قصور:ملکی تاریخ کا شرمناک واقعہ....قصوروار کون؟
(عابد محمود عزام, karachi)
قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا کے
گاﺅں حسین خان والا میں بچوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کے واقعے نے پورے
ملک کو دہلا کر رکھ دیا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے چند کلو میٹر کی
مسافت پر واقع قصور میں مستقبل کے معماروں پر جو قیامت ٹوٹی اس سے ملک بھر
کے لوگوں کے ہوش اڑا گئے ہیں۔ قصور واقعہ ملکی تاریخ کا سب سے شرمناک اور
بھیانک اسکینڈل ہے، جس میں مبینہ طور پر 20 سے 25 افراد کے گروپ نے بااثر
افراد کی سرپرستی میں گزشتہ دس سال کے دوران 280 سے زاید نوعمر لڑکوں
اورلڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور ان کی 400 سے زائد ویڈیوز بنائیں
اور ان ویڈیوز کے ذریعے بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے ان سے بھتہ
وصول کیا گیا اور متاثرہ بچوں کو گھر سے زیورات اور نقدی چوری کرکے لانے پر
بھی مجبور کیا جاتا رہا۔ جبکہ یہ درندے ان ویڈیوز کو بین الاقوامی چائلڈ
پورنو میں ملوث لوگوں کو فروخت کر کے کروڑو روپے کماتے رہے۔ متاثرین کے
وکیل کے مطابق اس گینگ نے ان ویڈیوز سے مجموعی طور پر بیس سے تیس کروڑ روپے
کمائے ہیں۔ متاثرہ بچوں کے والدین کے مطابق وقتاً فوقتاً اس جرم کے خلاف
آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار بااثر مجرموں سے ملی ہوئی پویس ان
کو زبردستی خاموش کرادیتی۔ اس اسکینڈل کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کو
پکڑ کر پولیس کی جانب سے مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ اس سلسلہ میں آواز
اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔مقامی پولیس نے بچوں کے والدین کی داد رسی کرنے کی
بجائے شکایت کنندگان کو خاموش کروانے اور ان کے اہل خانہ کو سنگین نتائج کی
دھمکیاں دیں۔ اس صورتحال میں گزشتہ ہفتے متاثرہ دیہات کے 400 کے لگ بھگ لوگ
جب احتجاج کرنے کے لیے نکلے تو پولیس نے ان کا راستہ روک لیا اور انہیں شہر
جا کر احتجاج ریکارڈ کروانے سے منع کیا۔
اب حقیقت واضح ہوجانے کے بعد بھی پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ اس
پورے کے پورے معاملے کو ہی زمین کا جھگڑا قرار دے کر بے بنیاد قرار دے رہے
ہیں۔ ذرایع کے مطابق اس اسکینڈل کی حقیقت یہ ہے کہ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ
والا کے گاﺅں حسین خان والا میں بچوں کے ایک گراﺅنڈ کی زمین پر وہاں کے
بااثر سیاسی گھرانوں کی نظر تھی۔ کئی مرتبہ گراﺅنڈ کی زمین پر قبضہ ہوا،
تاہم مقامی لوگوں نے بچوں کے گراﺅنڈ پر قبضہ چھڑا لیا۔ اسی جرم کی پاداش
میں بااثر لوگوں نے کچھ ” نوجوانوں“ کو ” ذمہ داری“ سونپی کہ وہ یہاں پر
کھیلنے والے نوعمر لڑکوں کو ” سبق“ سکھائیں۔ انہوں نے کبھی زور زبردستی تو
کبھی رضامندی و کبھی نیم رضامندی سے باری باری ان لڑکوں کو زیادتی کا نشانہ
بنانا شروع کردیا۔ ابتدائی طور پر اس سارے عمل کا مقصد گاﺅں والوں کو ان کے
کیے کی سزا دینا اور 18ایکڑ زمین پر قبضہ کرنا تھا، اس کے بعد ان ویڈیوز کو
پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ جون کے آخر میں سامنے آنے والا یہ معاملہ
اب تک کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا، کیونکہ قصور کے بااثر سیاست دانوں کی
ایما پر وہاں پر تعینات پولیس کے اعلیٰ افسروں کی طرف سے اس میں مبینہ طور
پر رکاوٹ ڈالی گئی اورکیس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قصور میں
متاثرین کے وکیل کا کہنا ہے کہ قصور واقعہ کے ملزمان کو سیاسی پشت پناہی
حاصل ہے اور پولیس جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ جب معاملہ میڈیا پر آیا
اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کے دباﺅ پر پولیس کو کارروائی کرنا
پڑی۔ مقامی پولیس کے مطابق اس کیس میں 14افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
پانچ ملزمان کو 28روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔
قصور میں بچوں سے زیادتی اور ان کی وڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کے معاملے
کی تفتیش میں ہونے والی پیش رفت پر غور کے لیے مقدمات میں ملزمان کے خلاف
انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 شامل کردی گئی، جس کے بعد اب ملزمان کے
خلاف مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا۔ قصور میں بچوں کے ساتھ
ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت نے مشترکہ
تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے جو دو ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کے بعد اپنی
رپورٹ عدالت میں جمع کروائے گی۔ مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں خفیہ اداروں کے
دو اہلکار بھی شامل ہوں گے۔ جبکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس واقعے پر
مذمتی قراردادیں متفقہ طور پر منظورکرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ واقعے
میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ قرارداد میں پنجاب حکومت
سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قصور واقعہ کی ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کرائی
جائیں اور ملوث ملزمان کو مثالی سزا دلائی جائے۔ ایوان زیریں نے بچوں کے
حقوق کے لیے موثر قانون سازی کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔ بعض ارکان نے
یہ مطالبہ بھی کیا کہ گزشتہ چھ برسوں میں قصور میں تعینات رہنے والے تمام
ایس ایس پیز اور ایس ایچ اووز کو شامل تفتیش کیا جائے۔ سابق گورنر پنجاب
اور تحریک انصاف کے رہنما چودھری محمد سرور کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں سے
زیادتی کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلنا چاہیے، کیوں کہ پولیس سے انصاف کی
کوئی توقع نہیں۔ ہمارے سیاستدان، پولیس اور ادارے مظلوموں کی مدد کرنے کی
بجائے ظالموں کے ساتھ مل گئے، بجائے اس کے کہ ظالموں کو پکڑا جاتا معصوم
لوگوں پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں، دنیا میں کہیں ایساظلم نہیں ہوتا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے
واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ
زیادتی کا واقعہ خوفناک ہے، امید ہے پاکستان ذمہ داروں کو کیفرکردار تک
پہنچائے گا۔ واضح رہے کہ بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن (سی آر سی) اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نومبر 1989 میں منظور کیا، پاکستان نے بھی اسی سال
اس کی تصدیق اس شرط کے ساتھ کی کہ اس کی دفعات کی ترجیحات اسلامی اصولوں کی
روشنی میں کی جائیں گی۔ اس کنونشن کی دفعہ (19) کے مطابق: ”فریق ممالک، بچے
کو، جب کہ وہ والدین یا قانونی سرپرست جو بچے کی نگہداشت کررہا ہو، جسمانی
یا ذہنی تشدد، زخم یا زیادتی، غفلت یا غفلت پر مبنی سلوک، بدسلوکی یا جنسی
استحصال سے تحفظ کے لیے مناسب قانونی اور سماجی اقدامات کریں“۔ اس کے علاوہ
اسی کنوینش کی دفعہ (34) فریق ممالک کو اس کا پابند بناتی ہے: ”وہ بچے کو
تمام اقسام کے استحصال اور جنسی تحفظ فراہم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اس مقصد
کے حصول کے لئے فریق ممالک درج ذیل اقدامات کریں گے“۔(الف) بچے کو جبری یا
بہلا پھسلا کر کسی بھی غیر قانونی جنسی عمل میں شامل نہ کرنا۔(ب) بچوں کا
جسم فروشی یا دیگر جنسی استحصال سے بچاﺅ۔(ج) فحاشی پر مبنی سرگرمیوں اور
مواد میں بچوں کا استحصال۔
پاکستان میں بچوں کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ
پاکستان میں بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ماہرین کے
مطابق قصور جیسے واقعات پاکستان کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی ہو رہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کے حوالے سے حکومت کے
پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ ہر سال ہزاروں بچے زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں،
اس کے باوجود حکام نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات
نہیں کیے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ قصور واقعہ کے بعد پنجاب پولیس پر عوام کی
بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے قصور میں اس
قدر گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کیا جاتا رہا، لیکن پولیس مجرموں کو کیفرکردار
تک پہنچانے میں ناکام رہی، جس سے پولیس کی بدنامی میں اضافہ ہورہا ہے اور
میڈیا قصور واقعہ میں ملزمان کی پشت پناہی کرنے پر پولیس کو قصور وار قرار
دے رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق معاشرے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے
واقعات کا سد باب کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
|
|