پاکستان کی بنیاد اسلام او ر بقا بھی اسلام !

(یوم آزادی پر ایک خصوصی تحریر)

بر صغیر کے مسلمانوں نے اﷲ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ۔اﷲ سے یہ وعدہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اس کو پورا ہم نے کرنا تھا ۔اس وعدے کا احساس تک ہم کو نہیں ہے ہمارے قائد کو اس کا شدید احساس تھا انہوں نے فرمایا تھا ،ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں ۔

اﷲ تعالی نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا،یہاں ، وسیع میدان ،پہاڑ،سمندر،صحرا ،جنگل ہیں ۔چاروں موسم ہیں، پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں یہ ایک ایٹمی ملک ہے ، اس میں نمک کی دوسری بڑی کان،دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ،تانبے کی ساتویں ، دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم، اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس ،چاول ،آم ،مٹر خوبانی گنا میں خود کفیل اور دنیا میں دوسرے ،تیسرے ،چوتھے نمبر پر ۔ پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55ویں نمبر پر ہے ۔
پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے زرعی ،صنعتی ،معدنی اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ ساری نعمتیں اﷲ نے پاکستان کو دی ہیں ان سے خاطر خواہ فائدہ ہم نے نہیں اٹھایا ۔پاکستان میں کمی ہے تو ایک مخلص رہنما کی ۔ایک حقیقی حکومت کی جو اصلاحی ،جمہوری اور اسلامی ہو۔سب سے بڑی وجہ ناقص حکمت عملی ہے جو حکومت کے ساتھ بدل جاتی ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ترقی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے۔ اسے رکنا نہیں چاہیے ۔

حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر ترقی کا سفر نہ رکے ،اس کے لیے ایک پالیسی کا ہونا چاہیے جو بھی حکومت میں آئے وہ اس پر عمل کی پابند ہو ۔ایسا کوئی قانون ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل ہو۔قومی دن منانے کی روایت زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے ۔ اورزندہ قومیں بے حس نہیں ہوتیں ۔قومی دن اتحاد کی علامت ہوتا ہے ،اور ہمارے ملک میں یہ عنقا ہے ، ہمارابے اتفاقی پر اتفاق ہے، یہ شکر کا دن ہوتا ہے اﷲ نے جو نعمتیں اس ملک کو عطا کیں ان کا استعمال قوم و ملک کے مفاد میں ہو ۔ یہ تجدید عہد کا دن ہوتا ہے ،اپنے مقصد کی تجدید کا دن ،اور جو قوم اپنا مقصد ہی بھول گئی ہو۔

68 سال میں سمت ہی طے نہ ہو ئی ہو ۔ہر حکومت کی الگ سمت ہو دوسری آئے دوسری سمت میں کام کرنا شروع کر دے ۔ملک مسائل کی آگ میں پھنسا ہوا ہے غیر ملکی قرض کے انبار ہیں ۔کمر توڑ مہنگائی نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے ،ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیں ہے آٹا ،چینی،گھی ،دال،سبزی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ لاقانونیت سے ہمارے اخبار بھرے پڑے ہیں ، ملک میں انصاف نہیں بے انصافی بکتی ہے ، سودورشوت و سفارش عام ہے،یہاں چوری، ڈاکہ اور قتل و غارت کلچر بن چکا ہے ،بدمعاشوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔

معاشرے میں جو بگاڑ ہے؟معاشرے میں بگاڑ کیوں ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں ؟اور اس کا حل کیا ہے؟ انہیں حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟کوئی علم نہیں ہے سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں ۔ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اس لیے افراد کو پہلے سدھرنا ہو گا ،دوسرا نقطہ نظر ہے کہ اجتماعی نظام ہی بگڑ چکا ہے اسے ٹھیک ہونا چاہیے ۔اس کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو صرف قوم و ملک کے لیے فیصلے کرے ۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے لیے جو کہ رہے ہیں کہ اصلاح کا عمل تدریجی ہونا چاہیے کہ ہم نے غیر مسلموں کی اصلاح نہیں کرنی بلکہ مسلمانوں کی کرنی ہے اسلامی قانون نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان اسلام سے دور ہوئے ہیں۔جو اسلام کے دائرے میں ہے یعنی مسلمان ہے وہ تب تک اسلامی قانون نہیں توڑے گا اگر اس کو سزا کا خوف ہو گا۔کیونکہ برائی میں کشش ہے اس لیے برائی کی طرف انسان کا متوجہ ہو جانا شائد فطری ہے۔ اور اگر اس پر آزادی ہو تو یہی انجام ہونا تھا جو ہوا ہے ،اسے آزادی کا نام نہیں دینا چاہیے ،نہ ہی یہ روشن خیالی ہے بلکہ یہ بغاوت ہے اسلامی قانون و شریعت سے۔

آپ کو اپنا بازو گمانے کی آزادی ہے صرف اتنی کہ دوسرے کے منہ پر نہ لگے ۔پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے اور اس کی بقا بھی اسلام ہے ، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ۔ایک مملکت قائم کرنا ہمارا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ حصول مقصد کا ایک ذریعہ تھا کہ ہم ایسی مملکت کے مالک ہوں جہاں ہم اپنی روایات اور تمدنی خصوصیات کے مطابق ترقی کر سکیں ،جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے اصولوں کو آزادی سے بر سر عمل آنے کا موقع حاصل ہو ۔

دین سے دوری نے نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جانے لگی ہے ۔چین پاکستان سے ایک سال بعد آزاد ہوا اسے مخلص لیڈر مل گئے پاکستان کی بد قسمتی کہ اسے نہ ملے ۔ساری نعمتیں اﷲ نے پاکستان کو دیں مگر ہم عوام ایک مخلص لیڈر کی تلاش نہ کر سکے ۔جو وطن کے لیے ،قوم کے لیے کام کرے ۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر لیڈروں کی دولت و جائیداد بیرون ملک ہے ۔ہمارے ملک کے یہ حالات کب تک ہم پر سایہ فگن رہیں گے اس بارے کچھ کہنا مشکل ہے بس دعا ہے ،امید ہے ،او ر امید پر دنیا قائم ہے ۔

Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578490 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More