یومِ آزادی۔عہد سے بد عہدی

کتنا پیارا لفظ ہے ’’ آزادی ‘‘ زبان پر آئے تو دل و دماغ اس کے اثر سے معطر ہو جاتے ہیں․یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا میں جن قوموں نے غلامی کا طوق گردن سے اتار کر آزادی حاصل کی ہے وہ بڑے شان و شو کت، جوش و جذبے اورطمطراق کے ساتھ اپنا یومِ آزادی مناتے ہیں ۔پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا، کروڑوں مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل ہو ئی ۔پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا دنیا کی تاریخ میں ایک یاد گار اور غیر معمولی واقعہ تھا۔دراصل یہ ایک ایسا کارنامہ تھا جو بظاہر ہر لحا ظ سے نا ممکن دکھائی دیتا تھا لیکن ایک قوم کے عزمِ راسخ اور یقینِ محکم نے ایک پر خلوص قیادت کے زیرِ اثر ایک خواب کو حقیقت میں بدل کر رکھ دیا ۔یہی وہ دن تھا جس نے پاکستانی تشخص کو اجاگر کرکے اقوامِ عالم نے پاکستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا۔

14اگست 1947 کو برِ صغیر کے مسلمانوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔پورے ہندوستان کے صوبوں کی مختلف تہذیب، تمدن، ثقافت، اپنی اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہو ئے ایک اسلام کی تہذیب، تمدن، ثقافت میں تبدیل ہو گئی․ مختلف قو میتون نے ایک ملتِ رسول ہاشمی کا روپ دھار لیا ایک زبان اردو اختیار کر لی؛ پاکستانی عوام کے دلوں میں پاکستان مثلِ مدینہ سما گیا۔ دلوں کے اندر ایک جذبہ تھا ۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایک ایسا خطہ عطا کر دیا تھا جو اﷲ تعالیٰ کے پیدہ کردہ ہر نعمت سے معمور تھا۔یہ سفر جاری رہا ،اس دوران کچھ قابل فخر کا میا بیاں بھی حاصل ہو ئیں، پاکستان ایٹمی ملک بنا۔اپنی کم عمری کے باوجود آٹھ جنگیں لڑنی پڑیں جس میں اﷲ کے فضلِ و کرم سے سرخرو ہوا۔

تقسیم کے وقت 1938 کشمیر کی جنگ، 1965میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1971میں میں ہندوستان کی مسلط کردہ جنگ، 1999میں کارگل جنگ، دنیا کی سپر پاور روس کی افغانستان میں جنگ۔ دنیا کی سب سے بڑی 50لاکھ مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ مو جودہ دہشت گردی کی جنگ،، اس کے با وجود پاکستانیون کا پاکستان نہ صرف زندہ بلکہ ایٹمی طا قت ہے۔نوجوان نسل کو میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نو زائیدہ پاکستان میں ہمارے گا وٗں میں جو اور جوار کی روٹی پکتی تھی، گندم کی روٹی کو نعمتِ عظمیٰ تصور کیا جاتا تھا، بجلی سرے سے موجود ہی نہیں تھی ،پورے گا وٗں میں کسی کے پاس سائیکل تک نہ تھی،خواتین سروں پر گھڑے رکھ کر دو کلو میٹر دور سے پانی لا یا کرتے تھے ۔مگر آج اﷲ کے فضل و کرم سے ماضی کے مقابلہ میں زندگی کا معیار بہت بہتر ہے۔

مگر اس کا ایک پہلو بڑا ہی افسوسناک اور باعثِ تشویش ہے اور وہ یہ کہ 68سال گزرنے کے با وجود ہم اس مقام تک نہ پہنچ سکے، جہاں ہمیں پہنچنا چا ہیئے تھا،اس دوران ہم سے بہت ساری غلطیاں بھی سر زد ہو ئیں۔جس میں مشرقی پاکستان کا کھو جانا ناقابلِ فراموش واقعہ اور ناقابلِ تلافی نقصان شا مل ہے۔علاوہ ازیں بحیثیت ایک قلم کار اس وقت میں جو کچھ محسوس کر رہا ہوں اگر اسے سپردِ قلم کروں تو کالم ہذا کی طوالت طولِ شبِ ہجراں سے بھی بڑھ جا ئے گی۔اسی لئے اپنے ما فی ضمیر کو واضح کرنے کے لئے مفکرِ پاکستان علامہ اقبال کا یہ شعر پیش کروں گا جس میں شاعرِ مشرق نے نے فرمایا تھا۔‘‘

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب․․․․اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی ‘‘ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ہم اپنے مقاصد کو بھول کر باہم سر پھٹول میں مشغول ہیں۔ اس کا گریبان اس کے ہاتھ میں ، اور اس کا دامن اس کے چنگل میں، پارٹی بازی، لسانی منافرت، فرقہ ورانہ لڑائیاں، دہشت گردی، سیاست دانوں کی خر مستیاں۔ اوپر سے نیچے تک کرپشن۔ عدالتوں کی بے وقعتی، انصاف کا خون، ، تعمیر کی جگہ تخریبی ذہن کی پرورش، مثبت کی جگہ منفی سوچ کا فروغ، امن و امان اور تحفظ کی بجائے خوف و دہشت اور خون ریزی و سفاکی کے جراثیم کی پرورش، الغرض کسی قوم کی تباہی کا کون سا سامان ہے جو ہم نے نہیں کیا ہو ؟ ہم نے کر پشن میں ساری قوموں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ ہمارے ہاں دھاندلی نے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ ہمارے حکام اور وزراء کی عیش سامانیاں دیکھ کر امریکا اور چین جیسے متمول ملک کے حکمران انگشت بدانداں رہ جاتے ہیں۔ہم ہر سال 14اگست کو یہ عہد کرتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو ترقی و خو شحالی سے ہمکنار کریں گے، یہ کریں گے ،وہ کریں گے مگر اگلے دن ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔جتنی عہد سے بد عہدی ہمارے حکمران کرتے چلے آرہے ہیں، شاید ایسی مثال دنیا میں کہیں اور موجود ہو۔لیکن اس کے باوجود ہمیں ہر گز مایوس ہو نے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان عطیہ خداوندی ہے اور ذاتِ اقدس اس کی حفاظت بھی کرے گا۔ پاکستانی قوم کو چا ہیئے کہ یومِ آزادی کا جشن مناتے ہو ئے اﷲ تعالیٰ سے دل کے گہرائیوں سے یہ دعا ما نگیں کہ جس طرح اس نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دنیا کے ایک بہترین ملک سے نوازا ہے
اسی طرح ہمیں بہترین قیادت بھی عطا کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284391 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More