وزیر اعظم نوازشریف نے 30جولائی
کو گلگت بلتستان کا ایک روزہ دورہ کیا۔سکردو اور گانچھے کے مختلف علاقوں
میں اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔ وزیر اعظم نے گلگت بلتستان کے سیلاب و بارش
متاثرین کے لئے 50کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا اور وزیر اعلیٰ گلگت
بلتستان حافظ حفیظ الرحمان پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 5سال
میں خطے کی تقدیر بدل دیں گے ۔اسپیکر حاجی فدامحمد ناشاد کے مطابق وزیر
اعظم نے مجموعی طور پر ڈھائی ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے ،جو مختلف
شعبوں کے لئے ہے ،جبکہ 50کروڑ روپے صرف متاثرین کی بحالی پر خرچ ہونگے ۔
وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کی31جولائی کی پریس کانفرنس کے مطابق خطے میں
بارشوں اور سیلاب سے ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے جبکہ اگست کے
ابتدائی دنوں میں ہونے والی بارشوں میں گلگت اور چلاس میں مزید تباہی ہوئی
ہے جس سے نقصانات میں اضافہ ہوگا۔خطے میں محکمہ برقیات اور مواصلات کو شدید
نقصان پہنچا ہے، خطے میں ہزاروں ایکڑز کھڑی فصلیں اور باغات تباہ ہوئے ہیں
۔نیشنل ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی5اگست کی رپورٹ کے مطابق
گلگت بلتستان 7افراد جاں بحق6زخمی ،812مکانات ،286گاؤں اورایک لاکھ 36ہزار
افراد متاثر ہوئے ۔
امدادی سرگرمیوں وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان ،اسپیکر حاجی فدامحمد ناشاد،
صوبائی وزراء رانا فرمان علی، ڈاکٹر محمد اقبال،ثوبیہ جبین مقدم اور
ابراھیم ثنائی کا کردار قابل تحسین رہاہے دیگر وزراء اور نمائندوں نے بھی
اپنے آپ کو متحرک رکھاتاہم انہیں مزیدفعال ہونے کی ضرورت ہے ۔ صوبائی حکومت
کورابطہ سڑکوں اور بجلی کی فوری بحالی اور دوردراز علاقوں تک گندم کی
فراہمی بڑا چیلنج ہے اور ہنگامی اقدام کی ضرورت ہے ۔
گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق دن بدن گندم
کی قلت بحران کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور فوری طور پر تدارک نہ کیاگیا
تو قحط پیدا ہوسکتا ہے ۔گندم کی ترسیل اور فراہمی کے معاملے کووزیر اعظم
میاں محمد نوازشریف کے دورے میں اٹھانا چاہیے تھا کیونکہ اطلاعات کے مطابق
گندم کی فراہمی یا ترسیل میں اصل رکاوٹ وفاق سے پیدا کی جارہی ہے اور خطے
کیلئے مختص کوٹے کے مطابق بعض قوتیں گندم فراہم نہیں کررہی ہیں۔حکومت
سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو یہ بحران وقت سے پہلے ٹل سکتاہے۔
وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے دورے کے موقع پر ناراض رہنماء حاجی اکبر تابان
کو بطور سینئروزیر وزارت کا حلف اٹھانے پر راضی کردیا جس کے بعدموصوف نے
4اگست کو وزارت کا حلف اٹھایا جس کے بعد بظاہر میر غضنفر علی خان کیلئے
گورنر بننے کی راہ میں حائل رکاوٹ ختم ہوگئی ہے تاہم بعض قوتیں اب بھی
سرگرم ہیں اور کہا جارہاہے گورنر کا عہدہ بلتستان کو دیا جائے اس ضمن میں
سابق آئی جی سندھ افضل شگری، فوزیہ سلیم کا بھی نام لیاجارہاہے۔میر غضنفر
علی خان کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان کا گورنر ان کے بغیر کوئی اور بن ہی
نہیں سکتا۔موصوف کے دعوے کے مطابق وہ گورنر بن چکے ہیں جب چاہیں گے اپنے
عہدے کا حلف اٹھائیں گے،ان کے ’’ بڑھ بولے پن ‘‘کا جواب تو ن لیگ ہی دے
سکتی ہے کہ موصوف کس وجہ سے اپنے سوا خطے کے کسی اور فرد کو گورنر کے عہدے
کیلئے اہل نہیں سمجھتے ہیں، حالانکہ ماضی میں ان کی 5سالہ حکمرانی میں قوم
کو سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملا ۔
گلگت بلتستان میں ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے لئے گلگت بلتستان کونسل کا
انتخاب بھی امتحان ثابت ہورہاہے ۔ایک طرف وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان
اور ن لیگ کے بعض رہنما یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عبوری آئینی اصلاحات کے تحت
کونسل کو ختم کرکے گلگت بلتستان کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں عبوری
نمائندگی دی جارہی ہے، دوسری جانب اگست کے آخر تک کونسل کے 6ارکان کے
انتخاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
انتخابی طریقہ کار کے مطابق ایک نشست کے لئے 5ووٹ درکار ہیں اس طرح ن
لیگ22ووٹوں کے ساتھ 4نشستیں آسانی جیت سکتی ہے ، تاہم مزید ایک نشست کیلئے
تین مزید ارکان کی حمایت درکار ہے ۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کونسل کیلئے
کروڑوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ کا سلسلہ شروع ہوچکاہے اور ن لیگ کے بعض ارکان
بھی مستفید ہونے کے لئے تیارہیں اگر ایسا ہے تو یہ المیہ ہے۔
ن لیگ کیلئے جہاں ارکان کو ہارس ٹریڈنگ سے بچانا ایک امتحان ہے وہیں ٹکٹوں
کی تقسیم بھی مشکل مرحلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کو
چاہیے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ اور علاقوں کی نمائندگی کا خیال
رکھیں،کہیں ایسا نہ ہوکہ’’ نظریہ ہار جائے اور دولت کی چمک جیت جائے‘‘
’’اقرباء پروری اور چمک کو ٹھکرانا ہوگا‘‘،ورنہ آنے والا وقت مشکل ثابت
ہوگا۔بظاہر ایسا لگتاہے کہ ن لیگ دیامر ، غذر ، بلتستان اور استور سے ایک
ایک نمائندے کا انتخاب کرے گی اور ایسی صورت میں ن لیگ کے پاس مناسب
امیدوارمحدود ہیں تاہم سفارش ،چمک یا اقرباا پروری کو مدنظر رکھا گیا تو
امیدواروں کی تعداد لا محدود ہوسکتی ہے ۔
اسلامی تحریک حکمت عملی کے ساتھ کونسل کی ایک نشست باآسانی جیت سکتی ہے ،
اسلامی تحریک کو چاہیے کہ وہ کسی ایسے رہنماء کا انتخاب کرے جو سیاسی سوج
بوجھ کے ساتھ ساتھ خطے کے حوالے سے عالمی اور علاقائی حالات پر گہری نظر
رکھتاہوں ، اس ضمن میں غلام شہزاد آغا کی شکل میں بہتر امیدوار موجود ہے۔
جہاں تک مجلس وحدت مسلمین کاتعلق ہے ایسے بھی مزید دو ووٹوں کے انتظام کرنے
کے ساتھ سنجیدہ امیدوار کومیدان میں لانا ہوگا جس کی خطے کے حالات پر گہری
نظر ہو، کیونکہ اس وقت گلگت بلتستان کو انتشار نہیں اتحاد ویگا نہگت کی
ضرورت ہے۔
پیپلزپارٹی کونسل کے انتخاب میں کردار صرف اس حدتک ہے کہ وہ کسی کی حمایت
کرے امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کے عمران ندیم اسلامی تحریک کے امیدوار کی
حمایت کریں گے کیونکہ ان کی کامیابی میں اسلامی تحریک کا کردار اہم رہاہے ۔انتخابات
میں بدترین شکست کے بعد پیپلزپارٹی کی اب تک تنظیم سازی نہیں ہوسکی ہے ،اگرچہ
سابق ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد اور امجد حسین ایڈوکیٹ دعوے کررہے ہیں لیکن
ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان کے دعووں میں سنجیدگی سے زیادہ حافظ حفیظ الرحمن
دشمنی کا عنصر شامل ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی کو چاہیے کہ انتخابات میں بدترین
ناکامی کا ادارک کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات سے پہلے تنظیم سازی کرے اور ن
لیگ کو جواب دے۔
جمعیت علماء اسلام کی بھی یہی صورتحال ہے کہ انتخابات میں ناکامی کے بعد اب
تک کوئی تبدیلی نہیں آ ئی اور یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات جلد ہونے کی
صورت میں جمعیت علماء اسلام کیلئے کوئی بڑی کامیابی دیکھائی نہیں دے رہی
ہے۔تحریک انصاف نے حشمت اﷲ خان کی جگہ راجہ جلال حسین خان کو صوبائی قیادت
سونپی ہے اور سابق رکن اسمبلی آمنہ انصاری کو خواتین وننگ کی سربراہی دی ہے
، راجہ جلال نے عدالت میں سنجیدگی کے ساتھ اپنا کیس پیش کیا تو وہ حاجی
اکبر تابان کے مقابلے میں عدالت سے کیس جیت بھی سکتے ہیں ۔امکان یہی ہے کہ
اگست کے آخری عشرے میں گلگت بلتستان میں سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ |