ہندوستان کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان

ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا پارلیمانی جمہوری نظام کہلاتا ہے جس کی بنیاد تین شعبوں پرمحیط ہے مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ ۔مقنہ اور انتظامیہ ایک دوسرسے باہم مربوط ہیں جس میں مقننہ کو انتظامیہ پر فوقیت حاصل ہے اور دونوں مل کر کام کرتے ہیں تاہم نظام مملکت کے یہ دونوں شعبے شروع ہی سے ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرزم کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکامی کے شکار ہیں ۔ مقننہ اور انتظامیہ کے اندر پائے جانے والی عصبیت اور اقلیتی طبقہ کے تئیں نفرت نے دنیا بھر میں ہندوستان کی شبیہ پر بد نما داغ لگایا ہے ۔آزادی کے 68 سال گذر جانے کے باوجود بھی مقننہ اور انتظامیہ کے طرزعمل سے اب تک یہاں کی اقلیتیں مطمئن نہیں ہوسکی ہیں ۔ ہر قدم اور ہر موڑ پر اکثریتی طبقہ کی دھاندلی نظر آتی ہے ۔ مقننہ اور انتظامیہ بھی انہیں کا ساتھ دیتی ہے ۔ اقلیتوں کے جذبات سے کھلواڑ کئے جاتے ہیں۔ ان کے مسائل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔البتہ ملک کی عدلیہ نمایاں مقام حاصل ہے۔یہ مقننہ اور انتظامیہ سے جدا ہے ۔اس لئے ہر ایسے مقام پر جہاں یہاں کی اقلیتوں کو اکثریتی فرقے کا خوف سماتا ہے ۔ حکومت اور انتظامیہ سے انصاف نہیں مل پاتا ہے ۔وہاں اقلیتی فرقہ کے لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اورعدالت انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ انتظامیہ اور مقننہ کو قانون کی پاسداری کا حکم دیتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ملک کی عدلیہ قابل بھروسہ مانی جاتی ہے ۔ وہاں سے مکمل انصاف اور قانون کی پاسداری کی توقع ہوتی ہے ۔ ماضی میں بیشتر ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں ہر طرف سے مایوس ہوجانے کے بعد عدالت سے مسلمان سمیت ملک کی اقلیتوں کو انصاف ملا ہے ۔ لیکن گذشتہ چند سالوں سے ملک کی عدلیہ پربھی سوالیہ نشان لگایا جارہاہے ۔عدالتی نظام پر عد ل و انصاف کی پامالی کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔یہاں سے صادر ہونے والے فیصلوں کو سیاست زدہ اور قانون کی بالادستی کو فروغ دینے کے بجائے اکثریت کے جذبات کے احترام پر مبنی کہا جارہا ہے ۔

ہندوستان کے عدالتی نظام پر جو لوگ سوال قائم کررہے ہیں وہ کوئی عام آدمی ، قانو ن سے ناآشنا ، اور ایرے غیرے نتھونہیں ہیں ۔ بلکہ وہ لوگ ہیں جو اس کے پیچ و خم سے مکمل طور پر واقف ہیں ۔ نشیب و فراز کا مکمل علم رکھتے ہیں ۔ ان لوگوں نے برسوں اپنا وقت انہیں عدالتوں میں گذار ہے اور اپنے انہیں تجربات کی بنیاد پر آج وہ کہ رہے ہیں کہ ہندوستان کا عدالتی نظام شفاف نہیں ہے ۔ یہاں کی عدالتیں قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے بجائے اکثریت کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہیں ۔جیساکہ پارلیمنٹ حملے میں ملوث افضل گرو کو پھانسی کی سزا دینے کے تعلق سے سپریم کورٹ نے کہاتھاکہ قوم کے اجتماعی شعور کا خیال کرتے ہوئے پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔

حال ہی میں یعقو ب میمن کی پھانسی کی سزا برقرار رکھنے اور ہرطرح کی جدوجہد کے باوجود 30 جولائی کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے پس منظر میں ملک کے دانشورں نے جس طرح اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے ایک عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ ہندوستان کا عدالتی نظام مکمل طورپر شفاف نہیں ہے یہاں مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر فیصلہ صادر کیا جاتا ہے ۔ یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہاہوں اور نہ مجھے عدالتی نظام پر کچھ لکھنے کا کوئی حق حاصل ہے۔عدلیہ کا احترام میرا فریضہ ہے ۔ اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنا میر احق ہے ۔آئیے میں آپ کی ملاقات ان شخصیات سے کراتاہوں جنہوں نے عدالت کی شفافیت کو کٹہرے میں لاکھڑاکیا ہے ۔

ہندوستان کے مشہور دانشور اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب مارکنڈے کاٹجو نے دسروی مرتبہ یعقوب کی کیوریپوٹیشن سپریم کورٹ سے خارج کئے جانے کے بعد اپنے فیس بک پیج پر لکھاکہ افضل گرو کی طرح اس معاملہ میں بھی سپریم کورٹ نے کمزور دلائل کی بنیاد پر سزائے موت کا فیصلہ صادر کرکے اپنی ساکھ پر داغ لگا لیا ہے ۔ جسٹس کاٹجو یعقوب میمن کے بارے میں مسلسل لکھ رہے ہیں کہ یعقوب کے حوالے سے جو شواہد پیش کئے گئے ہیں وہ انتہائی کمزور ہیں اور اس کی بناپر سزائے موت نہیں دی جاسکتی ہے ۔سپریم کورٹ کے سابق وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ’’ 1993 کے سلسلہ وارممبئی بم بلاسٹ کیس میں یعقوب کا دھماکوں میں براہ راست ملوث ہونا ثابت نہیں ہوسکا تھا ۔ان کے بقول ان دھماکوں میں شریک ملزمان کے اقبالی بیان کی بناپر یعقوب کو ملزم بنایا گیا اور پھر اسے پھانسی کی بھی سزادی گئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس پہلو پر عدالت کی کوئی توجہ نہیں گئی اور پھانسی کی سزا پر عمل درآمد میں بھی بہت جلد بازی کی گئی‘‘۔سپریم کورٹ کی ایک اور وکیل آبھاسنگھ نے بھی عدلیہ کی جانب داری پر سوال قائم کرتے ہوئے آئی بی این سیون اور دیگر ٹی وی چینلوں پر مباحثہ کے دوران کہاکہ عدالتی نظام پر انگلی اٹھانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عدالتیں جانبداری سے کام لینے لگی ہیں ۔ معاملہ ایک ہے ۔ جرم کی نوعیت ایک ہے ۔ اس کے باوجود عدالت کسی کو پھانسی کی سزا سنادیتی ہے اور دوسر ے مجرموں کے ساتھ ایسانہیں کرتی ہے ایسے میں یہ صاف نظر آتا ہے کہ ہماری عدلیہ کہیں نہ کہیں مذہب اور ذات کی بنیاد اپنے فیصلے صادر کرتی ہیں اور اسی لئے یعقوب میمن کی پھانسی پر سوال کئے جارہے ہیں۔ یعقوب کے وکیل آنند گرو ور نے بھی مایوس ہوکر کہاکہ سپریم کورٹ سے بڑی بھول ہوئی ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کچھ نئے اقدامات کرنے ہوں گے۔مشہور صحافی مسیح رحمان کا بھی کہناہے کہ یقوب کی پھانسی نہیں ہونی چاہئے تھی کیوں کہ اس ہندوستان کو قانونی مدد فراہم کی تھی ۔ اگر اس طرح ہوا تو آئندہ کوئی بھی ہندوستان کو قانی مدد نہیں فراہم کرے گا ۔ ساتھ ہی یعقوب کے ساتھ وعدہ خلافی ہوئی ہے۔ راء کے سابق افسر بی رمن کا اعتراف ہے کہ یعقوب نے خودسپردگی کی تھی اور اسے پھانسی نہیں ہونی چاہئے ۔سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار انوپ سریندر ناتھ نے بھی اپنے عہدہ سے یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ دوگھنٹے کے اندر دوفیصلے عدالتی انحراف کی مثال ہیں جن کا شمار عدالت کی سیاہ گھڑی کے طور پر ہونا چاہئے۔سپریم کورٹ کی ورکنگ کمیٹی پر لوگ اس لئے بھی شک کررہے ہیں کہ یعقوب کی کیوریپوپٹیشن مسترد کئے جانے کے معاملے میں خود سپریم کورٹ کے دو ججوں کے درمیان اختلاف ہے ۔ جسٹس جوزف اسے غلط ٹھہراتے ہیں او رجسٹس آبے اسے گیتا کے اشلوک کا حوالہ دے کر اسے صحیح ٹھہراتے ہیں۔

ہندوستان کے عدالتی نظام پر سوال اٹھانے والوں جن لوگوں کا میں نے تذکرہ کیا ہے یہ سب ماہر قانون اور عدالتی امور سے مکمل طور پر واقفیت رکھتے ہیں ۔ سیاست سے ان کی کوئی وابستگی نہیں ہے ۔ یعقوب میمن سے کسی طر ح کی ان کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے ۔ انہوں نے یہ باتیں کسی انسانی ہمدری کے تحت نہیں کہی ہے بلکہ اس کا تعلق ہندوستان کی عدلیہ کے وقار کو برقرار رکھنے سے ہے ۔ ان کی خواہش صرف اتنی ہے کہ ملک کی مقننہ اور انتظامیہ کی طرح یہاں کی عدلیہ پر کوئی آنچ نہ آئے۔ کیوں کہ یہ انصاف کی آخری امید ہے ۔یہاں بھی اگر جانبداری سے کام لیا جائے گا ۔ جذبات کے تحت فیصلے کئے جائیں گے ۔ کمزور شواہد کی بنیاد پر محض ایک فرقہ کے جذبات کو پروان چڑھانے لئے کسی کو پھانسی دی جائے گی تو اس سے ملک کی جمہوریت کمزور ہوگی ۔ عدلیہ سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجائے گا ۔ اس کا وقار مجروح ہوگا۔

یعقو ب کی پھانسی کو اگر سیاسی نظر سے دیکھا جائے تو اسد الدین اویسی صاحب کی یہ بات صد فی صد حقیقت پر مبنی ہے کہ ’’ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا نہ ملتی اگر تم یعقوب نہ ہوتے ‘‘۔سوال یہ نہیں ہے کہ یعقوب میمن کو پھانسی کیوں ہوئی بلکہ سوال یہ ہے کہ راجیوگاندھی کے قاتل ، بے انت سنگھ کے قاتل اور اس طرح کے دیگر مجرم جنہیں عدالتیں سزائے موت سناچکی ہیں انہیں تختہ دار پر کیوں نہیں لٹکایا جارہا ہے ۔جس طرممبئی بلاسٹ میں مارے گئے 257 لوگوں کو انصاف دیا گیا ہے اس طرح 1992 کے ممبئی فساد جس میں 900 بے گناہ مارے گئے ، گجرات فساد جس میں 3 ہزار بے قصورورں کا خون بہا یا گیا ، ہاشم پور ہ فساد جس میں 46 مسلمانوں کا قتل عام ہوا انہیں انصاف دینے کی سمت میں کیوں کوئی پہل نہیں ہورہی ہے ۔ بابر ی مسجد کے گنہ گار ورں کو کیوں سزا نہیں دی جارہی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجہ سنگھ نے بھی ٹویٹ کرکے کہاتھا کہ سپریم کورٹ کو دہشت گردی میں ملوث افرادکو ایک نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ ذات ، نسل اور فرقہ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہونی چاہئے۔

سپریم کورٹ کے تئیں شک و شبہ کی ایک وجہ یہ بھی کہ 29 جولائی 2015 کو اسی سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے راجیوگاندھی کے قاتلوں کی سزا عمر قید میں تبدیل کرنے کا فیصلہ صادر کیا اور یعقوب میمن کی پھانسی چالیس نامور ہستیاں سمیت تین سو لوگو کی درخواست کی باوجود عمر قید میں تبدیل کرنے کے بجائے من و عن برقرار رکھی گی۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180994 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More