتی ہے جبکہ ضرورت پڑے تو آزاد کشمیر
میں سردار عبدالقیوم خان سمیت تمام مقتدر شخصیات پر زبان چل سکتی ہے ۔ یہ
فرق ہے آزادی اور غلامی میں ۔
سردار عبدالقیوم خان نے پوری زندگی ایک متحرک شخصیت کے طورپر گزاری ۔ وہ
اپنے مشن میں کتنے کامیاب اور کتنے نا کام رہے اس کا فیصلہ مستقبل کا مورخ
کرے گا ۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کا اعلان کرنا سردار عبدالقیوم
خان کی گھٹی میں پڑا ہو ا تھا ۔ جب بھی اُنہیں موقع ملا وہ اُسے دھراتے رہے
۔ اُن کا تازہ اعلان آزادی بھی اُسی کا ایک تسلسل تھا ڈاکٹروں نے اُن پر
لوگوں سے ملنے کی پابندی لگا رکھی تھی ۔ مہاراجہ کشمیر کی پابندیوں کو
توڑنے والے سردارعبدالقیوم خان نے ان تازہ پا بندیو ں کو بھی توڑ ڈالا اور
ہر خاص و عام کو ہسپتال میں ملنے کی اجازت دینے کے بعد طویل اور کبھی نہ
ختم ہونے والے سفر پر روانہ ہو گئے ۔
دیگر لوگ سیکھیں نہ سیکھیں ہم نے آپ سے یہ سیکھا ہے کہ وقت کی نبض پر ہاتھ
رہنا چاہیے ۔ سر دار عبدالقیوم خان آپ کی ایک اور خوبی جس کا ہر فرد اعتراف
کرتا ہے وہ یہ تھی کہ آپ اپنے ہاں جانے والے کسی بھی فردکو مایوس نہیں کرتے
تھے ۔ وہ لوگوں کا کام کرتے وقت اُن سے جماعتی اور علاقائی وابستگی کے بارے
میں نہیں پوچھاکرتے تھے ۔ وہ غموں کا دور بھی آئے تو اُس میں مسکرا کر جینے
کا حوصلہ رکھتے تھے ۔ سردار عبدالقیوم خان کی وفات کے بعد لوگوں کے جذبات
کو علامہ اقبال کے ایک شعر کی مدد سے بیا ن کیا جا سکتا ہے
مرا رونا نہیں ،رونا ہے یہ سارے گلستان کا
وہ گُل ہوں میں ،خزاں ہر گل کی ہے گویا خزاں میری |
|