بدھ کے روز سپریم کورٹ کے فل
کورٹ بنچ نے 18ویں اور21ویں آئینی ترامیم پر فیصلہ سناتے ہوئے ترامیم کو
چیلنج کرنے والی تمام درخواستیں اکثریت رائے سے مسترد کر دیا اور ملک میں
فوجی عدالتوں کے قیام کو جائز قرار دے دیا ۔ 17 ججز میں سے 11 نے فوجی
عدالتوں کے قیام کے خلاف درخواستیں مسترد کیں جبکہ 6 ججز نے فوجی عدالتوں
کو مسترد کر دیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو میں تحریر کردہ اپنے اختلافی
نوٹ میں لکھا کہ 21ویں ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازمی ہے، پارلیمنٹ مقتدر
اعلی نہیں، اس کے ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے
اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ’’ 21ویں ترمیم کو کالعدم قرار دینا لازمی ہے،
پارلیمنٹ مقتدر اعلی نہیں، اس کے ترمیم کے اختیارات لامحدود نہیں، پارلیمنٹ
مقتدر اعلی نہیں ہے ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہو
یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندوں کے اختیارات میں شامل
نہیں،منتخب نمائندگان کوئی بھی ایسا قانون یا آئینی ترمیم نہیں لا سکتے جو
عوام الناس کے احکامات کے برعکس ہو ،ایسا قانون یا ترمیم جو جمہوریت کے
اصولوں کے منافی ہو یا عدلیہ کی آزادی سے متصادم ہو منتخب نمائندگان کے
اختیارات میں شامل نہیں، آرٹیکل 51 کے تحت اقلیتوں کے انتخاب کا طریقہ کار
کالعدم قرار دیا جائے ، آرٹیکل 51 کی ترمیم سے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا
شہری بنا دیا گیا ہے‘‘ ۔اسی روز صدر ممنون حسین نے جسٹس جواد ایس خواجہ کی
چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دی۔چیف جسٹس ناصر الملک 16 اگست کو
ریٹائر ہو جائیں گے اورچیف جسٹس ناصر الملک 16 اگست کو ریٹائر ہو جائیں گے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ چیف جسٹس ناصر الملک کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین
جج ہیں۔
بلاشبہ ملک میں جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کا قیام ملک کے
عدالتی نظام پر خود حکومت کی طرف سے عدم اعتماد کا اظہار ہے۔اس متعلق عمومی
تشویش میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے کہ جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی
کے حوالے سے ملکی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کے اظہار کے طور پر فوجی
عدالتیں تو قائم کر لی جاتی ہیں لیکن عوام کے مفاد میں پولیس ،انتظامیہ اور
عدالتی نظام کی اصلاح کی طرف حکو مت کوئی توجہ دیتے نظر نہیں آتی۔جمہوری
نظام کے ہوتے ہوئے فوجی عدالتوں کے قیام سے ملک میں جموریت اور مارشل لاء
کے ملاپ سے ایسا انوکھا نظام لایا گیا ہے جسے ملک اور عوام کے مفاد میں
قرار نہیں دیا جا سکتا۔ملک میں اقلیتوں کو دوسرے نہیں بلکہ تیسرے درجے کا
شہری بنا رکھا ہے کیونکہ دوسر ادرجہ ملک کے عوام کے لئے مخصوص کر رکھا
ہے۔ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان کا قیام عوامی جدوجہد اور
قربانیوں کا اعجاز ہے،عوام کو دوسرے،تیسرے درجے کی مخلوق بناتے ہوئے ملک کے
مفاد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ملک میں یہ سوچ بھی پائی جار ہی ہے کہ
سول ادارے ،افراد ناکارہ ،ناقابل اعتبار ہیں جبکہ فوج ہی سب کچھ اچھے طریقے
سے کر سکتی ہے۔اگر یہی انداز سوچ ہے تو کیوں نا پھر حکومت اور تمام سرکاری
ادارے فوج کے حوالے نہ کر دیئے جائیں؟تمام سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین
کی چھٹی ،حکومت فوج سنبھالے سرکاری اداروں محکموں میں ریٹائرڈ فوجیوں کو
بھر تی کر لیا جائے؟ طا قت کے راستے میں کون آ سکتا ہے، انہوں نے جو کرنا
ہے وہ کر رہے ہیں ، ہماری تو اﷲ سے دعا ہے کہ ان پالیسیوں کا بھی وہی انجام
نہ ہو جس طرح انہی کی ماضی کی پالیسیوں نے پاکستان کو برباد اور نامراد کیا۔
عوامی مفاد کے حوالے سے پاکستان کا نہایت اہم اور حساس مسئلہ ملک میں معاشی
عدم مساوات کا ہے۔خود نامزد چیف جسٹس سپریم کورٹ کا اعتراف موجود ہے کہ
عوام کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں حکمرانوں ،سرکاری
تنخواہیں پانے والے افسران کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ
شاید سلطنت برونائی کے شہزادے جلوہ افروز ہیں۔ان کے لئے ہر سرکاری سہولت
اور سروس ون کلاس سٹینڈرڈ کی،عوام کے لئے سہولیات نہیں،وسائل نہیں۔عوام کے
لئے صفائی ،بلدیہ ،پانی ،پولیس، انتظامیہ، سرکاری محکموں کے نظام ناقص
ہیں،سہولیات نہیں ہیں ،حفاظت نہیں ہے،معاش نہیں ہے،یکرفہ ،ناجائز سرکاری
وصولیاں ہیں،مختصر یہ کہ خواص کے لئے شاندار ،پر تعیش ماحول برقرار رکھنے
کے لئے عوام کو ناجائز معاشی دباؤ کا شکار بنا رکھا ہے۔وہ کون کون سے طبقات
ہیں جن سے وابستہ افراد معاشی طور پر مصائب میں مبتلا مملکت پاکستان میں
شاندار طرز زندگی گزار رہے ہیں،ان کی سوشل لائف یورپ سے اچھی،ان کے لئے صحت
کی سہولیات کا معیار یورپ سے بھی اچھا،ان کے لئے تعلیمی سہولیات کا معیار
یورپ سے بھی اچھا، سرکاری تنخواہیں پانے والے خواص کے لئے ہر سہولت بہترین
معیار میں میسر ہے۔یعنی ان کا پاکستان تو آباد اور شاد باد ہے لیکن عوام کا
پاکستان دکھ بھرا، مجبور اور نامراد ہے۔
نہیں فکر اہل ہوس کی چیرہ دستیوں کی
راہ نما کی راہ زنی سے ڈر لگتا ہے |