پھانسی کا پھندہ اورسیاست کے پیچ وخم

کس نے سوچا تھا کہ ایک سال کے اندر ہی مودی سرکار کا اعتباراور وقار یوں سر کے بل نیچے آجائیگا؟ دہلی کے اسمبلی چناؤ میں تواس کو زبردست جھٹکا لگا ہی تھا،لیکن کرپشن کے واقعات اوراخلاقی دیوالیہ پن نے حالت یہ کردی کہ یا تو مودی جی چپ نہیں ہوتے تھے ، یا اب بولتے نہیں۔ہرچند کہ ان کی انتخابی تقریروں نے ان کی ہواباندھ دی۔ چناؤ میں بھاری جیت دلادی ۔ اس کے بعد پے درپے غیرممالک میں انکی ڈرامائی تقریروں نے بھی عوام کو مسحورکیا۔مودی جی کے ساتھ ان کے مداحوں کا بھی سینہ 56انچ کا نظرآنے لگا۔ مگراب ان کی ٹیم کے تین نامور لیڈروں کے سوالوں میں گھر جانے سے خود ان کی معتبریت کافور ہوگئی ہے۔وہ کہتے تھے نہ کھاؤنگا اورنہ کھانے دونگا، مگر دووزرائے اعلا پر کھانے کا الزام لگ رہا ہے اب ان کی پشت پناہی نے ان کے دعوے کو باطل کردیا ہے۔ ویاپن گھوٹالے میں لگتا ہے سارے پریوار کے ہی لوگ فیض پارہے تھے۔ مودی جی 14ماہ قبل قدآور قائد بن کر ابھرے تھے، مگران کی قیادت کا نشہ عوام کے سروں سے یوں اترجائیگا، کس نے سوچا تھا۔بقول حفیظ ؔمیرٹھی
پی کر چین اگر آیا بھی، کتنی دیر کو آئیگا
نشہ ایک آوارہ پنچھی، چہکے کا اڑ جائیگا

سرکاربدعنوانی اورسیاسی اخلاقیات کی پامالی کے جن سوالوں میں گھری ہے ،ان کا تشفی بخش جواب دینے کے بجائے وہ جوابی الزام تراشی پر اترآئی ہے۔ عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں، وعدوں کی عدم تکمیل اوربدعنوانی کے تازہ الزامات سے ہٹانے کیلئے ان کی سرکار نے وہی حرکت کی، جوالزامات میں گھری ہوئی یوپی اے سرکار کے وزیرداخلہ سشیل کمارشندے نے کی تھی۔انہوں نے عوام کی توجہ ہٹانے اوربھاجپا کے سیاسی حملوں سے تنگ آکر قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھدیااور افضل گروکوپھانسی کے پھندے پرلٹکادیا۔اوراب جب مودی سرکارکے گرد گھیراتنگ ہورہا ہے تو یعقوب میمن کو پھانسی پرلٹکادیا گیا،حالانکہ وہ کسی جرم میں براہ راست ملوث نہیں تھا۔ہرچند کہ قانون کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے دکھائی دئے، لیکن قانون کے کئی ماہرین نے کہا ہے کہ صرف خانہ پوری ہوئی ہے۔

اس پھانسی پر جتنی بڑی تعداد میں باخبرافراد نے آوازاٹھائی جن میں کئی سابق جج ،سپریم کورٹ کے وکلا، بڑے قومی اخباروں اورٹی وی چینلس سے وابستہ ممتاز صحافی ، دانشور اورفلمی ہستیاں شامل ہیں وہ ہمارے لئے روشنی کی ایک تابندہ کرن ہیں اوراس بات کی علامت ہیں کہ سنگھیوں کے پیدا کئے ہوئے جنون کے باوجود ہندستان کا ضمیر زندہ ہے۔ ہم منفی پہلوؤں پر گرفت کرتے رہتے ہیں لیکن ان مثبت پہلوؤں کا بھی اعتراف ہونا چاہئے اوران کو تقویت پہچانی چاہئے۔ میں یہاں بغیر نام لئے ان سب برادران وطن کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے قانون کی بالادستی اورانسانیت کے بالاتری کیلئے آوازاٹھائی اورا س ناقص پروپگنڈے کی پرواہ نہیں کی جس کی ترجمانی مرکزی وزیر اوربھاجپا کے سابق صدر ونکیا نائڈو کے اس ریمار ک سے ہوتی ہے: ’’جو لوگ پھانسی کے معاملہ میں یعقوب سے ہمدردی دکھا رہے ہیں اورسزائے موت کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں وہ قومی مفاد کو نقصان پہنچارہے ہیں۔‘‘

نائڈوکا یہ ریمارک ان کی تنگ نظری اورتنگ دلی کے علاوہ سیاسی اخلاقیات اور آئینی حکمرانی کے تقاضوں سے بے خبری کاکھلا اظہار ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل آنند گروور نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں یاد دلایا ہے کہ’’ ہمارے آئین سازوں نے یہ اہتمام کیا ہے کہ ہرفردکو ، چاہے وہ ہندستانی شہری ہو یا کسی غیر ملک کا باشندہ ہو، زندگی کا حق حاصل ہوگا اور قانونی کاروائی کو پوری دیانتداری سے پورا کئے بغیر اس کی جان نہیں لی جائیگی۔ سپریم کورٹ کا اصول یہ ہے یہ کاروائی غیرجانبدار، غیر عاجلانہ، منصفانہ اورعقل واستدلال کے پیمانے پر کھری اترنی چاہئے۔ یعقوب میمن کے معاملہ میں ایسا نہیں ہوا۔ ‘‘

انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ’’ اگریقوب کی رحم کی درخواست خارج کئے جانے پرغورکرنے کیلئے طے شدہ 14دن کا وقت دیدیا جاتا تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا۔‘‘ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے یعقوب کی رحم کی درخواست آناً فاناً زخارج کئے جانے کے بعد 11دیگروکلاء کے ساتھ نصف رات کو چیف جسٹس کے گھرکا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ جس کے بعد رات کو ہی نئی بنچ بنی اوراس نے ایک شخص کی زندگی کا فیصلہ اسی رات میں سرسری سماعت کے بعد سنادیا اور سرکار کی منشاء کو پورا کردیا ۔ انہوں نے اس قانونی نکتہ پر توجہ دلائی کہ سابقہ رحم کی درخواست خودمیمن کی دائرکردہ نہیں تھی۔ یہ نئی اپیل جس کو پہلے مہاراشٹرکے گورنر اورپھر راجناتھ کے اصرار پر صدرجمہوریہ نے دن کے دن خارج کردیا ، میمن کی طرف سے دائرکردہ پہلی درخواست تھی۔ اس میں بہت سی نئے قانونی نکات اٹھائے گئے تھے۔ اس کے خارج کئے جانے پر 14دن کی مہلت دی جانی چاہئے تھی۔ مسٹربھوشن نے بھی اس عجلت پر سوال اٹھایا ہے جو ہرحال میں یعقوب کو اس کی سالگرہ کے دن ہی پھانسی پر لٹکانے کے لئے کی گئی اورکہا ہے ’’ یہ پھانسی تو ریاست کی طرف سے ’’انتقامی تشدد‘‘ ہے۔‘‘
ایک اہم سوال یہ ہے یعقوب کوفوری پھانسی دینے کے معاملہ میں عدلیہ اورانتظامیہ سیاسی قیادت کی مطلب براری کے لئے اس قدر مستعد کیوں نظرآیا ؟ اس کا اغلب جواب یہ ہے کہ یہ مت دیکھئے کون کس کرسی پر بیٹھا ہے۔ یہ غورکیجئے کہ گزشتہ ساٹھ سال سے ذہین طلباء اورنوجوانوں کی تعلیم وتربیت کس طرح ہوئی ہے اورآرایس ایس نے ان کو اپنے نظریہ میں ڈھالنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا؟ اس کے مقابل نام نہاد سیکولر اورملی تنظیمیں سوتی رہیں یا صرف قراردادیں منظورکرتی رہیں۔ یہ موضوع طویل ہے۔ اس موقع پر یہ اشارہ کافی ہے۔

یعقوب کی پے درپے عرضیوں پر سپریم کورٹ کے رویہ سے شاکی اس کے ایک ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹرانوپ سریندرناتھ نے استعفادیدیا۔سریندرناتھ رسرچ آفیسر تھے اورسزائے موت کے موضوع پر ہی تحقیق کررہے تھے۔ انہوں نے آخری لمحوں میں عدالتی کاروائی میں بھی حصہ لیا۔ ایک ریسرچ آفیسر کے ردعمل کا کوئی مثبت نوٹس لینے کے بجائے یہ دھمکی دی گئی ہے کہ ان کے خلاف ضابطہ کی کاروائی ہوگی کیون کہ انہوں نے یعقوب کے معاملہ میں دلچسپی لے کر ضابطوں کی خلاف ورزی کی۔ لگتا ہے قانون کا بے رحم شکنجہ انسانیت کے جذبہ کو کچل ڈالنے پرآمادہ ہے۔اس موقع پر جسٹس بی این سری کرشنا نے یاد دلایا ہے یعقوب کو جس گناہ میں سزاہوئی وہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میں مسلم کش فسادات کا ردعمل تھے۔ دھماکوں کے مجرموں کو توسزادیدی گئی مگر فسادیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ہے۔اس طرح سرکاری رویہ کھلے طور پر فرقہ ورانہ لائنوں پر طے شدہ نظرآتا ہے۔ اس فساد پر جسٹس کرشنا نے جو جانچ رپورٹ پیش کی تھی سرکار نے اس پر کوئی کاروائی نہیں کی ۔

متعد دہندی ،انگریزی اخبارات وجرائد میں یعقوب کی پھانسی پر جو تلخ و تند تبصرے شائع ہوئے ہیں،اس کالم میں ان سب کا احاطہ ممکن نہیں ۔کئی ٹی وی چینلز نے بھی اس پر سخت تنقید کی ہے۔ راج دیپ سردیسائی اورروش کمار نے انسانیت اورانصاف کا حق اداکردیا۔ ملک کی دبی کچلی اقوام ان کی ممنون ہیں۔ افسوس کہ یعقوب میمن کو اس کے باوجود پھانسی دیدی گئی کہ وہ براہ راست جرم میں شریک نہیں تھا ۔ایسی نظیریں موجود ہیں جب ’’سازش میں شریک‘‘ مجرموں کو پھانسی نہیں دی گئی، صرف سزائے قید دی گئی۔ جیسا کہ گاندھی جی کے قتل کیس میں ہوا۔ صرف اس شخص کو پھانسی دی گئی جس نے گولی چلائی تھی۔ ہم بحیثیت ایک ہندستانی باشندہ متوفی کے اہل خاندان اورغم گساروں سے اظہارتعزیت کرتے ہیں ۔ ہرچند کہ منی پورکے گورنر تتھہ گت نے یہ زہرافشانی کی ہے جو لوگ یعقوب کے جنازے میں شریک تھے وہpotentially terrorists ہیں یعنی ذہنی طورپر دہشت گردہیں۔ ہم اعلان کرتے ہیں جو لوگ وہاں موجود تھے ان کے علاوہ بھی لاکھوں افراد ہندواورمسلمان ملک کے طول وعرض میں ہیں جو ذہنی طور پر اس کے لواحقین کے غم میں شریک ہوئے۔یہ وہ لوگ ہیں جن میں انسانیت مرنہیں گئی ہے اور جو ہندستان کی قدروں اورآئین کے عملاً وفادار ہیں صرف قولاً نہیں۔

اس معاملے پر بحث میں اپنا نام درج کراتے ہوئے ہمارے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک بے تکی اوربے موقع بات کہی۔ کہا یوپی اے نے ’’ہندودہشت گردی‘‘ کو اجاگر کرکے دہشت گردی کے خلاف قومی لڑائی کو کمزورکردیا۔ ’’ہندو دہشت گردی‘‘ کے اصطلاح تو یقینا نامناسب ہے۔ ہمارے برادران وطن فطرتاً امن پسند ہیں۔ چند لوگوں کی حرکتوں کے لئے پوری قوم کومطعون کرنا درست نہیں۔ کاش راجناتھ سنگھ میں اتنا حوصلہ ہوتا کہ ’’اسلامی دہشت گردی ‘‘ کی اصطلاح کو بھی قلم زد کرتے جس کا استعمال ان کے پریوار کے لوگ کرتے ہیں۔ ہمارے ہندوبھائیوں میں صرف چند گروہ ہیں ، جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان میں وہ درجنوں گروہ بھی ہیں جو سنگھ پریوار کا حصہ ہیں اورہندتووا کے نام پر دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو ہندو دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کی دہشت گردی کے لئے اورعوام میں فرقہ ورانہ جنون پیداکرنے کے لئے تو ہی نظریہ ذمہ دار ہے جس کے خود راجناتھ سنگھ ،مسٹرمودی اوران کی کابینہ کے کئی نام نہاد سادھو اورسادھوی پروردہ ہیں۔ہم نے اپنی تحریروں ان دہشت گردوں کو بھی جن کی وابستگی ہندوتوا کے نظریہ سے ہے ہندودہشت گردلکھنے سے گریزکیا ہے ۔اصلاً یہ ’’سنگھی دہشت گرد‘‘ ہیں۔ کمیونسٹوں میں بھی جو ہندوکیڈردہشت گردی میں ملوث ہیں ہم ان کوہندو یا کمیونسٹ دہشت گرد نہیں کہتے بلکہ ان کی شناخت ان کے گروہ سے کرتے ہیں۔

ہرچند کہ یعقوب میمن کو تختہ دار تک پہنچانے کا کام سنگھی سرکار نے انجام دیا ہے۔ لیکن یہ فصل تواس کو پکی پکائی ملی تھی۔ اس کا بیج تو انہوں نے بودیا تھا جو نہرو کے وارث بنے پھرتے ہیں۔ انہوں نے ٹاڈا قانون بنایا ،جس میں انصاف کے تمام عالمی پیمانوں کو پامال کیا گیا۔ پھر جب یہ قانون کالعدم ہوا تو لاکھ اصرار کے باوجود اس کے تحت درج مقدمات کی اسی قانون کے تحت سماعت پر اصرار کیا گیا۔ مرحوم جی ایم بنات والا نے جب اس پر لوک سبھا میں بل پیش کیا تو کانگریس نے اس کو منظورنہیں ہونے دیا۔ مجھ سے ایک دوست نے پوچھا :’’یعقوب کی پھانسی پر کانگریس چپ کیوں ہے؟‘‘ میں نے کہا:میراگمان یہ ہے کہ اس کے لگائے درخت پر اس کا مطلوبہ پھل جو آیا ہے تو وہ خاموش بھلے ہی نظرآتی ہو، مگراندر سے خوش ہوگی۔ اسی لئے جب ششی تھرور نے اس کے خلاف آواز بلند کی تو کانگریس نے ان سے کنارہ کرلیا۔ دراصل کانگریس کچھ تو اپنی سرشت سے مجبور ہے ، کچھ اس جنون کے دباؤ میں بھی ہے جوبھولے بھالے برادران وطن میں سنگھی تنظیموں نے پیدا کردیا ہے۔ کانگریس لیڈروں میں وہ جرأت نہیں جو گاندھی جی نے 1947-48میں دکھائی تھی۔ انہوں نے گاندھی کو مہاتما بناکر ان کوپوجنا توشروع کردیا مگرسیاستداں گاندھی کے نظریات اورنظیروں کو بالائے طاق رکھ دیا ۔

ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یعقوب میمن کی پھانسی اورگرداسپور کے واقعہ سے وہ بلا ٹل جائیگی جو ویاپن گھوٹالے اور للت مودی سے وسندھرراجے کے رشتوں کی وجہ سے حکمراں پارٹی اورسرکار پر نازل ہوگئی ہے ؟ ہمارا قیاس یہ ہے کہ اگر افضل گروکی پھانسی یوپی اے کوسیاسی بھنورسے نکالنے میں مددگارثابت نہیں ہوئی، اگرپارلیمنٹ پر دہشت گرد حملہ نے این ڈی اے کودوبارہ الیکشن میں فتح نہیں دلائی تو یعقوب کی پھانسی اورگرداسپور کے واقعہ سے مودی سرکار کو کوئی راحت ملنے والی نہیں ہے۔ونکیاہ نائڈو نے عجیب دلیل دی ہے۔ کہا کہ بھاجپا کے کسی لیڈرکے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ، رپورٹ نہیں، پھراستعفا کیوں دیں؟ اس کا جواب آڈوانی جی دے چکے ہیں۔ آخرسیاسی اخلاقیات بھی کوئی چیز ہے۔آڈوانی جی نے حوالہ میں نام آتے ہی لوک سبھا کی رکنیت سے استعفادیدیا تھا۔ دہلی کے وزیر اعلا مدن لال کھورانہ بھی اسی طرح مستعفی ہوگئے تھے مگراب سنگھی راج میں سیاسی اخلاقیات کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔ البتہ یہ دیکھنا ہوگا کہ فرقہ ورانہ لائنوں پر رائے دہندگان کو تقسیم کرنے کی بھاجپا کی حکمت عملی میں اس واقعہ سے کچھ نہ کچھ مدد توملی ہے۔ مسلم قیادت کو بھی اپنا ردعمل ظاہر کرتے وقت یہ خیال رکھنا ہوگا کہ اس گول میں وہ بھی معاون نہ بن جائیں۔ بیشک گزشہ چند برسوں میں پھانسی کی سزایافتہ جن تقریبا دوہزار مجرموں میں جن چارافراد کو پھانسی دی گئی ان میں تین کا تعلق اقلیتی فرقہ ہے۔ جس سے بقول راجدیپ سردیسائی یہ سوال بجا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت کیا مجرم کا مذہب بھی ایک محرک ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال ہماری نظروں میں یہ ایک شہری کے بنیادی حقوق اورانسانیت کی حفاظت کا معاملہ ہے۔ ہم اسی پہلو سے برادران وطن کی حمایت وتائید کی امید کرسکتے ہیں۔

پروفیسر آشوتوش وارشنئی نے اپنے تجزیہ : "Can Modi turn the tide" میں جو 4اگست کے انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے، یہ نتیجہ اخذ کیا ہے مودی کا سیاسی اعتبار بڑی تیزی سے گھٹ رہا ہے۔بھاجپا قیادت بوکھلائی ہوئی ہے۔ اس کو اپنے ووٹ بنک کی فکر ہے۔ لیکن بدعنوانی کے الزامات اور دیگر ناکامیابیوں کی بدولت یہ سرکار جس طوفان میں گھر گئی ہے اس سے اسی صورت میں راحت مل سکتی ہے جب بہار میں این ڈی اے کوبھاری بھرکم جیت حاصل ہو۔ مودی اوران کی پارٹی کی نظراس پر ہے ۔یعقوب کی پھانسی اورآراضی بل پر یوٹرن کا ایک سبب بہار چناؤ بھی ہے۔ ہمارے کچھ ’’مسلم قائدین‘‘ ایک ملی قومی پلیٹ فارم سے کچھ ایسی تحریکات چلانے پر اڑے ہوئے ہیں جن سے مودی اینڈ کمپنی کو تقویت حاصل ہو۔ اس حکمت عملی کا رازسربستہ تو وہی جانیں۔ لیکن بعض خود غرض، نادان اورسیاسی طور سے نابالغ لوگ ان صاحب کو ’’حضرت اقدس‘‘ ، عالم دین، مفتی ،شہ سوار سیاست اورامت مسلم کا نجات دہندہ بناکر پیش کررہے ہیں۔ کہتے ہیں آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کرنے کی صفت ان میں ہے۔کس کی آنکھ میں آنکھ ڈالیں گے؟ سابقہ لوک سبھا چناؤ میں یہ ثابت کردیا ہے کہ آپ کا وزن کچھ نہیں رہ گیا۔آپ اس کا کیا بگاڑلیں گے جو اکثریتی فرقہ کو گول بند کرکے ووٹ حاصل کرتا ہو؟ہاں اس کو فائدہ پہنچا کرذاتی طور پر فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کون سمجھائے اورکون بتائے بہرحال ہماری آرزو اوردعا ہے کہ سیاسی حقائق سے ناواقف ان بھولے بھالے بردران ملت کو اﷲ تعالیٰ شعورو شرافت اورآخرت کے حساب پرایمان سے سرفرازفرمائے۔افراد ان کے لبادوں اورخاندانی شجروں سے نہیں ان کے کارناموں اورسرشت ذاتی سے پہچانیں۔ آمین۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.