یوم آزادی ایک نئی امید کے ساتھ
(Saeed Ullah Saeed, Sawabi)
یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی
تحریر
الحمداﷲ! اہل وطن آج یوم آزادی ایک بار پھر نہایت ہی جوش و ولولے سے منارہی
ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی تو ہے ہی کہ اس دن باوجود تمام تر مشکلات کے ایک
عظیم اسلامی مملکت وجود میں آئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کی
شہادت کے صلے ملنے والی اس عظیم مملکت کو تو ہم اپنی نا اہلیوں اور
کوتاہیوں کی وجہ سے اسلامی تو کیا ایک درمیانے درجے کی فلاحی مملکت بھی نہ
بناسکے۔ یہی وجہ رہی کہ ہر سال یوم آزادی مناتے وقت جہاں خوشی محسوس ہوتی ،تو
وہی دل کے کسی گوشے میں مارے افسوس کے ٹھیس سی بھی اٹھتی تھی۔ کیونکہ جس
مقصد کے لیے اس پاک وطن کو ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا، اس مقصد کو ہم
مکمل طور پر فراموش کرچکے ہیں اوراس بات کااندازہ آ پ اس بات سے لگائیں ،کہ
اسلام کے نا م پر بننے والے اس پاک وطن میں ہر وہ کام دھڑلے سے کیا جارہاہے،
جس کاا سلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ کرپشن، اقربا پروری، قتل و غارت
گری ، سود خوری اور لسانی تعصب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ دوسری طرف اگر بات
کی جائے اپنی مقبوضہ علاقاجات کی، قریب میں موجود ہمسائے مگر وطن عزیز کے
ازلی دشمن ہندوستان سے چھڑانے کی۔ تو اس سلسلے میں وطن عزیز کی سیاسی قیادت
بشمول حکومت اور اپوزیشن(چند ایک کو چھوڑ کر) مکمل طور غفلت کے شکار اور
خواب خرگوش سوتے نظر آرہے ہیں۔ اسی بنا پر یوم آزادی مناتے وقت اہل وطن کے
ذہنوں میں یہ سوال ضرور سر اٹھا تا رہا ہے۔ کہ کیا کبھی پاکستان قائد کا
پاکستان بن سکے گا؟
میں اس بات پر خوش ہوں اور اہل وطن کو بھی یہ خوش خبری دینا چاہتا ہوں۔ کہ
بڑے عرصے بعد یہ امید ہوچلی ہے اور ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اب یہ آس لگا
سکتے ہیں کہ اب انشاء اﷲ یہ ملک قائد کا ملک بنے گااور ہم بتدریج اس منزل
تک یہنچیں گے ۔ جن تک پہنچناکچھ عرصے پہلے تک کسی خواب سے کم نہ تھا۔میں یہ
امید کیوں لگائے بیٹھا ہوں؟ تو اس کے پیچھے کچھ ٹھوس وجوہات اور مضبوط
دلائل ہیں ۔ مثلاً: انڈیا: کہ جس نے آزادی سے لے کر آج تک ہمیں دل سے نہ
صرف یہ کہ تسلیم ہی نہیں کیا ،بلکہ اس نے ہمیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع
بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ دوسری طرف اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر
ڈالے ۔ تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ انڈیا سے بہتر تعلقات اور
دوستی کے لیے بے تاب نظر آتاہیں۔ اس بات میں کسی شک کی گنجائش ہی کیا کہ
موجودہ دور میں کوئی ملک یا قوم جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتی۔ لیکن بدقسمتی سے
یہ بات ہندوستانی قیادت کو سمجھ نہیں آتی ۔ بلکہ وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں
کہ کب پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ملے اور وہ اس سے فائدہ
اٹھائے۔ اسی بنا پر میں یہ بات لکھنے پر مجبور ہوں کہ ایسے عیار اور مکار
ہمسائے کے لیے نیک خواہشات رکھنا خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے
مترادف ہے اور اب تک ہماری قیادت یہ کلہاڑی اپنے پیروں پر مارتی چلی آئی
ہے۔ لیکن مقام شکر ہے ۔کہ اب حالات کافی تبدیل ہوچکے ہیں اور ہندوستانی
عزائم کو ناکام بنانے کے لئے سیاسی و عسکری قیادت سمیت پوری قوم یکسو ہوچکی
ہے۔ قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ نواز حکومت آگے چل کر بھی یکطرفہ دوستی کے
بجائے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈیا سے تعلقات کے حوالے سے فیصلہ
کرے گی۔ جہاں تک تعلق ہے عسکری قیادت کی۔ تو انڈیا کے حوالے سے اس وقت ان
کا موقف اورپاک چین اقتصادی راہداری میں ان کی دلچسی اور ان کی راہ میں
دشمن کی جانب سے کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کا عزم نہ صرف قابل تعریف ہے
بلکہ لائق تحسین بھی ہے۔ دوسری اہم اور مثبت تبدیلی جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ
کراچی کے حوالے سے ہے۔ کسے امید تھی کہ قائد کا شہر،کروڑوں پاکستانیوں کی
ممتا کی گود کی ماننداورپاکستان کا معاشی شہ رگ ایک بارپھر روشنیوں کا شہر
بن سکے گا۔ کیونکہ مفاد پرستانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھنے والے اس شہر میں
بھتہ خوری ایک انڈسٹری کا روپ دھار چکی تھی،سرکاری اراضی اور رفاہی پلاٹوں
پر قبضہ جمانا بعض سیاسی جماعتیں اور ان کے ہمدرد اپنا صوابدیدی حق سمجھتے
تھے، زندہ انسانوں کو صدقے کے بکرے سمجھ کر اپنے اپنے قائدین کے درازی
عمرکی خاطر دھڑا دھڑ ان کا خون کرنااور اغوا برائے تاوان کو آنکھ مچولی
سمجھ کر اسے دہرانا روز کا معمول بن چکا تھا۔ ایسے حالات میں اہل کراچی
مکمل طور پر خود کو بے بس محسوس کررہے تھے۔ اہل کراچی یہ بھی سوچ رہے تھے
کہ شائد حالات اب کبھی بھی نہیں سدھریں گے۔ کیونکہ جن کا کام مسیحا بن کر
عوام کو سکھ اور چین پہنچاناتھا، وہی بھیڑیں بن کر عوام کا خون چوس رہے
تھے۔ لیکن پھرپاکستان رینجرز نے کراچی میں تمام تر سیاسی دباو کومسترد کرتے
ہوئے بھرپور ٹارگٹڈ اپریشن کا آغاز کیا’’ جو کہ تا حال جاری ہے‘‘ جس کے
نتیجے میں خوف کے سائے تلے زندگی گزارنے والے اہل شہر نے سکھ کا سانس لیا
اور امن و امان کی صورتحال بھی کافی حد تک بہتر ہوگئی جس کے بعد اب امید ہے
کہ نہ صرف ملک چھوڑنے والے سرمایہ کااب شہر قائد میں بلاخوف و خطر سرمایہ
کاری کریں گے بلکہ ممکن ہے کہ دیگرممالک کے کاروباری حضرات بھی کراچی کا رخ
کریں گے۔ ایک اور امید افزا بات بلوچستان کے حوالے سے ہے۔معدنی زخائر سے
مالا مال، رقبے کی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کچھ حکومتوں
کی ناروا سلوک اور کچھ اغیار کی سازشوں کی وجہ سے مکمل طور تباہی کے دہانے
پہنچ چکا تھا۔ جہاں پاکستان کا نا م لینا بھی مشکل ہورہا تھا۔ لیکن اب امید
ہوچلی ہے کہ انشاء اﷲ بتدریج بہتر ہونے والے حالات بہت جلد پائدار امن میں
تبدیل ہوجا ئیں گے۔یہاں ایک اہم بات سپرد قلم کرتا چلوں کہ بلوچستان کے دور
دراز علاقوں میں بسنے والے اہل وطن کے حالات زار کسی طور پر بہتر نہیں اور
وہ بیشتر بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو کاغذی
منصوبے بنانے کی بجائے عملی طور میدان میں اتر کر اقدامات کرنا ہوں گے اور
اس سلسلے میں کسی غفلت اور لاپرواہی کی اب قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
بلوچستان کے ساتھ ساتھ خیبرپختون خواہ پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو دہشت
گردی سے بری طرح متاثر ہونے والے اس صوبے میں اب حالات اطمینان بخش ہے۔
مذکورہ بالا کئی امید افزاء باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ وطن
عزیز کے خزانے کو ذاتی مال سمجھ کر عیاشیاں کرنے والوں کے خلاف بھی اب
گھیرا تنگ ہورہا ہے جو کہ یقیناً پاکستان جیسے ملک میں بڑی اہم پیش رفت ہے۔
اسی بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ اس یوم آزادی کو ہم ایک نئے امید کے ساتھ
منائیں گے۔ لیکن اس ساتھ ہمیں اس بات کابطورخاص خیال رکھنا ہوگا کہ آرمی
پبلک سکول پشاور کے پھول جیسے بچوں کی شہادتوں کے صلے ملنے والا موقع کہیں
ذاتی ،گروہی یا سیاسی مفاد ات کی نذر نہ ہوجائے۔ بلکہ ہمیں اس موقعے سے بھر
پور فائدہ اٹھا کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد کا پاکستان بنانا ہوگا۔
یعنی اسلامی فلاحی پاکستان اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان
بنے گا ۔ قائد کا پاکستان ۔انشاء اﷲ۔ |
|