تاریخ کے جھروکے میں جھانک کر
دیکھیں تو ایسے بھی مثالی حکمران موجود ہیں جو تیس لاکھ مربع میل علاقے کا
فا تح ہولیکن زاروقطار رو رہا ہے کسی نے رونے کی وجہ دریافت کی تو
فرمایا،نہر کے پُل سے بھیڑ بکریوں کا ریوڑ گزر رہا تھا پُل میں ایک سوراخ
تھا اُس سوراخ میں آکر ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی میرے رونے کی وجہ یہ ہے کہ
کل میرا اﷲ مجھ سے پوچھے گا کہ تیری حکومت میں بکری کی ٹانگ کیوں ٹوٹی ،کیا
تو پُل کی مرمت نہیں کر وا سکتا تھا ؟وہ زار و قطار رونے والے حاکم سیّدنَا
عمر فاروق ؓ تھے جن کی طرز حکمرانی کو دنیا کے ہر مورخ نے سراہا جو
قواعدوضوابط ،اصلاحات،عدل و انصاف حضرت عمر فاروقؓ نے 1400سو سال پہلے رائج
کئے تھے اُنکو اپنا کر یورپ ترقی کے منازل طے کرتا اُفق کو چھوتا ہوا نظر
آتا ہے لیکن ان کی ایک جھلک بھی ہماری طرز حکمرانی میں نہیں پائی جاتی
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران تو انسانوں کو بھیڑ بکریاں بھی نہیں
سمجھتے ۔ دنیاکے سب سے کامیاب لوگ ہمارے انبیاء کرام تھے کیونکہ وہ اپنی
غلطیوں کا تجزیہ کیا کرتے تھے جبکہ ہمارا مزاج ہے کہ اپنی غلطیوں کو پسِ
پشت ڈال دو اور دوسرے کی غلطیوں کا ڈھنڈورا پیٹو،ہر سیاست دان ایک دوسرے کی
غلطیوں پر بھر پور انداز میں ڈھول پیٹتا ہوا نظر آ رہا ہے،ایک دوسرے پر
کیچڑ اُچھالنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ٹی وی ٹاک شوز پر دوسرے کو لتھاڑنا
اور اپنی غلطیوں کو دوسرے اینگل سے پیش کرنا پارٹی کا اصول سمجھا جاتا
ہے،روزانہ ایک نیا ایشو پیدا کردیا جاتا ہے عوام کے مسائل کو خاطر میں نہیں
لایا جاتا ،نیا ایشو پیدا کرنے کامقصد ہوتا ہے کہ عوام کے مسائل سے توجہ
ہٹا دی جائے،اپنے اقربا کو نوازا جاتا ہے سیّدناحضرت عمر فاروقؓ نے تو دو
اصحاب ِ رسول ؐکے ناموں کو اس لئے مستر د کر دیئے تھے کہ وہ اقربا پروری کے
الزام کا بوجھ نہیں اُ ٹھا سکتے تھے جبکہ دونوں حضرات اپنے اپنے شعبے میں
ماہر تھے،اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سابقہ اور موجودہ حکومتوں کودیکھیں
تووراثتی اور خاندانی زنجیر کی کڑیوں میں جکڑے نظر آتے ہیں باپ، بیٹا، بیٹی،
داماد، بھانجے، بھتیجے،دوست،احباب پھر انکے دوست احباب کی فوج در فوج ،اورموج
در موج کرتی نظر آئے گی، سیّدنَا ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو آپکی تنخواہ
کا سوال آیاآپؓ نے فرمایا مدینہ میں جو ایک مزدور کی اُجرت ہے وہی میری
اُجرت ہو گی،ایک صحابی نے فرمایا پھر توآپکا گذر بسر مشکل سے ہو سکے گاآپؓ
نے فرمایا میرا گزارہ بھی اُسی طرح سے ہو گا جس طرح ایک مزدور کا ہوتا ہے
جب میرا گزارا نہیں ہو پائے گا تو میں مزدور کی تنخواہ میں اضافہ کر دونگا-
یہ ہی وہ فکر اور سبق ہے جسپر عمل کر کے ہم پاکستان کی تقدیر کو بدل سکتے
ہیں،گزشتہ 68سالوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ کیسی طرز حکمرانی ہے
جو اسلامی تاریخوں سے سبق لینے کے بجائے تصویر کے عقبی اور تاریک پہلووں کو
اُجاگر کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ہماری تاریخ روز ِروشن کی طرح عیاں ہیں، یہ
حکمران کون ہیں ؟کہاں سے آئے ہیں ؟جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی
تاریخوں کو مسخ کرنے میں مصروف ہیں جن کی تمام حرکات و سکنات بین الاقوامی
ہیں ۔ میں عوام کی کیا بات کروں عوام کو تو سیدھا راستہ علامہ اقبال ؒنے
دیکھا دیا تھا کہ " ہے افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی کی تقدیر ۔ ہر فرد
ہے ملت کے مقدر کاستارہ "لیکن قوم تو جیسے خوابِ خرگوش میں محو ہے ،عدم
تحفظ ،بے راہ روی،بے حسی ،بیروز گاری اور نہ جانے کن کن عفریت کا سامنا کر
رہی ہے لیکن اقبال کے پیغام کو فراموش کر چکی ہے ,سفید آقاؤں سے گندمی
حکمرانوں تک کی غلامی کے تسلسل نے انھیں غلامی نفسیات عطا کی ہے غلامی کے
دلدل میں پھنسی عوام اقبالؒ کے پیغام کو کیسے سمجھیں؟ملت کی تقدیر کا ستارہ
کیسے جگمگائے؟ |