ٹوپی
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
بقول میر تقیؔ میر:
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں کے تھامیئے دستار
ہم نہیں جانتے کہ میرؔ کے زمانے میں زمانہ کتنا نازک تھاکیونکہ آج ہم جس
دور سے گزر رہے ہیں یہ زمانہ بدستور نازک تَر لگ رہا ہے۔ میرؔ کے زمانے میں
شاہی کا خاتمہ تقریباً ہو چکا تھا لیکن شاہانہ طرزِ زندگی کے اثرات باقی
تھے اس لئے لوگ دستارپہنتے ہوں گے۔ اب دستار کی جگہ’’ ٹوپی ‘‘نے لی ہے۔مگر
یہاں تو ٹوپی سنبھالنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ صرف سر چھپانے یا سر ڈھاپنے کی
چیز نہیں رہی بلکہ اس کے مقاصد بھی بدل گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ٹوپی کچھ
اور چھپانے اور کچھ اور ظاہر کرنے کی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ ہر جگہ ، ہر
ادارے میں، ہر چیز میں یعنی کہ عوامی زندگی میں ٹوپی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
آج کل ٹوپی کا تعلق سر سے زیادہ سیاست سے ہوگیا ہے۔ پہلے ختم رمضان شریف پر
لوگ اشکبار ہو جاتے تھے اور کہتے تھے الوداع ائے ماہِ رمضان، اب الوداع
افطار پارٹیوں کہنے کا زمانہ ہے۔ جس طرح رمضان شریف کا تعلق آج کل روزوں کے
ساتھ ساتھ افطار پارٹیوں اور حلیم سے بھی ہو گیا ہے ہم اکثر افطار پارٹیوں
کی تصویریں دیکھتے ہیں جن میں بیچارے بہت اہم لیڈرز ٹوپیاں پہنے ہوئے
دکھائی دیتے ہیں ۔ ان تصاویر میں یہ بھی دکھایا جاتا ہے کہ موصوف خوشی خوشی
کھجور کھا رہے ہیں اور کوئی اہم شخصیت انہیں کھجور کھلا رہی ہے۔ ہم کو یہ
سارے مناظر بہت اچھے لگتے ہیں، چاہے یہ تھوڑی دیر کے لئے ہی کیوں نہ ہوں۔
بہر حال ٹوپی بہت اہم چیز ہے۔ آج سے کم و بیش سو سال پہلے ننگے سر رہنے کو
بہت بُری بات سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اپنے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے تو
ٹوپی ضرور پہنا کرتے۔خواتین سر پر پلّو اوڑھا کرتیں تھیں، بہت سے گھرانوں
میں عورتیں آنچل کاڑھے بغیر اپنے بڑوں کے سامنے نہ آتیں تھیں۔ ٹوپیاں بھی
طرح طرح کی ہوتیں ہیں جیسے رومی ٹوپی، مصری ٹوپی، ترکی ٹوپی، رام پوری
ٹوپی، دو پلی ٹوپی، گاندھی کیپ، جناح کیپ وغیرہ ۔ جس طرح کپڑوں کی استری
ہوتی ہے اسی طرح استعمال شدہ ٹوپیوں کو پیتل کے ایک سانچے میں لگایا جاتا
اور ان کی صفائی کی جاتی جس سے وہ ٹوپی پھر سے نئی دکھائی دیتی۔ جب ہم
اسکول میں پڑھتے تھے تو ہمارے کئی استاد ہمیشہ ٹوپی میں دکھائی دیتے بلکہ
ہم نے تو اپنے سارے زمانۂ طالب علمی اور بعد میں کبھی بھی ان کو ننگے سر
نہیں دیکھا۔ عام آدمی بھی ٹوپی پہنا کرتے تھے اور اکثر کا تو ٹوپی کے ساتھ
اس کا پُھدنا بھی ہوا کرتا تھا جیسے کہ ہمارے ایک مرحوم سیاستدان لال رنگ
کی گول ٹوپی پہنا کرتے تھے اور اُس میں ایک بڑا سے پُھدنا بھی ہوا کرتا
تھا۔ کچھ لوگ تو ایسی ٹوپی کے پُھدنے کو سامنے کی طرف رکھتے جس سے ان کے
حرکات و سکنات ، گفتگو کے اُتار چڑھاؤ اور ہنسی مذاق میں وہ پُھدنا بھی
شریک ہو جایا کرتا ہے۔ کوئی ایسے بزرگ کو دیکھتا تو دور سے ہی سمجھ لیتا کہ
موصوف قہقہے لگا رہے ہیں یا پھر کسی کو ڈانٹ پِلا رہے ہیں۔کچھ لوگ کپڑے کی
نرم ٹوپی پہنتے اور اس پر شملہ بھی باندھتے ہیں ۔ یہ شملہ ملٹی پرپز ہوتا
ہے۔ جیسے ہمارے عربی کے مولوی صاحب جب ہم کو گھر پر پڑھانے آتے تھے تو خود
اکڑوں بیٹھ جاتے اور اپنے اطراف شملہ کَس کر باندھ لیتے جس کی وجہ سے مولوی
صاحب کو ایک عجیب طرح کا استحکام اور سکون حاصل ہو جاتا تھا۔ آج کل ٹوپی کا
لفظ کسی اور معنی میں استعمال ہوا کرتا ہے، جیسے کسی سیاستدان نے اپنے کسی
ورکر کو ٹوپی کرا دی اور اس کا کام نہیں کیا، کسی دکاندار نے اپنے کسی گاہگ
کو سودا مہنگا دے کر ٹوپی کرا دی، کسی نے کسی کے ساتھ فراڈ کر کے ٹوپی کرا
دی، غرض کہ ہر ہر پہلو اور ہر ہر کام میں ٹوپی کا گردان سننے کو ملتا ہے۔
عام آدمی بھی اکثر بات کرتے ہوئے اپنے کسی روداد کے ساتھ یہی کہتے ہوئے
پائے جاتے ہیں کہ یار! فلاں نے میرے ساتھ ٹوپی کر دی۔
ٹوپیوں کی ساخت اور لمبائی بھی جدا جدا ہوتی ہے ، بعض لوگ اتنی لمبی ٹوپی
پہنتے جیسے اپنے قد کی کمی کو ٹوپی سے پورا کرنا چاہتے ہوں۔ غرض کہ دستار،
ٹوپی، کلاہ، شملہ ہماری تہذیب کا حصہ رہے ہیں جس میں مذہب یا فرقہ کی کوئی
قید نہیں تھی۔ جب انگریز آئے تھے تو اپنے ساتھ ساتھ اپنے طور طریق بھی
لائے۔ مغربی تہذیب مشرقی تہذیب کے اکثر برعکس تھی۔ ہم بزرگوں کے احترام میں
سر کو ڈھانکتے تھے ، انگریزوں کے پاس معاملہ اُلٹا تھا وہ ننگے سر رہا کرتے
تھے۔ اگر ہیٹ پہنے ہوئے ہوتے اور کسی سے سلام دعا کرنی ہوتی تو سر سے ہیٹ
نکال کر ہیٹ کو ہوا میں لہرا دیتے تھے۔چونکہ ٹوپیوں کو ہوا میں لہرانے کا
رواج نہیں تھا اس لئے نئی نسل نے ٹوپیوں ہی کو سرے سے رخصت کر دیا۔
|
|