کسی دانشور کا قول ہے: ”لوگ پیدا ہوتے ہیں، جیتے ہیں اور
پھر مر جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے کوئی کارنامہ سرانجام نہ دیا ہو، وہ بھلا دیے
جاتے ہیں، لیکن وہ لوگ جو دوسروں کے لیے جیتے ہوئے اپنے اھداف کو حاصل کرنے
میں کامیاب ہو جائیں، وہ ہمیشہ لوگوں کے خیالات اور عمل میں زندہ رہتے
ہیں۔“ دنیا میں ایسی شخصیات کم ہی پیدا ہوتی رہتی ہیں جو ہمیشہ لوگوں کے
خیالات و عمل میں زندہ رہتی ہیں۔ جنرل (ر) حمید گل ایک ایسے ہی محب اسلام
اور محب وطن انسان کا نام ہے، جو ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔
گزشتہ دنوںسابق سربراہ آئی ایس آئی اور معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل(
ر)حمید گل برین ہیمرج کے باعث مری میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ
راجعون۔ جنرل (ر) حمید گل کی رحلت کو پاکستان اور عالم اسلام کے لیے عظیم
سانحہ قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ جنرل (ر) حمید گل نہ صرف پاکستان، بلکہ
دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے معاون اور امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے۔
وہ ہمیشہ امت مسلمہ کی اتحاد کی بات کرتے اور اس کے لیے کوشاں بھی رہے۔
اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جنرل
(ر) حمید گل ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ وہ مکمل سپاہی تھے۔ وہ مرد میدان تھے۔
مردانگی کے سارے سلیقے انہیں آتے تھے۔ وہ ڈٹ جانے والے آدمی تھے۔ وہ خود کو
ہمیشہ میدان کارزار میں سمجھتے تھے۔ وہ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی خود
کو ڈیوٹی پر سمجھتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ مجھے ریٹائرڈ نہ کہا کرو،
میں آج بھی ڈیوٹی پر ہوں اور مرتے دم تک ڈیوٹی پر رہوں گا۔ جنرل (ر) حمید
گل پاکستان اور افغانستان کے لیے کبھی بھی کمزوری اور مایوسی کی کوئی بات
نہ کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ اچھے دن آنے والے ہیں اور عنقریب باطل کو شکست
ہوگی۔ ان سے جب بھی بات ہوئی، وہ یہی کہتے تھے کہ انشاءاللہ عنقریب امریکا
سمیت تمام ظالموں کو شکست ہوگی اور پوری دنیا پر اسلام کا نظام نافذ ہوگا۔
وہ ہمیشہ کی طرح اسلام، پاکستان اور طالبان کی بات کرتے تھے، اسی وجہ سے ان
کے مخالفین کہاکرتے تھے کہ حمید گل ظاہراً کلین شیو ہے لیکن اس کے پیٹ میں
ایک لمبی داڑھی موجود ہے۔ وہ ان دانشوروں میں سے تھے جن کا ایمان ہے کہ
پاکستان اسلام کے نام پر اسلامی نظام کے قیام کے لیے معرض وجود میں آیا ہے
اور یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشاد کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ
رگ ہے اور اسے ہر قیمت پر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے۔ جنرل حمید گل آخری
سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ وہ صرف عسکری لیڈر نہ تھے، بلکہ ایک قومی لیڈر
تھے۔ جنرل (ر) حمید گل ان عسکری رہنماﺅں میں صف اوّل میں شامل تھے، جنہوں
نے عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی کسی سیاسی جماعت میں شمولیت
اختیار کی، لیکن بہت سے سیاسی قائدین ان سے صرف مشاورت ہی نہیں کرتے تھے،
بلکہ ان کے کہے پر عمل بھی کرتے تھے۔ جنرل حمید گل فوج سے قبل از ریٹائر
منٹ کے بعد سے آخر وقت تک پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کی فکری رہنمائی کے
فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ نظریہ پاکستان کے محافظ تھے اور ساری زندگی اسلام
اور پاکستان کے دشمنوں کی راہ میں رکاٹ بنے رہے۔ کشمیر، فلسطین، چیچنیا،
بوسنیا، برما سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں مسلمانوں پر مظالم ہوئے، جنرل
(ر) حمید گل بے چین ہوجاتے اور بھرپور طریقے سے ہر ظلم کے خلاف آواز بلند
کرتے۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) حمید گل نے79 سال کی عمر میں انتقال
کیا۔ وہ ایک دانشور اور اسلامی سوچ اور فکر رکھنے والے شخص تھے، جنرل حمید
گل امریکا اور بھارت پر کھل کر تنقید کیا کرتے تھے اور کشمیر کے بارے میں
بھی واضح موقف رکھتے تھے کہ اسے پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ بحیثیت ایک
پیشہ ور سپاہی انہوں نے ایک بھرپور متحرک اور فعال زندگی گزاری۔ وہ
بلامبالغہ اپنی خدمات کے سبب افواج پاکستان کی تاریخ کا ایک روشن اور
درخشاں باب ہیں۔ مرحوم جنرل (ر) حمید گل 20 نومبر 1936 کو سرگودھا میں پیدا
ہوئے۔ نسبی لحاظ سے سوات کے یوسف زئی پشتون تھے، جن کا خاندان لگ بھگ سو
برس پہلے سرگودھا میں آباد ہوا۔ شاید اسی لیے پشتو سے زیادہ پنجابی پر
دسترس تھی۔ اکتوبر 1956میں فوج میں کمیشن ملا۔ بھارت سے 1965کی جنگ میں
چونڈہ کے محاذ پر ٹینک کمانڈر تھے۔ انہوں نے 1971کی جنگ میں بھی حصہ لیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1965 ءکی جنگ میں چونڈا کے محاذ کو جب بھارتی ٹینکوں
کا قبرستان بنایا گیا تو حمید گل ؒ ٹینک کمانڈر تھے۔ 1972 سے 1976 تک
بٹالین کمانڈر بھی رہے۔ 1978میں بریگیڈئر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 1980میں
فرسٹ آرمر ڈویژن ملتان کور کے کمانڈر کے عہدے پر ترقی پائی۔ جنرل ضیاءالحق
کے دور میں ڈی جی ملٹری آپریشن کے طور پر جی ایچ کیو بھیجا گیا۔ ضیاءالحق
نے اختر عبدالرحمن کے بعد حمید گل کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا۔ دوران
ملازمت مختلف محاذوں اور شعبوں میں ان کی شاندار کارکردگی کے پیش نظر جنرل
ضیاءالحق نے مارچ 1987ءمیں جنرل اختر عبدالرحمن کی جگہ انہیں آئی ایس آئی
کا سربراہ بنایا۔ وہ 2 برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔ یہ کریڈٹ ان سے کوئی
نہیں چھین سکتا کہ ان کی سربراہی کے دور میں آئی ایس آئی دنیا کی سب سے بڑی
انٹیلی جنس ایجنسی بنی اور سی آئی اے، کے جی بی، خاد، را، موساد اور ایم
آئی سکس ایسی دیرینہ خفیہ کاری کی ایجنسیوں کو بھی آئی ایس آئی کی عظمت کے
سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔یہ جنرل (ر) حمید گل کا ہی کارنامہ ہے۔ وہ1987
سے 1989 تک ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔ انہیں مئی 1989 میں سابق وزیر اعظم بے
نظیر بھٹو نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر کور کمانڈر ملتان مقرر
کر دیا۔ بطور کور کمانڈر ملتان انہوں نے ”ضرب مومن“ کے نام سے نومبر دسمبر
1989میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں کرائیں۔ اس وقت کے آرمی چیف
جنرل آصف نواز سے اختلافات کی وجہ سے1992میں فوج سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ جنرل
(ر) حمید گل کو ستارہ امتیاز، ستارہ بسالت اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا
تھا۔ جنرل(ر) حمید گل مرحوم کے جنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ اچھے تعلقات
رہے، تاہم مشرف کی امریکا نواز پالیسیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ اختلافات
پیدا ہو گئے اور وہ مشرف سے ناراض ہو گئے۔ جنرل (ر) حمید گل کے اپنے سابقہ
ادارے کے ساتھ تعلقات اس وقت خراب ہوئے، جب 2001ءمیں نائن الیون کے بعد اس
وقت کے فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے
لیے امریکا کا ساتھ دیا۔ جنرل(ر) حمید گل اپنی آخری سانسوں تک پاکستان اور
افغانستان کے لیے امریکی پالیسیوں کے ایک بے باک ناقد رہے۔ ان کو یقین تھا
کہ افغانستان اور پاکستان میں اسلام پسند حکومتیں ہی علاقائی سطح پر
پائیدارامن کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام کے تحفظ کے لیے
بھی ان کی خدمات آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ انہوں نے جسٹس افتخار چودھری کی
بحالی کے لیے تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی ذاتی زندگی کسی بھی
قسم کے اسکینڈل سے پاک تھی۔ وہ ایک محب وطن انسان تھے۔ اپنی تمام زندگی وہ
پاکستان اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے کام کرتے رہے۔
جنرل (ر) حمید گل فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد دفاعی تجزیہ کار کی حیثیت سے
مقبول ہوئے۔ دفاعی امور پر وہ خاصی دسترس رکھتے تھے۔ افغان روس جنگ میں
انہوں نے کافی شہرت پائی۔ اسی کی دہائی میں روس ایک سپر پاور ملک تھا، اس
نے اپنی طاقت کے خمار میںافغانستان پر حملہ کردیا، اس دور میں مشہور تھا کہ
روس جہاں کا رخ کرتا ہے تو پھر واپس نہیں جاتا، بلکہ آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے بعد روس کا ہدف پاکستان تھا، لیکن جنرل (ر)
حمید گل نے نہایت مہارت کے ساتھ روس کو نہ صرف پاکستان کی طرف بڑھنے سے
روکا، بلکہ اسے افغانستان میں شکست سے اتنی بری طرح دو چار کیا کہ روس ٹکڑے
ٹکڑے ہوگیا۔ جنرل (ر) حمید گل افغان طالبان کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کا اظہار
کرتے، بلکہ کھل کر ان کی حمایت بھی کیا کرتے تھے اور آخر عمر تک دوبارہ
طالبان کی فتح اور کامیابی کی امید دلاتے رہے۔ چند روز قبل بھی روزنامہ
اسلام کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا یہی کہنا تھا کہ طالبان کامیابی
حاصل کریں گے، ملا عمر کے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور امریکا کو
عنقریب شکست ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ جنرل (ر) حمید گل کی وفات پر افغان طالبان
کے امیر ملا اختر منصور نے جنرل حمید گل کے خاندان کو تعزیتی پیغام
بھجوایا، جس میں افغان طالبان کے سربراہ نے کہا ہے کہ ملا عمر کی موت سے
ہمارا ایک بازو ٹوٹ گیا تھا، مگر جنرل حمید گل کی وفات سے ہم سمجھتے ہیں کہ
ہمارا دوسرا بازو بھی ٹوٹ گیا ہے۔ جنرل حمید گل کی موت کسی صورت بھی ملا
عمر کی جدائی سے کم نہیں ہے۔ افغان طالبان نے ان کے ایصال ثواب کے لیے وہ
سب کچھ کیا، جو ایک نیک مسلمان کی موت پر کیا جانا چاہیے۔ ان کے لیے قرآن
خوانی، دعائے مغفرت اور نوافل ادا کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل حمید گل
افغانوں کے دوست اور اتحاد کے داعی تھے۔ انہوں نے ملا عمر کی موت کے بعد
طالبان اتحاد کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جنرل (ر) حمید گل کی وفات نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی
افسوسناک سانحہ ہے۔ جنرل (ر) حمید گل کی وفات پر ایران اور سوڈان کے سفرا
نے بھی تعزیت کی۔ سوڈان کے سفیر نے جنرل حمید گل کی وفات پر اظہار افسوس
کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دنیا جہاں کے لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں، لیکن
حمید گل جیسی شخصیت کہیں نظر نہیں آئی ہے۔ یہ شخص اس دور سے تعلق نہیں
رکھتا تھا۔ یہ معمہ، کہانیوں اور روایات میں مذکورہ مجسمہ نیکی کے کرداروں
کی مانند تھا۔ میرے خیال میں یہ اسلام کے اولین دور کے متقی لوگوں کی ایک
نشانی اس دور میں بھیجی گئی۔ جبکہ ایرانی سفیر عالی جاہ علی رضا کا کہنا
تھا کہ جنرل حمید گل ایک حقیقی مجاہد تھے۔ امریکا کو اس لہجے میں للکارنے
والے واحد لیڈر تھے۔ پورے عالم اسلام میں کوئی دوسرا لیڈر ان کے پائے کا
نہیں، جو باطل کو للکار سکے اور سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکے۔ انہوں
ے کہا کہ حمید گل ساری زندگی اتحاد امت کی جدوجہد کے لیے لڑتے رہے ہیں۔ وہ
ایران کے دوست تھے اور ایرانی قوم انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جبکہ
حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار کے نمائندے ڈاکٹر غیرت بہیر بھی رسم قرآن
خوانی میں موجود تھے۔ انہوں نے عبداللہ گل کو حکمت یار کا پیغام پہنچایا
اور کہا کہ حمید گل افغانوں کا فخر تھے۔ افغان انہیں اپنا بھائی اور دوست
مانتے ہیں۔ وہ افغانوں کے اتحاد کے لیے ہمیشہ متحرک رہے۔ افغان قوم ان کی
خدمات کو تادیر رکھے گی۔ جنرل (ر) حمید گل کشمیر کاز کے ایک زبردست حامی
تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کشمیری عوام کی جدوجہد کی نہ صرف
حمایت کی، بلکہ وہ مسئلہ کشمیر کا ایک منصفانہ حل تلاش کرنے میں بھی ہمیشہ
کوشاں رہے۔ گل صاحب کشمیر کی حق خود ارادیت کے لیے ہمہ تن محو تھے اور
انہوں نے پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے رائے عامہ منظم کرنے میں کلیدی
کردار ادا کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں جنرل (ر) حمید گل کی نماز
جنازہ ادا کی گئی۔ جبکہ حریت کے تینوں دھڑوں، متحدہ جہاد کونسل، فریڈم
پارٹی، دختران ملت، پیپلز پولیٹکل فرنٹ، مسلم لیگ، مسلم دینی محاذ نے جنرل
(ر) حمید گل کی وفات پر رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔اس کے علاوہ جنرل صاحب
برما میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف بھی آواز اٹھاتے رہے۔ ان کی وفات پر
برما میں مسلم تنظیموں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
جنرل (ر) حمید گل حمید گل نے افغانستان، فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمان
بھائیوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی جنرل (ر) حمید گل نہ صرف
پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے نڈر اور بے باک ترجمان تھے۔ جنرل حمید گل
نے نہ صرف عالم کفراوردشمنان اسلام کو حربی میدان میں بدحواس کردیا تھا،
بلکہ اسلام اور تحریک پاکستان کے نظریاتی محاذ پر بھی دشمن کی چالبازیوں
اور مکاریوں کو خوب سمجھ کر ان کے حملوں کو بھی پسپا کرنے کا ہنر وہ بخوبی
جا نتے تھے۔ جنرل (ر) حمید گل کی وفات سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جسے
پ ±رکرنا مشکل ہے۔ جنرل حمید گل مرحوم ایک جامع الصفات شخصیت تھے۔ اسلامیت
، پاکستانیت اور پیشہ وارانہ عسکریت دوران ملازمت ان کی شناخت رہے۔شوقِ
شہادت اور روحِ جہاد ان کی شریانوں میں حیات تازہ کا گرم خون بن کر گردش
کرتے رہے۔ حمید گل ایک سر تاپا پیشہ ور فوجی تھے۔ وہ 79 برس کی عمر میں بھی
ہمہ تن پاکستان کے دفاع کے لیے تیار رہتے تھے۔یہ جنرل حمید گل تھے کہ جنہوں
نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ سفید سامراج امریکا ، افغانستان پر حملے
کی آڑ میں پاکستان کو اپنی سفاکیت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ وہ نائن الیون
کے واقعہ کو امریکیوں کا سیلف پلانٹڈ واقعہ قرار دیاکرتے تھے۔ اس نابغہ اور
عبقر ی عسکری تجزیہ کار کے امریکی مذموم عزائم کے حوالے سے افکار و آراسے
اکتساب فیض کرکے اس دور کی حکومت اگر اپنی پالیسیاں وضع کرتی تو امریکی
ڈرونز پاکستانی فضائی سرحدوں کو پامال کرکے پاکستان کی قومی سلامتی ، خود
مختاری اور اقتدار اعلیٰ پر شب خون نہ مار سکتے۔ وہ اتحادِ امہ پر یقین
رکھتے تھے۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی سے آخری سانس تک وہ سالمیتِ پاکستان ،
استحکامِ پاکستان ، دفاعِ پاکستان اور بقائے پاکستان کی جنگ لڑنے کے لیے
ہمیشہ ایک مردِ مجاہد کی طرح میدان عمل میں سرگرم رہے۔وہ بیک وقت پاکستان
کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے نمایاں محافظوں میں سے ایک تھے۔ جنرل (ر)
حمید گل نے ہمیشہ یاد رکھی جانے والی زندگی گزاری ہے، اسی لیے ان کا نام
تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ |