چوہدری رحمت علی۔۔۔۔۔۔میں پاکستان ہوں
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
چودہ اگست کا دن ہے اور ساری قوم
جشن آزادی منا رہی ہے ۔سب خوش ہیں کہیں پہ ڈانس تو کہیں پہ بھنگڑا ہے۔ اور
بڑی بڑی تقریبات میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا جا رہا ہے ایسے میں
میرے دل میں یوں ہی خیال سا آیا کہ انیس سو پندرہ میں اس ملک کا نظریہ پیش
کرنے والے کی نشانی تک پاکستان میں نہیں جیسے قائد کا مزار کراچی ، مقبرہ
علامہ اقبال لاہور اور دیگر رہنما جو پاکستان کی سر زمین میں مدفون ہیں ۔اور
جو اس نظریہ کا خالق ہے اس کی آخری آرام گاہ کہاں ہے؟۔اسی تگ دو میں جو
معلومات مجھے میئسر آئیں ان کے مطابق ۔مشرقی پنجاب کے ایک معمولی زمیندار
حاجی شاہ محمد کے ہاں سولہ نومبر ۱ٹھارہ سو ستانوے میں ایک بچے کا جنم ہوا
جس کا نام رحمت علی رکھا گیا۔جی ہاں یہ وہی چوہدری رحمت علی ہیں جنہوں نے
پہلی بار اٹھارہ سال کی عمر میں جب وہ اسلامیہ کالج لاہور میں تھے بزم شبلی
کانفرنس منعقدہ انیس سو پندرہ میں تقسیم ہندوستان کا نظریہ پیش کیا ۔اس کے
اس نظریے کی بڑی مخالفت کی گئی جس کے بعد انہوں نے اس بزم کو جسے انہوں نے
خود بنایا تھا خیرباد کہہ دیا۔۔اس اجلاس میں انہوں نے نظریہ پیش کرتے ہوئے
کہا تھا کہ۔۔"ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے ، ہم اسے اسلامی
ریاست میں تبدیل کریں گے ، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے
باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔ اسلام اور خود ہمارے لئے
بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستانیت سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں"
اپنی گریجویشن ۱۹۱۸ میں اسلامیہ کالج لاہور سے مکمل کرنے کے بعد لا کالج
لاہور میں داخل ہوئے اور انیس سو پچیس میں قانون کی ڈگری حاصل کر لی۔اور
پھر لاہور ہی میں ملازمت بطور لکچرر ایچی سن کالج اور مختلف اخباروں میں
کرتے رہے۔۔۱۹۳۳ میں انہوں نے لندن مین پاکستان نیشنل مومنٹ کی بنیاد رکھی
اور اسی مومنٹ میں ایک پمپھلٹ نو آر نیور ( اب یا پھر کبھی نہیں ) جو چار
صفحات کا تھا جاری کیا جو پاکستان کی بنیاد بن گیا۔اور پہلی بار برصغیر اور
دیگر اقوام لفظ پاکستان سے آشنا ہوئے۔چوہدری رحمت علی نے جب یہ نام تخلیق
کیا تھا تو اس کے ذہن میں پاکستان کا جو خاکہ تھا مذکورہ بالا جملہ جو انیس
سو پندرہ میں اس نے اسلامیہ کالج کے اجلاس میں فرمایا تھا یعنی ہندوستان کا
شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے۔سے بخوبی واضح ہے اس کا تخلیق کردہ لفظ
پاکستان پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے
اخذ کیا۔اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چوہدری صاحب نے
ایک ہفت روز پاکستان کے نام سے کیمبرج سے شائع کرنا شروع کر دیا اور مختلف
یورپی ممالک فرانس جاپان امریکہ کا سفر بھی کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے
انگریزوں کے خلاف مدد کا وعدہ بھی لیا۔ایک طرف چوہدری رحمت علی اپنے منصوبے
کو عملی شکل دینے میں لگے ہوئے تھے تو دوسری طرف لندن میں ایک وفاقی آئین
کے لئے اجلاس منعقد ہو رہے تھے اسی دوران ، یکم اگست 1933 کو جوائینٹ
پارلیمینٹری سلیکٹ کمیٹی کے اجلاس میں ہندوستان سے آئے ہوئے وفد کے مسلم
اراکین سے جب یہ پوچھا گیا کہ برصغیر میں تو ایک ملت اسلامیہ کی بھی بات ہو
رہی ہے۔اس وفد کے مسلم اراکین کا جو جواب تھا وہ بھی تاریخ نے اپنے اندر
محفوظ کیا۔ان کا جواب تھا۔ کہ یہ صرف چند طلباء کی سرگرمیاں ہیں ، کسی
سنجیدہ شخصیت کا مطالبہ نہیں جس پر توجہ دی جائے۔چوہدری رحمت علی نے انیس
سو اڑتیس میں بنگال ، آسام اور حیدرآباد دکن کی آزادی کے حق میں بھی آواز
بلند کی اور "سب کانٹیننٹ آف براعظم دینیہ " کا تصور پیش کیا۔ جن میں
پاکستان ، صیفستان ، موبلستان ، بانگلستان ، حیدرستان ، فاروقستان ،
عثمانستان وغیرہ شامل تھے۔ جن میں جغرافیائی محل وقوع کا تعین کیا گیا تھا
اور با قاعدہ نقشے دئیے گئے تھے ۔ اور 8 مارچ 1940 کو کراچی میں پاکستان
نیشنل موومنٹ کی سپریم کونسل سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے حیدر آباد دکن کے لئے
"عثمانستان" کے نام سے آزاد اسلامی ریاست کا خاکہ پھر پیش کیا۔مشہور ترک
ادیبہ خالدہ خانم کی مشہور کتاب Inside India کا ایک باب چوہدری رحمت علی
کے انٹرویو پر مشتمل ہے جو 1937 میں پیرس میں شائع ہوئی۔ وہ اپنی کتاب میں
لکھتی ہیں کہ آپ لاہور میں انیس سو چالیس کےمسلم لیگ کے تاریخ ساز جلسے میں
خاکسار تحریک اور پولیس میں تصادم کے باعث شرکت نہ کر سکے ۔ اس کشیدہ
صورتحال میں پنجاب حکومت نے آپ پر پنجاب میں داخلے کی پابندی عائد کر دی۔
جبکہ بعض حلقوں کے مطابق اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی وجہ "مسلم لیگ" کے
ساتھ "آل انڈیا" کے لفظ کا استعمال تھا۔ کیونکہ آپ اس کے سخت مخالف تھے اور
اس خطے کا ذکر برصغیر یا دینیہ کہہ کرکرتے تھے۔ آپ مسلمانوں کو برصغیر کے
اصل وارث سمجھتے تھے کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ہی حکومت چھینی تھی
اور تمام برصغیر کو ایک ریاست میں متحد کرنے والے بھی مسلم ہی تھے۔ اس جلسے
میں اگرچہ آپ کا تجویز کردہ نام "پاکستان" شامل نہیں تھا مگر برصغیر کے
ہندو پریس نے طنزاً اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا اور بالاخر یہ طنز
سچ کا روپ دھار گیا۔
قیام پاکستان کے بعد چوہدری رحمت علی ملک میں واپس آئے لیکن حالات اس کے
لئے موافق نہیں تھے اور آپ کو ملک بدر کر دیا گیا۔۔ لندن میں نہایت ہی
کسمپرسی کی زندگی گزاری ۔اور ایک کریہ دار کی حثیت سے 114 ہیری ہٹن روڈ میں
رہتے تھے ۔ایمنوئیل کالج ، کیمبرج شہر کے قبرستان اور کیمبرج کے پیدائش و
اموات کے ریکارڈ کے مطابق چوہدری رحمت علی تین فروری انیس اکیاون کو اس
دنیا سے کوچ کر گئے۔موت کے بعد سترہ روز تک لفظ پاکستان اور نظریہ اسلامی
مملکت پیش کرنے والے کی میت کولڈ سٹوریج لندن میں اپنے ہم وطنوں، اور ہم
مذہبوں کا انتظار کرتی رہی لیکن کسی نے اس مرد مجاہد کی خبر تک نہ لی اور
آخر میں مصری مسلمان طلبا نےا س غریب وطن کو کیمبرج کے قبرستان (کیمبرج
سمیٹری ، مارکٹ روڈ – کیمبرج - برطانیہ) کی قبر نمبر بی - 8330 میں امانتاً
دفن کر دیا۔اور آج ستر سالوں کے بعد چوہدری رحمت علی جس نے مسلمانان
برصغیر کے لئے نہ صرف خواب دیکھے بلکہ ان کی تعبیر کے لئے اپنا تن من دھن
سب کچھ لٹا دیا۔ کیایہ آخری نشانی دیار غیر میں چند گمنام مقبروں کے
درمیان برقرار رہ سکے گی یا کوئی ایسا پاکستانی حکمران ہوگا جو اس امانتا
دفن کی ہوئی میت کو پاکستان لا کر تحریک پاکستان کے دیگر رہنمائوں کے بیج
جگہ دے اور پاکستان کے اس محسن کو اس کا صحیح مقام ملے؟؟؟؟؟؟؟
دو گز زمین کا ٹکڑا بھی کیا ہم اس کو نہیں دے سکتے
پاکستان کے نام کا خالق پاکستان سے دور پڑا ہے |
|