شفاف الیکشن مگر کیسے ؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
بلدیاتی الیکشن کا زمانہ
آگیا پھر سے سیاسی ڈھیرے آباد ہو گئے ہیں ہر طرف چہل پہل نظر آرہی ہیں ہر
امیدوار اپنے مخالف کو زیر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے عوام کو
ایک بار پھر سبز باغ دکھانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا۔لیکن صورت حال یہ
ہے کہ ایم پی اے،ایم این اے،یوسی سسٹم تک ہر کوئی ذاتی مفادات کے گرد چکر
لگاتا نظر آتا ہے ،منظور نظر لوگوں کو ہر دور میں نوازہ گیا اب نئے سیٹ اپ
میں بھی کہ کونسلر سے لیکر چیئرمین تک سب عوام کو زبانی وعدوں پر ٹرکھا رہے
ہیں تاکہ الیکشن تک گہما گہمی لگی رہے ،ہمارا ووٹ بینک محفوظ رہے ،ووٹر
خراب نہ ہونے پائیں اسی لئے تو کونسلر سے لیکر چیئرمین وائس چیئر مین تک کے
لہجوں میں نرمی آگئی ہے عام آدمی کو دیکھتے ہی یہ اور ان کے سپورٹرز کی
گاڑیاں رک رہی ہیں آؤ بھگت جاری ہے خوشامد کی حدیں شرماتی جا رہی ہیں
،پاکستان کے عوام بھی ہر بار سبز باغ دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں جس نے سبز
باغ کا نام بھی لیا اس کے پیچھے دوڑ پڑے خواہ جو بھی ہو ،اگر امیدواران کے
عزائم پر غور کرنے سے پہلے ان کی اہلیت پر غور کیا جائے تو پتا چلے گا کہ
اس سسٹم کے تحت بھی وہ معیار پر پورے نہیں اترتے چے جائیکہ اسلامی نظام کی
بات کی جائے ۔الا ماشاء کے سوا کو ئی بھی ایسا نہیں جو عوامی خدمت کے جذبے
سے میدان میں اترتا ہو اسی لئے تو ماضی کے الیکشنز کا نتیجہ صفر ہی نہیں
بلکہ منفی سے منفی ترین برآمد ہوا ۔اب بھی وہی عمل دہرایا جا رہا ہے یوسی
کے دفاتر میں ایک پیدائشی پرچی کے دو،دو ہزار روپ وصول کئے گئے تاکہ آنے
والے الیکشن کا خرچہ پورا ہوسکے باقی کرپشن کی روداد کا یہاں ذکر کرنے
کیلئے بے شمار صفحات کی ضرورت ہوگی۔اس بار بھی ہر امیدوار کی ترجیحات میں
کامیاب ہونے کے بعد ذاتی مفادات کی جنگ لڑنا ہے اس نظام کی سب سے بڑی خرابی
یہ ہے کہ یہاں امیدوار وں کا ظہور ہوجاتا ہے جبکہ اسلام کہتا ہے کہ جو عہدہ
طلب کرے ہم اسے عہدہ نہیں دیتے ۔تو پھر اسلام کی روح سے امیدوار بننا سرے
سے ہی غلط ہوا ،ہر کوئی امیدوار بن کر درخواست دیتا ہے کہ جناب الیکشن
کمشنر صاحب میں فلاں الیکشن لڑ نے کا امیدوار ہوں یعنی میں فلاں عہدے کا
طلب گار ہوں ،یاران نقطہ داں کہتے ہیں کہ اسلام میں کوئی امیدوار نہیں ہوتا
نظام کی مشینری چلانے کیلئے تو متقی لوگ جنھیں اہل الرائے یا اہل حل وعقد
کہا جاتا ہے اپنے علاقے،قصبے،ٹاؤن ،ضلع،صوبے،مرکز کے نمائندے چنتے ہیں عام
عوام تو صرف اطاعت کی بیعت کرتے ہیں۔ آج کے دور میں بھی یہی نظام رائج کیا
جائے تو بلدیاتی،ضلعی،صوبائی ،قومی اسمبلیوں کے الیکشنز کا دہندہ ختم ہو
جائے ،اب یہ حکومت وقت کا کام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک
میں اسلامی طرز انتخاب رائج کرے نہ کہ غیر اسلامی طرز انتخاب ،غیر اسلامی
طرز انتخاب تو لڑنے کا درس دیتا ہے جبکہ اسلام لڑنے سے منع کرتا ہے بلکہ یہ
اہم کام اہم لوگ سرانجام دیتے ہیں اگر حکومت وقت بروقت تمام جماعتوں کو
اعتماد میں لیکر اسلامی طرز عمل کا خاکہ تیار کرے جو قرآن وسنت میں موجود
ہے اسلامی طرز انتخاب کے حوالے سے امیر تحریک عظمت اسلام چوہدری رحمت علی
نے ایک خاکہ تیار کیا ہے جو راقم کو بہت اچھالگا اگر ارباب اقتدار اس کو
دیکھ لیں تو قوم کا وقت،پیسہ،وسائل ضائع ہوہونے سے بچ جائیں گے صالح قیادت
بھی اس طریقے سے قوم کو میسر آسکتی ہے ۔لیکن اعتراض کرنے والے ہماری اس
رائے پر بہت سے اعتراضات بھی کر سکتے ہیں پہلا اعتراض جو ہمارے معاشرے کی
سب سے بڑی بیماری ہے کہ جو شخصیت اسلامی طرز انتخاب کا خاکہ پیش کر رہی ہے
وہ معروف ،ملک گیر یا عالمی شہرت کی مالک نہیں ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حق
بات کہنے والے کی بات سننے کا حکم ہے حق بات کہنے والے کو نہ دیکھو کہ کون
کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کو یہ بات کیا کہہ رہا ہے؟کس کی بات کر رہا ہے ؟
مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے سامنے قرآن وسنت ہی اتھارٹی ہیں اسلام تمام شعبہ
ٔ زندگی کا احاطہ کرتا ہے اسلام کی نمائندہ حکومت کا قیام بھی اس میں شامل
ہے اب اسلامی حکومت کا قیام اسلامی طرز پر ہی ہونا چاہیے اس طرز انتخاب کو
ترجیحی بنیادوں پر جزو لازم قرار دے کر حکومتی مشینری کے افراد معاشرے سے
حاصل کرنا ہوں گے تاکہ معاشرہ صحیح معنوں میں ترقی کر سکے۔آج ہمارے ملک میں
ہونے والے الیکشن سے تبدیلی ،عوام کو ریلیف،مہنگائی کا جن کنٹرول،دہشت
گردی،قتل غارت گری کا خاتمہ ،فرقہ پرستی ،سیاسی و مذہبی تقسیم،معاشی وسماجی
ترقی کیوں نہیں ہو رہی اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سسٹم کے تحت ہم انتخابات کروا
رہے ہیں وہ اسلامی طرز کے مطابق نہیں ہیں جس کے باعث لیڈر شپ مفاد پرست
،کرپٹ میسر آ رہی ہے ۔ ایک غریب انسان جو انتظامی امور کا ماہر،باصلاحیت ہے
مال ودولت نہ ہونے کے باعث اس سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے سیاسی بازی
گروں کی مرضی کے بغیر محلے کی زکوٰ ۃ کمیٹی کا چیئر مین نہیں بن سکتا یوسی
کے انتظامی ڈھانچہ میں کامیابی تودور کی بات ہے ،یہ بات سچ ہے کہ ہمارے
معاشرے میں بے شمار افراد ایسے ہیں جو باصلاحیت ہیں اور ملکی ترقی میں
انتظامی امور میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مگر موجودہ
سرمایہ دارانہ ،غریب کش نظام حکومت نے ان کو غریب ہونے کے باعث دیوار کے
ساتھ لگا دیا ہے وہ اپنی خواہش کی تکمیل کا خواب دیکھے بغیر ایسے ہی دنیا
سے رخصت ہو رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس یوسی سطح کا چیئر مین بننے کیلئے پانچ
سے دس لاکھ نہیں ہے تو ایم پی اے ایم این اے کا الیکشن تو دیوانے کا خواب
ہے ان کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔کیا ان سرمایہ داروں نے کبھی سوچا کہ 98 فیصد جن
غریبوں سے ہم ووٹ لیتے ہیں ان کے کتنے نمائندے ہمارے ساتھ ایوان اقتدار میں
موجود ہیں؟ یقینا یہ ایسا نہیں سوچیں گے اس لئے کہ وہ ان کمی کمین ،غریبوں
کو اپنے ساتھ کھڑا کرنا تو اپنی توہین سمجھتے ہیں ان سرمایہ داروں کو تو
صرف غریبوں کے ووٹ درکار ہیں بس اور کچھ نہیں پھر یہ ایون اقتدار میں جا کر
انہی کا استحصال کریں گے ہر طرح سے ۔۔۔۔ کوئی طریقہ نہیں چھوڑیں گے اسی لئے
تو ایک کونسلر اگلے الیکشن میں چیئر مین یا ناظم ، ناظم ایم پی اے،ایم پی
اے ایم این اے ،وزیر ،سنیٹیربننے کے خواب دیکھتے ہیں تاکہ لوٹ مار میں
ہمارا حصہ زیادہ ہو سکے ۔
یہ سچ ہے بلکہ کڑوا سچ ہے کہ پاکستانی عوام پرامن ،مثالی اسلام کا علمبردار
معاشرہ چاہتے ہیں اسی لئے جب بھی کسی لیڈر نے عوام کو پکارا تو عوام بے
اختیار اس لیڈر کو مسیحا سمجھ کر اس کے پیچھے چل دئیے مگر میری مخلص قوم کو
ہر بار دھوکہ ملا ۔ماضی قریب میں نیا پاکستان اور سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا
نعرہ لگانے والوں کو عوام نے تاریخ ساز پروٹوکول دیا ملکی تاریخ کا سب سے
بڑا دھرنا دیا گیا مگر لیڈرز اپنے دعوے میں سچے نہ تھے اسی لئے ناکام لوٹے۔
راقم نے دھرنے ختم ہونے پر لوگوں کو روتے ہوئے واپس لوٹتے دیکھا ان لوگوں
کا کہنا تھا کہ ہم تو تبدیلی ،انقلاب یا شہادت کے عزم سے آئے مگر ایسا نہ
ہو سکا ۔نیا پاکستان بنانے والوں کی صفوں سے اب سچی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ
یہ بھی نیا پاکستان نہیں بنا سکتے کیوں کہ ان کی صفوں میں بھی وہ خاص لوگ
کنڑول اور کمانڈ پر آبیٹھ ہیں جنھیں خاص لوگوں نے بھیجا تھا غریب کارکن
یہاں بھی لاوارث ہو کر رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کے قائدین دعویٰ کرتے ہیں
کہ ہم عوام کے نمائندے ہیں میرا ان سے سوال ہے کہ آپ کے تنظیمی نیٹ ورک میں
کتنے ٖغریب لوگ مرکزی صوبائی،ضلعی سطح پر کمانڈ کر رہے ہیں اس کی تفصیل قوم
کے سامنے لائی جائے ۔ پھر قوم کو بھی علم ہوگا کہ ان سرمایہ داروں کے ہاں
ہماری کیا حیثیت ہے؟ اے میری قوم دل میں درد تو بہت ہے جس بیان کرنا ضروری
سمجھتا ہوں مگر اسی بات پر اختتام کرتا ہوں کہ اسلامی طرز انتخاب ملک وقوم
کو نجات دہندہ دے سکتا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو ۔
|
|