پاکستان میں جمہوریت کے معنی ہر
بات پر احتجاج کرنا ٗ شور مچانا اورسازشوں کے ذریعے اقتدارحاصل کرنا ہی رہ
گیا ہے ۔ اس کام میں نہ پہلے کوئی پیچھے تھا اور نہ ہی اب ۔ عمران خان نے
تین مہینے تک پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھااس اشارے پر کہ دھرنا شروع ہوتے
ہی حکومت کے خاتمے کااعلان ہوجائے گا ٗ پھر ڈاکٹر طاہر القادری کو سازشیوں
نے مل کر کینیڈا سے بطور خاص بلوایا وہ تو پہلے ہی نارمل انسان کی طرح بات
نہیں کرتے۔ اس پر چودھری برادران اور شیخ رشید جیسے مفاد پرست بھی ساتھ مل
گئے ۔ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے بھی اسلام آباد پر پڑاؤ ڈال
لیا۔وہاں قابض ہوکر اعلان بغاوت کرتے رہے پھر اچانک دھرنا ختم کرکے گھروں
کو لوٹ گئے۔ دھرنے سے بات نہ بنی تو جوڈیشنل کمیشن کے قیام پر اصرار ہوا۔
جب جوڈیشنل کمیشن نے تمام پہلوؤں اوردھاندلی کی شکایات کا جائزہ لیتے ہوئے
یہ فیصلہ دیا کہ انتظامی سطح پر کوتاہیاں ہوئی ہیں لیکن بالحاظ مجموعی
الیکشن شفاف ہیں تو پھر ڈھٹائی پر عمران اتر آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
چینی صدر کا دورہ ملتوی کروانے اور دھرنوں اور احتجاجی جلسوں پر جو وقت
ضائع کیاگیا تھا اس پر قوم سے معافی مانگتے لیکن وہ حسب معمول اپنی انا پر
اڑے رہے اور یہ کہتے رہے کہ میں کیوں معافی مانگوں ٗ معافی تو نوازشریف اور
الیکشن کمیشن کو مانگنی چاہیئے ۔ چرب زبانی اور تکرار کی بھی ایک حد ہوتی
ہے وہ شکست کھانے کے باوجود طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے جارہے ہیں اب
مرحلہ ایک اور درپیش ہوا کہ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن نے اسمبلی
میں یہ تحریک پیش کردی کہ تحریک انصاف کی اراکین کے استعفوں کو منظور کرکے
انہیں ڈی سیٹ کیاجائے۔ اس کے باوجود کہ نواز شریف مفاہمت کی پالیسی اپناتے
ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران موجود ہ سیٹ اپ کو تسلیم کریں اور ایم کیو
ایم اور جمعیت علمائے اسلام اپنی تحریک واپس لیں لیکن بات بنتے نظر نہیں
آرہی۔اس طرح جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر معاملات الجھتے
جارہے ہیں۔اس کے باوجود کہ صحافتی حلقوں میں یہ باز گشت جاری ہے کہ عمران
کو غلط بریف کرکے پہلے دھرنے پر مجبور کیاگیا پھر انہیں جوڈیشنل کمیشن کے
معاہدے پر آمادہ کیا گیا لیکن اب پھر عمران وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ حامد
خان کے بقول تحریک انصاف کے کے الزامات درست تھے لیکن ہم کمیشن کے سامنے
اسے ثابت نہیں کرسکے گویا جتنی بھی باتیں اور تکرارئیں عمران اور ان کی
جماعت کے لیڈردں نے اٹھتے بیٹھتے صحافتی حلقوں میں کیں وہ سب کی سب سیاسی
باتیں اور غلط دعوے نکلے جن کے ثبوت ان کے پاس نہیں تھے ۔عمران کی سب سے
بڑی خامی یہ بھی ہے کہ وہ جو بات کہتے ہیں اسے ہی حتمی تصور کرتے ہیں۔ ان
کے خیال کے مطابق عدالتیں بھی ان کی بات کو ہی من و عن تسلیم کرتے ہوئے
فیصلے کیوں نہیں کرتیں دوسرے لفظوں میں وہ پوری ریاست اور انتظامی اداروں
کو وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی اپنا غلام بنا لینا چاہتے ہیں۔بہرکیف اب ایک
جانب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی بطور ممبر نشستیں خطرے میں نظر
آرہی ہیں تو دوسری جانب سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے عمران
کے خلاف جو دو ارب روپے کا توہین کا مقدمہ عدالت میں دائر کررکھا ہے وہ بھی
مقدمہ بھی عمران کے گلے کی زنجیر بنتا نظر آرہا ہے ۔ افتخار محمد چودھری کے
بقول 176 بار انہوں نے الزام تراشی کرکے یہ ثابت کرنے کی جستجو کی ہے کہ
منظم دھاندلی کے پیچھے افتخار محمد چودھری کا ہاتھ تھا جو غلط ثابت ہوا ۔
جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے بعد لگتا تو یہی ہے کہ اب عمران کو دو ارب روپے
دینے ہی پڑیں گے ۔جس سے بچنے کے لیے عمران ٗ اپنے ناراض راہنما حامد خان کے
گھر پہنچ گئے ۔چونکہ افتخار محمد چودھری کے ساتھ حامد خان کے تعلقات بحالی
تحریک کے دوران بہت خوشگوار رہے ہیں اس لیے اب عمران نے افتخار محمد چودھری
سے جان چھڑانے کے لیے حامد خان کا سہارا لیا ہے۔دیکھتے ہیں کہ حالات کیا رخ
اختیار کرتے ہیں ۔لیکن افتخار محمد چودھری نے جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے
بعد اپنی سیاسی جماعت بنانے کا جو اعلان کیا ہے بلکہ ہوم ورک شروع بھی
کردیا ہے اس پر بھی صحافتی اور سیاسی حلقوں میں متضاد آراء سننے میں آرہی
ہیں۔معتبر تجزیہ نگار اور کالم نگار یہ پیشین گوئیاں کرتے ہوئے دکھائی دے
رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ بہت تلخ ہے۔ یہاں سوائے چند ایک پارٹیوں
کے بننے والی کوئی نئی جماعت عوامی مقبولیت بھی حاصل نہیں کرسکی ۔ذوالفقار
علی بھٹو کو ایوب خان کے دورآمریت کی مخالفت میں مقبولیت ملی تو شریف
برادران کو پیپلز پارٹی دشمنی راس آئی جبکہ عمران گزشتہ پچیس سال جدوجہد
کرکے اب کہیں قومی سطح پر خود کو منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب بھی ان کو
اسمبلی میں وہ حیثیت حاصل نہیں جو مسلم لیگ ن کو حاصل ہے ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر
خان سمیت ان افراد کی لمبی فہرست ہے جنہوں نے سیاسی جماعت بنائی اور ناکام
رہے۔ میری رائے ان سب سے مختلف ہے ۔افتخار محمد چودھری نے اپنی عدالت میں
موجودگی کے دوران ہر سطح پر کرپشن ٗ لوٹ مار ٗ طاقت ور حکومتی حلقوں ‘عوامی
مسائل اور معاشرتی ناسوروں کے خلاف جس جرات مندی کے ساتھ ہاتھ ڈالا۔ ان کے
فیصلوں کو آج بھی پسے ہوئے عوامی حلقوں میں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے
اسی مناسبت سے انہیں "عام آدمی کا جج " بھی کہا جاتاہے ۔ اس کا صاف مطلب تو
یہ ہے کہ عوامی سطح پر یہی پسندیدگی انہیں سیاسی میدان میں بھی مقبول بنا
سکتی ہے بطور خاص اس وقت جب مسلم لیگ ن ٗ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی
پالیسیاں اور فیصلے عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور کارکن
موجودہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ناروا رویے سے بہت حد مایوس دکھائی
دیتے ہیں۔افتخار محمد چودھری ایک کرشماتی لیڈر کی شکل میں نمودار ہوکر بہت
جلدعوامی مقبولیت حاصل کرسکتے ہیں ۔میں نے ایک شخص یونہی پوچھا کہ سپریم
کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس کا نام کیا ہے اس نے یہ کہتے ہوئے مجھے لا جواب
کردیا کہ مجھے تو صرف افتخار محمد چودھری کا ہی نام پتہ ہے باقی میں کسی کو
نہیں جانتا۔ میں سمجھتا ہوں یہ افتخار محمد چودھری کی کامیابی کی وہ چابی
ہے جس کے بل بوتے پر اﷲ نے اگر چاہا تو وہ پاکستانی سیاست انقلاب برپا
کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک ان کی پارٹی کے نام کا تعلق ہے تو میری رائے میں
انہیں "عام آدمی پارٹی "ہی نام رکھنا چاہیئے کیونکہ انہیں عام آدمی کا جج
جو کہاجاتاہے پھر پاکستان میں عام آدمی ہی سب سے زیادہ مشکلات اور مسائل کا
شکار ہے ۔ایک جانب افتخار محمد چودھری کی یلغار تو دوسری جانب عمران خود
اپنے ہی بنے ہوئے جال میں پھنستے جارہے ہیں دیکھتے ہیں حالات کیا رخ اختیار
کرتے ہیں یہ تو وقت ہے بتائے گا کہ وہ مستقبل میں اپنی شہرت برقرار بھی
رکھتے ہیں یا گمنامی کے سمندر میں ایک بار پھر غرق ہوجائیں گے۔اگر ایسا ہوا
تو یہ عمران کااپنا ہی کیادھرا ہوگا ۔ جو شخص خود اپنا دشمن بن جائے اسے
کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں رہتی ۔ عمران خود اپنا ہی دشمن ہے جس کے قول و
فعل میں زمین آسمان کا فرق دکھائی دیتاہے ۔ |