آزادی تو ابھی باقی ہے !!

'دوقومی نظرئیے کو عام مسلمانوں اور ہندؤوں میں اس طرح متعارف کرایا گیا کہ متحدہ ہندوستان میں دوقومیں آباد ہیں ، ایک ہندو اور دوسری مسلمان، دونوں کی تہذیب ، ثقافت،رہن سہن اور طرز معاشرت ایک دوسرے سے جداگانہ اور الگ ہیں۔اس لئے مسلمان اپنی مقابلے میں ہندوؤں کی عددی اکثریت کے ماتحت زندگی نہیں گذار سکتے۔جہاں ان کے معاشی ، اقتصادی ، تہذیبی ، ثقافتی اورخصوصاً مذہبی حقوق و مفادات کو خطرہ لاحق ہونگے ، لہذا ان وجوہات کی بنا ء پر دو قومی نظریہ پروان چڑھا اور اسی نظرئیے کے تحت دس کروڑ مسلمانوں کیلئے پاکستان کا قیام امن میں لایا گیا۔لیکن اس کے بعد اس نظرئیے کا کیا حشر کیا گیا کہ دو قومی نظرئیے کے تحت بننے والے ملک میں مہاجرین کی آمد پر پابندی عائد کردی گئی اور 1951ء میں پاکستان کی سرحدوں کو بھارت سے لٹے پھٹے اور قربانی دینے والوں مہاجرین کیلئے آمد کے راستے بند کردئیے۔ کوئی بھی یہ کسی طور ثابت نہیں کرسکتا کہ پاکستان صرف پنجاب ، سرحد ، بلوچستان ، بنگال اور سندھ کی عوام کیلئے بنایا جارہا تھا ، کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں صرف ایک ہی نعرہ تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ، لا الہ الا اﷲ ، ۔تحریک پاکستان میں سرکردہ اور قربانی دینے والے علاقے پاکستان کے مسلم اکثریتی صوبے کے بجائے اقلیتی صوبے تھے ، تمام تر فسادات ، تکالیف اور جان و مال کی قربانی ہندوؤں اور سکھوں کی جانب سے اُن مسلمانوں کیلئے تھی جنھوں نے دو قومی نظرئیے کیلئے آواز بلند کی اور جب پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تو پھر ان ہی لوگوں کو اُن خونی ہندوبھیڑوں کے آگے جھونک دیا ، جن کی وجہ سے قائد اعظم محمد علی جناح نے جد وجہد کی اور ان کی ایک آواز پر لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کیلئے قربانیاں دیں اور پھر ہندو ؍سکھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اپنی عزت و آبرو کی قیامت برداشت کرتے ہوئے اُس پاکستان کی جانب روانہ ہوئے جو دو قومی نظرئیے کے تحت بنایا گیا تھا ، لیکن ان پر 1951ء میں پاکستان کے دروازے بند کردئیے گئے اور بھارتی مسلمانوں کو آج تک کہا جاتا ہے کہ تم لوگوں نے تو اپنے لئے ملک حاصل کرلیا تھا تو اب ہندوستان میں کیا کر رہے ہو ؟ اور پاکستان کے نام نہاد قوم پرست کہتے ہیں کہ واپس بھارت چلے جاؤ ، ہمیں تمھارا وجود برداشت نہیں۔،دراصل دوقومی نظریہ اسی روز دفن ہوگیا تھا جب 1951میں ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے آزاد پاکستان کے دروازے تعصب و لسانیت اور صوبائیت کے بنیاد پر بند کردئیے گئے تھے۔اگر برصغیر کے مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہی تھا تو پھر دو قومی نظریہ کا نعرہ ان صوبوں کیلئے تو نہیں ہوسکتا جہاں پہلے ہی مسلمانوں کی اکثریت تھی ، یہ یقینی ہے کہ دو قومی نظریہ ان مسلمانوں کیلئے تھا جو ہندؤوں کے ظلم و ستم کا شکار بنتے اور انھیں مذہبی و معاشرتی آزادی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ، جیسے آج کے انڈین مسلمان ، تیسرے درجے کے شہری بن چکے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔تحریک پاکستان کیلئے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں ، لیکن ان کے ساتھ اقلیت مغربی پاکستان کا سلوک افسوس ناک تھا دو قومی نظرئیے کو پاکستان دشمن عناصر سے زیادہ پاکستان کے نام نہاد ٹھیکداروں نے ہی نقصان پہنچایا۔اسلام کا دو قومی نظریہ یہی ہے کہ ان کا اﷲ ایک ، رسول ایک ، قرآن ایک اور یوم آخرت پر سزا و جزا ایک ،نماز ایک، روزہ ایک ، زکوۃ ایک، حج ایک ، شرم و حیا اور روایات کے مطابق لباس کی مخصوس شرع ایک ، قرآن کریم کے ابدی اور لا زوال قوانین ایک ، اﷲ کو ایک جان کر اس کیلئے سجدہ ریزی ایک ، تو پھر بالحاظ قوم امت مسلمہ ، اپنے دائمی اصولوں کے تحت ایک تھی اس لئے اکابرین پاکستان نے ہندوؤں کے تمدن اور رہن سہن عبادات رسوم وراج کے تعین کرکے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمان اپنی کمزور تعلیم اور معاشرے میں عددی قوت کی کمزوری کی وجہ سے ہندوستان میں پِس سکتے ہیں اس لئے ان کیلئے دو قومی نظرئیے کے تحت جداگانہ مسلم مملکت کا مطالبہ کردیا اور بڑی خوں ریزی اور جدوجہد کے بعد ایک ایسا ٹکڑا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں دو قومی نظرئیے کے تحت پاکستان کو ساری دنیا کیلئے مثالی بنا سکیں۔دو قومی نظرئیے کے تحت بننے والے ملک میں پھر لسانیت کیوں ، صوبائیت کیوں ، قوم پرستی کیوں ہے ؟ بھارت کے مسلمان بے یارو مددگار کیوں ہیں ، پاکستان میں قربانی دینے والوں کو واپس بھارت یا سمندر میں پھنکنے کی دہمکیاں کیوں دیں جاتیں ہیں ، ان کو بھی پاکستانی تسلیم کرنے کے بجائے ، دوسرے درجے کا شہری اور انھیں شک و شبے سے کیوں دیکھا جاتا ہے۔دو قومی نظرئیے کے تحت بننے والے ملک میں انڈیا سے ستائے جانے والے اور بنگلہ دیش میں سقوط ڈھاکہ کے بعد محصورین پاکستانیوں کو واپس کیوں نہیں لایا گیا۔ پاکستان کیلئے لڑنے والے کل ہیرو تھے تو یہ کون سا دو قومی نظریہ ہے کہ آج اساس پاکستان کے سب سے بڑے حامی اور قربانی دینے والے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش میں ڈھل کر دو قومی نظرئیے کے بجائے قوم پرستی کے ترانے گاتے ہیں ۔ہمیں یہ سب ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کیا سب دو قومی نظرئیے کے تحت سیاست کرتے ہیں یا پھر لسانیت ، صوبائیت یا قوم پرستی کو ترجیح دیتے ہیں ،خیبر پختونخوا سے کوئی وزیر اعظم کیوں نہیں بن سکتا ، سندھ میں اردو بولنے ولا وزیر اعلی بننے کیلئے کس طرح خود کو دو قومی نظرئیے کے کسوٹی پر پورا اتارے ؟۔یہاں دو قومی نظریہ کہاں گیا ؟۔دو قومی نظریہ ایک خوش نما خواب ضرور ہے مجھے موجودہ پاکستان میں لسانیت ، صوبائیت ، فرقہ واریت اور قوم پرستی تو نظر آتی ہے ، دو قومی نظریہ کہیں نظر نہیں آتا ۔جشن آزادی تو منا رہے ہیں لیکن حقیقی آزادی کا وہ خواب جو قائد اعظم نے دیکھا تو وہ کب حاصل ہوگی ۔ اس کی منزل ابھی کافی دور ہے۔ جب تک ارض پاک سرزمین پر عصبیت ، لسانیت ، صوبائیت، فرقہ واریت ، نسل پرستی اور فروعی مفادات موجود رہیں گے ، پاکستان کو حقیقی آزادی میسر نہیں آسکتی۔پہلے ہم اپنی منزل کا تعین کرلیں پھر آزادی کا جشن بھی منالیں گے۔کیونکہ ابھی آزادی ہوئی کہاں ہے ؟۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.