یعقوب میمن کی پھانسی ۔ انصاف کی پامالی

29 جولائی کو ہرایک نگاہیں سپریم کورٹ پر ٹکی ہوئی تھی ۔ ہر ایک انصاف پسند اور امن پسند کو سپریم کورٹ سے یہ توقع تھی کہ یعقوب کی جان بخشی ہوجائے گی ۔جن تین سو لوگوں نے صدرجمہوریہ کو خط لکھ کر رحم کی اپیل کی ہے اس کا پاس و لحاظ رکھ لیا جائے گا ۔ یعقوب میمن کے اہلیہ اور بیٹی کی چشم تر سے ہورہی فریاد مسلسل پر رحم کھایا جائے گا۔ ٹائیگر میمن کی سزا اس کے بھائی کو نہیں دی جائے گی۔93 کے بم بلاسٹ میں یعقوب نے تحقیقی ایجنسیوں کا جو تعاون کیا ہے اس کاصلہ انہیں دیا جائے گا ۔ خودسپردگی کرتے وقت تحفظ فراہم کرنے کے جووعدہ کیا گیا تھا اسے وفا کیا جائے گا۔ کم ازکم یہ تو ضرور ہوگا کہ 30 جولائی کو اسے تختہ دار پر نہیں لٹکایا جائے کیوں کہ اس دن پورا ملک ہندوستان کے عظیم سپوت اے پی جے عبد الکلام کے آخری رسومات کی ادائیگی میں مصرو ف ہوگا ۔ رنج و غم کا ماحول ہوگا۔ ان کی شخصیت کے احترام میں کم ازکم اس دن پھانسی کا فیصلہ موخر کردیا جائے گا لیکن افسوس سے کہ ایسا کچھ نہیں ہوسکا ۔ ہر ایک کی امیدوں کا جنازہ نکل گیا ۔ اور سپریم کورٹ نے اپنا سابق فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے یہ سنادیا کہ یعقوب کی پھانسی کا فیصلہ صحیح ہے اسے تیس جولائی کو ناگپورجیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے ۔اسی تاریخ میں اسی سپریم کورٹ نے ایک دوسرا فیصلہ راجیو گاندھی کے قاتلوَں کے سلسلے میں بھی سنایا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ ہے ۔ گیارہ بجے جب ہرکسی کو یعقوب میمن کے فیصلے کا نتظار تھا اس وقت سپریم کورٹ نے راجیوگاندھی کے قاتلوں کو پھانسی سے نجات کا پروانہ سناکر سزا عمر قید میں تبدیل کردیا حالاں کہ حکومت نے پھانسی کی سزا برقرار رکھنے کی اپیل کی تھی اور تقریبا شام چار بجے یعقوب میمن کے پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔ اور تیس جولائی کے دیتھ وارنٹ پر آخری مہر لگادی گئی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے فورا بعد مہاراشٹر کے گورنر نے رحم کی اپیل بھی خارج کردی ۔ ایسا لگ رہا تھا گورنر کاغد قلم لے کر سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظا کررہے تھے ۔تاہم یعقوب اب بھی امیدیں ختم نہیں کی۔ صدر جمہوریہ کے یہاں اپنے ہاتھوں سے لکھ کر رحم کی اپیل کی۔لیکن جمہوریہ نے بھی وزیر داخلہ کے ساتھ صلاح ومشورہ کرکے پھانسی پر لٹکائے جانے کا فیصلہ سنادیا ۔

یعقوب میمن کو زندگی فراہم کرنے اور انہیں انصاف دلانے کے لئے ان کے وکیلوں اور انصاف پسندوں آخری سانس تک کوشش کی ۔ رات کے ساڑھے گیار ہ بجے تقریبا پرشانت بھوشن ، سماجی کارکنان اور ان کے وکیل نے چیف جسٹس ایچ ایل دتتوکے دہلیز پر دستک دی اور یعقوب کی جاں بخشی کے لئے آخری منت و سماجت کی ۔ ان کی یہ باتیں قبول کی گئی۔ وہ تین جج سپریم کورٹ پہچے جنہوں 29 جولائی کو کیوریپوٹیشن پر سماعت کی تھی۔ دیررات 3.20 بجے سپریم کورٹ میں بحث کی شروعات ہوئی ایک گھنٹہ تک ہوئی بحث کے دوران یعقوب کے وکیل کے دلیل دی تھی کہ رحم کی اپیل مسترد کئے جانے اور پھانسی پر لٹکائے جانے کے درمیان پندرہ دنوں کا وقفہ ضروری ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوسکا ہے اس لئے میں اس فیصلہ کو چیلنج کرتا ہوں ۔ یعقوب میمن کو چودہ دنوں کی مہلت دی جائے ۔دوسری طرف سرکاری وکیل اٹارنی جنرل نے کہا رحم کی یہ دوسری اپیل تھی ۔ چودہ دن کیا ایک سال کا وقفہ دیا جاچکا ہے ۔ صدرجمہوریہ نے 2014 میں ہی رحم کی اپیل خارج کردی تھی اس لئے پھانسی کا فیصلہ برقرار رکھاجائے ۔یعقوب کے وکیل آنند گرور نے یہ بھی دلیل دی کہ رحم کی پہلی اپیل ان کی فیملی نے بھیجی تھی ۔ یعقوب نے نہیں ۔ آج کی رحم کی اپیل نے یعقوب نے از خود لکھی ہے ۔

رات کے چار بج رہے تھے۔ پورا ہندوستان سورہا تھا ۔ ناگپور میں یعقوب میمن کو تختہ دار پر لٹکانے کی تیاریاں کی جارہی تھی ۔ اس کی زندگی اور موت کے درمیان صرف تین گھنٹہ کا وقت رہ چکا تھا۔ یعقوب اپنی زندگی کے آخری لمحوں سے گذر رہاتھا۔ اس دوران تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پھانسی کے سزا یافتہ شخص کے لئے سپریم کورٹ میں میں بحث ہورہی تھی ۔ یعقوب کی زندگی کے لئے بھیک مانگی جارہی تھی ۔ اپنے دلائل کے روشنی میں وکلاء یہ کہ رہے تھے کم ازکم دو ہفتہ کی مہلت ملنی چاہئے یہ قانونی حق ہے لیکن رات کے سناٹے میں جب ہر کوئی سو رہا تھا ۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا والوں کے علاوہ کسی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا اس معاملہ میں دل چسپی رکھنے والوں کی نگاہیں ٹیلی ویژ ن پرلگی ہوئی تھی۔پھانسی وقت سے صرف تین گھنٹہ قبل تک سپریم کورٹ میں ہورہی سنوائی کو دیکھ یہی کہا جارہا تھا شاید یعقوب میمن کی پھانسی ٹل جائے گی ۔ سپریم کورٹ انہیں کچھ اور دنوں کی مہلت دے دے گی۔ لیکن پانچ بجے سپریم کورٹ نے اپنا سابق فیصلہ دہرا کر ہر کسی کو حیران کردیا کہ پھانسی اپنی وقت پر دی جانی طے ہے ۔ پہلے بہت موقع دیا جاچکا ہے ۔ اب مزید موقع دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

آج سات بجے یعقوب کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے اور اس کے چند گھنٹوں بعد ہندوستان کے سابق صدرجمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کی تمام سرکاری رسومات کے ساتھ تجہیز و تکفین عمل میں آ ئی ۔ ہندوستان کے اس عظیم سپوت کی وفات پر حکومت ہند نے سرکاری طور پر سات روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہم ہندوستان عبد الکلام کی بتلائے ہوئے راستے پر چلائیں گے ۔ ہندوستان کے متعلق ان کے دیکھائے گئے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کریں گے ۔ لیکن کیا اسے ان کی وفات کا غم کہا جائے گا ، ان کی موت کا سوگ کہا جائے گا ہے ۔ ایک طرف انہیں تمام سرکاری اعزازت کے ساتھ سپردخاک کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ایک لڑکی سے اس کا باپ اور خاتون سے اس کا شوہر چھین کر اسے تختہ دار پر لٹکایا جارہا ہے ۔

سپریم کورٹ نے جب تمام تر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی پھانسی کو برقرار رکھاتو ہمیں یہ کوئی حق نہیں پہچتا ہے کہ کورٹ کے فیصلہ پر اعتراض کیا جائے ۔ لیکن یہ ضرور ہوسکتا تھا کہ کم ازکم سابق صدرجمہوریہ کے اعزاز میں انہیں سچی خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ۔ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پھانسی کی تاریخ موخر کر دی جاتی ۔

دنیا اس تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کرے گی کہ جس دن فخرہندوستان ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام کو سپرد خاک کیا گیا اسی دن ان کی سوچ و فکر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ا یک شخص کوکسی اور کے گناہوں کی سزا دیکر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔اور اس ملک نے اس طرح اپنے محسن کو خراج عقیدت کا نذرنہ پیش کیا !!۔

عبد الکلام سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف تھے۔اپنی کتاب ٹرننگ پوائنٹس میں انہوں نے لکھا ہے کہ صدر کے طور میرے سب سے زیادہ مشکل کاموں سے ایک عدالتوں کی جانب سے دی گئی موت کی سزا کے توثیق کے معاملے میں فیصلہ کرنا شامل تھا۔مجھے حریت ہوتی تھی جو بھی معاملہ زیر التوا ہوتا تھا ان میں کم وبیش تمام کے پس پردہ سماجی اور اقتصادی تعصب ہوتے تھے۔یہی وجہ ہے ان کے زمانے میں ایک بھی پانسی نہیں ہوئی ۔ جبکہ موجودہ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے دور صدارت میں اب تک تین لوگوں کوپھانسی ہوچکی ہے اور یہ تینوں کے تینوں مسلمان ہیں۔

سپریم کورٹ سے دیتھ ورانٹ جاری کئے جانے کے بعد یعقوب میمن کا معاملہ مسلسل سرخیوں میں ہے ۔تحقیقاتی اداروں کے ذمہ داروں نے تقریبا صاف طور پر یہ اعتراف کیا ہے کہ یعقوب میمن نے خود سپردگی کی تھی اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا ۔ یعقوب میمن کے خود سپردگی پر ایک ڈیل ہوئی تھی جس میں ان کا تحفظ شامل تھا ۔ اسی ڈیل کے بعد ان کی فیملی کے لوگوں کودبئی سے ہندوستان ایمبسی کی پہل پر ہندوستان لایا گیا تھا ۔یعقوب میمن اپنے ساتھ بہت سارا ثبوت لایا تھا جس سے ممبئی بلاسٹ کی گتھیاں سلجھانے میں کافی مدد ملی ۔ تحقیقاتی اداروں نے کا یہ اعتراف ہے کہ یعقوب کی مدد سے ہمیں بم بلاسٹ کیس کی تحقیق میں جو کامیابی ملی ہے وہ برسوں کی محنت کے بعد ہم نہیں کرسکتے تھے۔ راء کے سابق افسر بی رمن کا مضمون جو ریڈف ڈاٹ کام میں شائع ہوا ہے اس میں انہوں نے واضح طور پر کہاہے کہ یعقوب کے ساتھ ایک معاہدہ ہواتھا ۔تحقیق میں اس سے کافی مدد ملی تھی لہذا اسے پھانسی نہیں ہونی چاہئے ۔ یعقوب کے وکیل شیام کیسوانی اور سینئر صحافی مسیح رحمن نے سی بی آئی کے حوالے سے کہاکہ ان کی جاں بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے پش پست ڈال دیا گیا ۔ اور وعدہ وفا نہیں کیا گیا۔

مارچ 1993 میں ہوئے بم بلاسٹ میں یعقوب میمن ماسٹر مائنڈ نہیں تھا۔ اس کا اصل مجرم داؤد ابراہیم اور ٹائیگرمیمن ہے ۔ یعقوب پر تعاون کا الزام تھا ۔ اس معاملے میں گیارہ دیگر افراد بھی مجرم ٹھہرائے گئے تھے جن کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کردی گئی ۔ یعقوب میمن کے معاملے میں بھی تمام انصاف پسندحلقوں کی جانب سے یہ آواز اٹھائی گئی ۔ آخری دنوں میں سیاسی رہنما ، سابق ججز ، مختلف ریاستوں کے وزیر اعلی ، ایم پی ، سماجی کارکنا ن ، صحافی اور وکلاء سمیت تقریبا تین لوگوں نے صدرجمہوریہ کو خط لکھ کر یہ اپیل کی تھی کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبد یل کردیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ۔یعقوب میمن کے لئے کی گئی تمام جدوجہد کامیابی سے ہم کنا ر نہیں ہوسکی ۔ اور 30 جولائی کو صبح ساڑھے بجے ان کی 53 ویں سالگرہ پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔اور پوسٹ مارٹم کے بعد لاش اہل خانہ کے حوالے کردی گئی ۔

یعقوب میمن کی زندگی کے لئے ہونی والی کوئی بھی جدوجہد بار آور نہ ہوسکے لیکن ان سب کے باوجود ہم اسدالدین اویسی کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے اس معاملے میں سب سے پہلے آواز بلند کی ۔ فیصلہ آجانے کے بعد آج بھی انہوں نے کہاہے کہ اس سچائی سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ یعقوب نے خود سپردگی کی تھی ۔ساتھ ہے انہوں نے 92 فساد کے مجرموں کو بھی سزادینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ وہ تمام شخصیات بھی قابل ستائش ہیں جنہوں نے فیصلہ کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لئے صدر جمہوریہ سے رحم کی اپیل کی اور آخری وقت تک انہیں انصاف دلانے کے لئے اپنی جدو جہد جاری رکھی۔ یعقوب میمن کی پھانسی او ر عدالتی طریقہ کار پر چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو ، کانگریس کے سنیئر لیڈر ششی تھر ور ، دگ وجے سنگھ سمیت کئی بڑی شخصیات نے سوال قائم کئے ہیں اور اسے انصاف کی پامالی سے تعبیر کیا ہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کے بعد جسٹس کاٹجو نے فیض احمد فیض کا یہ شعر ٹوئیٹ کیا تھا کہ
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسی وکیل کریں کس سے منصی چاہیں
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180758 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More