خواجہ حسن ثانی نظامی ؒسجادہ نشیں خواجہ نظام الدین اولیاؒکا سانحہ ارتحال
(Dr. Rais Samdani, Karachi)
درگاہ حضرت محبوب الٰہی خواجہ
نظام الدین اولیاؒ کے سجادہ نشین ، معروف ادیب و دانشور خواجہ حسن نظامی ؒ
کے فرزندِ ارجمند خواجہ سید حسن ثانی نظامی ؒ دہلی میں انتقال کرگئے۔ وہ
بیک وقت ایک صوفی، عالم دین، باکمال ادیب اور دانشور اور خانقاہی نظام کے
علمبردار تھے۔ خواجہ سید حسن ثانی نظامی ؒ کے والدبزرگوار خواجہ حسن نظامی
ؒ اپنے وقت کے معروف ادیب، دانشور ور او ر سجادہ نشین تھے۔ حسن ثانی نظامی
بھی اپنے والد ماجد کی طرح صاحب طرز ادیب تھے۔ وہ اپنے والد بزرگوار کے
جاری کردہ ماہنامہ ’منادی‘ سے وابستہ رہے ، یہ رسالہ 1955 ء سے ان کی ادارت
میں مسلسل جاری رہا، جریدہ ’منادی‘ کے اوراق خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ کی
علمیت اور قابلیت کا عملی اظہار ہیں۔
خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، بعد ازاں انہوں
نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویشن کیا۔ ان کا خاندان ایک دینی ، علمی اور
ادب کی اعلیٰ اقدار کاامین ہے۔ انہیں علم و ادب سے محبت اور لگاؤ ورثہ میں
ملا۔ وہ تحریر و تقریر کے فن میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ دینی و علمی
موضوعات پر انہوں نے سو سے زیادہ ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کی اور مختلف
دینی، اخلاقی، ادبی، علمی اور تصوف جیسے موضوعات پر اظہار خیا ل کیا۔
ہندوستان کے معروف و معتبر علمی و ادبی اداروں کے تحت مختلف پروگراموں میں
وہ مسلسل لیکچر یتے رہے۔ انہوں نے ہندوستان کی نمائندگی اقوام متحدہ میں
بھی کی۔ دنیا بھر میں ان کی علمیت و قابلیت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ خواجہ
سیدحسن ثانی نظامی ؒ خانقاہی نظام کے بھی علمبردار تھے۔ وہ حضرت نظام الدینؒ
، حضرت امیر خسرو اور اپنے والد حضرت خواجہ حسن نظامی کے عرس پر ہر سال
مختلف پروگرام تشکیل دیا کرتے تھے جن میں محفل نعت، محفل سماع اور مختلف
سیمنار و لیکچر شامل ہوا کرتے۔ وہ ان پروگراموں میں ذتی دلچسپی لیاکرتے
ساتھ ہی از خود بھی مختلف تصوف کے موضوعات پر تقاریر اور خطبات دیا کرتے
تھے۔
خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ ایک متواضعِ ، خوش اخلاق اور ملنسار شخصیت کے
مالک تھے۔ کشادہ دلی اور خردنوازی ان کی پہچان تھی۔ وہ ہمیشہ امت میں اتحاد
و اتفاق کے خوہش مند اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ صوفیانہ روایت
کے اعلیٰ نمونہ اور دبستان دہلی کے امین تھے۔ ان کے لکھنے کا ایک خاص انداز
اور اچھوتا اسلوب رکھتے تھے۔ انہوں نے جس طرح اپنی کتاب تصوف رسم اور حقیقت
اور حضرت نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات فوائد الفواد کا اردو ترجمہ کیا اس
سے مرحوم کی صلاحیت اور اسلوبِ تحریر کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں۔ انہوں نے
رسالہ منادی کو جاری رکھنے کے علاوہ اپنے والد بزرگوار کی مختلف تصانیف و
تالیفات کو از سر نو شائع کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو ایک قابل
تحسین اقدام تھا۔ اپنے والد کی کتب کی ازسرِ نو اشاعت کے سلسلے کو دنیا بھر
میں سراہا گیا۔ جو کتابیں انہوں نے دوبارہ شائع کیں ان میں کچھ کتابیں
1857کی جدوجہد آزادی سے متعلق ہیں۔
خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ ہندستان کی متعدد علمی و ادبی انجمنوں سے وابستہ
رہے۔ ہمدرد دواخانہ اور جامعہ ہمدرد بھارت کے بانی شہید حکیم محمد سعید کے
بڑے بھائی حکیم عبد الحمید کے انتقال کے بعد خواجہ حسن ثانیؒ غالب اکیڈمی
کے چیرٔمین رہے، حکومت ہندوستان کی جانب سے انہیں (Delhi Gaurav) Pride of
Delhi Awardسے نوازا گیا۔ خواجہ صاحب آل انڈیا صوفی کانفرنس کے صدر نشین
بھی رہے۔ اس کے علاوہ غالب انسٹی ٹیوٹ ، دہلی اردو اکیڈمی سے بھی وابستہ
رہے۔ دہلی کی شاید ہی کوئی ادبی و علمی انجمن یا ادارہ ایسا ہوگا جس سے
خواجہ صاحب کی وابستگی نہ رہی ہو اور انہوں نے اس کی سرپرستی نہ کی ہو۔ وہ
’خواجہ حسن نظامی میموریل سوسائٹی کے سیکریٹری اور امیر خسرو سوسائٹی سے
بھی وابستہ تھے۔
خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ کے انتقال پر ہندوستان کی مختلف مقتدر شخصیات نے
اپنے انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ۔ پروفیسر صدیق الر حمن قدوائی کے
مطابق ’وہ اپنے والد خواجہ حسن نظامی مرحوم کی تہذیبی روایات کے امین تھے۔
انھوں نے دہلی کی زندگی میں اسی بنا پر ایک خاص مقام حاصل کیا تھا ۔ علمی و
ادبی اعتبار سے ان کا شغف متنوع تھا۔ دہلی کی ادبی محفلوں اور انجمنوں میں
وہ ہمیشہ سرگرم رہے ۔ ان کی گفتگو میں بڑی شیرینی اور ایک حِس مزاح بھی تھی۔
جس کی وجہ سے وہ دہلی کی محفلوں میں بہت مقبول رہے۔ اُن کی تحریر کا ایک
خاص انداز تھا۔ اُن کو زمانے میں شکار کا بھی تھا، وہ اپنا اچھا وقت جنگلو
میں گزارا کرتے تھے، جہاں کے تجربات انھوں نے بڑے دل نشین انداز میں قلم
بند کیے‘۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر کا کہنا ہے کہ خواجہ
سیدحسن ثانی نظامی ؒ کانام علم تصوف کے تعلق سے پوری دنیا میں عزت و احترام
سے لیا جات رہا ہے۔ ہندوستانی ادب اور تہذہب کے وہ ہمیشہ امین رہے۔
ہندوستان کی تاریخ پر ان کی گہرے نظر تھی خصوصاًدلی کی روایات کی وہ ہمیشہ
پاسداری کرتے رہے‘۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر شاہد ماہلی نے خواجہ
سیدحسن ثانی نظامی ؒ کی خدمات کا ذکر ان الفاظ میں کیا’مرحوم علوم کے مختلف
شعبوں میں گہری نظر رکھتے تھے جس کا اظہار ہم برابر اُن کی تقریروں میں
دیکھتے تھے۔ انہوں نے مختلف اداروں سے وابستہ رہ کر اہم علمی خدمات انجام
دیں
ہیں۔ بلاشبہ خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ کا انتقال دہلی کی قدیم تہذیب و
ثقافت کے ایک روشن باب کا خاتمہ ہے جس کی تلافی ممکن نہیں‘۔
خواجہ سیدحسن ثانی نظامی ؒ 15 مئی 1931کو پیدا ہوئے۔ 15مارچ 2015 کو 83سال
کی عمر میں بے شمار مریدین کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک
کہا۔ ان کا انتقال ان کے اپنے گھر واقع بستی حضرت نظام الدین میں ہوا، وہ
زیابیطس اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ تدفین درگاہ شریف کے ’خواجہ ہال‘
میں ان کے والد حضرت خواجہ نظام الدین کی قبر اطہر کے ساتھ تدفین عمل میں
آئی۔ (15اگست2015)
|
|