گزشتہ روزمملکت پاکستان کا68واں یوم آزادی عقیدت و احترام
کے جذبات کے ساتھ منایا گیا۔13اور14اگست1947ء کی درمیانی رات بارہ بجے قائد
اعظم محمد علی جناح ؒ کی ولولہ انگیز ،پرفخر قیادت میں مملکت پاکستان کا
قیام عمل میں آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی
قیادت کرتے ہوئے ایک طرف انڈین کانگریس کی ہندو قیادت کی مکاری ،منافقت ،سازشوں
کو ناکام بنایا اور دوسری طرف شاطرانگریزوں کی چال بازیوں کا دلیرانہ وار
مقابلہ کیا۔آل انڈیا اسمبلی کے1945-46ء کے الیکشن میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ
مسلم لیگ کے مطالبے پر پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے یا نہیں۔اس کے
لئے ضروری تھا کہ مسلم لیگ مخصوص مسلم سیٹوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے خود
کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ثابت کرے۔ قا ئد اعظم محمد علی جناح کی قیادت
میں مسلم لیگی رہنماؤں،کارکنوں اور نوجوانوں نے پورے عزم اور جدوجہد سے
الیکشن مہم کے دوران دیہاتوں،قصبوں ،شہروں میں قیام پاکستان کے لئے مسلم
لیگ کو الیکشن میں کامیاب کرانے کے لئے مسلمانوں کو ہندوؤں اور انگریزوں کی
سازشوں سے آگاہ کیا۔اس کے نتیجے مسلم لیگ کو 30،تمام مسلم نشستوں پر شاندار
کامیابی حاصل ہوئی اور کانگریس نے طرف سے مسلمانوں کی بھی نمائندگی کا دعوی
ایک فریب اور جھوٹ ثابت ہو گیا۔انگریزوں اورہندوؤں کی سازش کے طور پر تقسیم
برصغیر کے لئے قائم ریڈ کلف ایوارڈ میں مسلمانوں سے بڑی زیادتی کرتے ہوئے
کئی مسلم کثریتی علاقے پاکستان کے بجائے ہندوستان میں شامل کرائے۔اسی طرح
مسلم اکثریت والے ضلع گوداسپور کو بھی ہندوستان میں شامل کرایا گیا تا کہ
ہندوستان کو ریاست جموں و کشمیر کا راستہ دیا جا سکے۔تقسیم برصغیر کے ساتھ
ہی ہندوؤں نے سکھوں کو بھی استعمال کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا
قتل عام شروع کر دیا اور پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو بھی باقاعدہ
منصوبہ بندی کے مطابق قتل عام کانشانہ بنایا گیا۔یہ قتل عام برصغیر کے ایک
سیاہ باب کے طور پر تاریخ میں درج ہے۔لٹے پٹے لاکھوں مہاجر اپنے پیاروں کو
اپنی نظروں کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کر پاکستان پہنچے۔جموں میں مسلمانوں کے
قتل عام کے ردعمل میں ریاست کشمیر پر قبائلی حملہ کیا گیا۔اس وقت قائد اعظم
نے پاکستانی فوج کو حکم دیا تھا کہ ’’ مارچ یورز ٹروپس اینڈ کیپچر جموں
اینڈ کشمیر بوتھ‘‘ لیکن انگریزوں کی سازش نے گورنر جنرل قائد اعظم کے حکم
پر عمل نہ ہونے دیا۔کشمیر میں انڈین فوج کی پیش قدمی ہوئی تو پاکستانی فوج
کو بھی محاذ پر بھیجا گیا، جنگ طویل ہوئی اور بھارت کو خطرات محسوس ہوئے تو
وہ جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ پہنچ گیا۔یوں68سال گزرنے کے بعد یہ حقیقت
ثابت ہوتی ہے کہ عالمی طاقتوں نے ہندوستان کی آشیر بادکرتے ہوئے ہندوستان
کو جنگ کشمیر کی مشکل سے نکالا اور اس کے بعد اسی جنگ بندی لکیر کی بنیاد
پر ہی تقسیم کشمیر کی سازشیں اب تک مختلف انداز میں جاری ہیں۔
دوسری طرف 1951ء میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں
ایک جلسہ میں خطاب کے دوران قتل کر دیا گیا۔لیاقت علی خان کا قتل پاکستان
کے خلاف ایک بڑی سازش کا ایک قدم تھا ،اسی لئے اب تک لیاقت علی خان کا قتل
’’شاہی رازوں ‘‘کی طرح ایک گہرا راز ہی بنا ہوا ہے۔اس کے بعد پاکستان میں
سیاسی سازشوں کا ایک نیا دور شروع کیا گیا جس کی تان1958ء کے جنرل ایوب کے
مارشل لاء پر آ کر ٹوٹی۔یہ پاکستان کی انحطاط پزیری کے سفر کی تیاری
تھی۔ہاں پاکستان کو درست راہ پہ ڈالنے کا ایک موقع ملا تھا جب مادر ملت
فاطمہ جناح ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی درخواست پر بیماری کی حالت میں
گھر سے باہر آئیں اور انہوں نے پاکستان کو برباد کرنے کی جنرل ایوب کی
آمریت کا مقابلہ کیا۔تمام تر سازشوں کے باوجود فاطمہ جناح کے امیدوار
الیکشن جیت چکے تھے لیکن پھر آمر حکمرانوں نے دھونس،دھاندلی اور ہٹ دھرمی
سے مادرملت فاطمہ جناح کو ’’ شکست یافتہ‘‘ قرار دیا۔پاکستانی قوم کی قیادت
کرنے والی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ناجائز طور پر ’’ کارنر ‘‘ کرنے
کے لئے جنرل ایوب نے مفاد پرست سیاست کی بنیاد رکھی ،سیاست کو مفاد پرستی
کا کھیل بنا دیا،جس کے بدترین نتائج آج ملک و عوام کو درپیش ہیں۔یوں ملک
میں حقیقی سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو خاتمے کی راہ دکھلاتے ہوئے سیاسی
جماعتوں کے نام پر شخصی،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر گروپ
تشکیل دیئے گئے۔یوں مادر ملت کے خلاف یہ انداز درحقیقت پاکستان کے خلاف ہی
ثابت ہوا۔1960ء میں جنرل ایوب نے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے تیار
کردہ پاکستان کو تباہ کرنے اور کشمیریوں کو ہندوستان کا بدستور غلام رکھنے
پر مبنی ’’سندھ طاس معاہدہ ‘‘ کرتے ہوئے پاکستان اور کشمیریوں کو دور رس
اثرات پر مبنی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کرنے کے اقدامات کئے۔مشرقی
پاکستان کے مسلمانوں سے تعصب برتا گیا،ان کے ساتھ معاشی سمیت ہر انداز میں
زیادتیاں کی گئی جس کا فائدہ ہندوستان نے بھر پور انداز میں اٹھایا اور
پاکستان کو 1971ء میں دولخت کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا
دیا۔ہتھیار ڈال کر ایک لاکھ پاکستانی فوجی ہندوستان کے قیدی بن گئے۔پاکستان
کے سخت دباؤ کی صورتحال میں ہندوستان کے ساتھ شملہ سمجھوتہ کیا گیا جس میں
مسئلہ کشمیر کو باہمی طور پر حل کرنے اور کشمیر کی سیز فائر لائین کو
کنٹرول لائین کا نام دیا گیا۔
1971ء کے المیہ پاکستان کے صرف چھ سال بعد ہی ملک میں دوبارہ مارشل لاء لگا
دیا گیا اور پاکستان کو قیام پاکستان کے مقاصد سے ہٹا کر ملک کے وہ نئے
اہداف مقرر کئے گئے جن کے ردعمل کے خلاف آج افواج پاکستان اپنے ہی ملک کے
اندر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نام پر حالت جنگ میں ہے۔چند سال نام
نہاد عوامی حکومتوں کے’’ میوزیکل چیئر‘‘ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے مارشل
لاء لگا دیا۔جنرل ضیاء الحق نے جنرل ایوب کے حکمرانی کے فارمولے میں کچھ
تبدیلیاں کر کے اقتدار کی شطرنج بچھائی اور اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے
اپنے پیش رو آمروں کے حکمرانی کے فارمولے میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے
اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی ۔مشرف اقتدار میں پارلیمنٹ میں حکومت کے
علاوہ اپوزیشن بھی آمر حکمران کی اپنی ہی تھی۔اب پاکستان میں ان غلطیوں کو
مضبوط بنانا نظر آ رہا ہے جس طرح کی ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو
برباد اور نامراد کیا گیا۔کیا المیہ ہے کہ ملک میں طالع آزماؤں نے اس سیاسی
کلچر کو ہی ختم کر دیا جس باکردار سیاسی کلچر نے پاکستان بنایا تھا،اس کے
بجائے سیاست کے نام پر بدکرداری پر مبنی انداز سیاست کی ترویج کی گئی۔یوں
محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کو پاکستان بنانے کی پاداش میں مسلسل
سزایاب کیا جا رہا ہے۔اب ملک میں عوام کو دوسرے درجے کی مخلوق بنا دیا گیا
ہے۔ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان کا قیام عوامی جدوجہد اور
قربانیوں کا اعجاز ہے،عوام کو دوسرے،تیسرے درجے کی مخلوق بناتے ہوئے ملک کے
مفاد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ملک میں یہ سوچ بھی پائی جار ہی ہے کہ
سول ادارے ،افراد ناکارہ ،ناقابل اعتبار ہیں جبکہ فوج ہی سب کچھ اچھے طریقے
سے کر سکتی ہے۔عوامی مفاد کے حوالے سے پاکستان کا نہایت اہم اور حساس مسئلہ
ملک میں معاشی عدم مساوات کا ہے۔پاکستان میں حکمرانوں ،سرکاری تنخواہیں
پانے والے افسران کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید سلطنت
برونائی کے شہزادے جلوہ افروز ہیں۔ان کے لئے ہر سرکاری سہولت اور سروس ون
کلاس سٹینڈرڈ کی،عوام کے لئے سہولیات نہیں،وسائل نہیں۔عوام کے لئے صفائی ،بلدیہ
،پانی ،پولیس، انتظامیہ، سرکاری محکموں کے نظام ناقص ہیں،سہولیات نہیں ہیں
،حفاظت نہیں ہے،معاش نہیں ہے،یکرفہ ،ناجائز سرکاری وصولیاں ہیں،مختصر یہ کہ
خواص کے لئے شاندار ،پر تعیش ماحول برقرار رکھنے کے لئے عوام کو ناجائز
معاشی دباؤ کا شکار بنا رکھا ہے۔وہ کون کون سے طبقات ہیں جن سے وابستہ
افراد معاشی طور پر مصائب میں مبتلا مملکت پاکستان میں شاندار طرز زندگی
گزار رہے ہیں،ان کی سوشل لائف یورپ سے اچھی،ان کے لئے صحت کی سہولیات کا
معیار یورپ سے بھی اچھا،ان کے لئے تعلیمی سہولیات کا معیار یورپ سے بھی
اچھا، سرکاری تنخواہیں پانے والے خواص کے لئے ہر سہولت بہترین معیار میں
میسر ہے۔یعنی ان کا پاکستان تو آباد اور شاد باد ہے لیکن عوام کا پاکستان
دکھ بھرا، مجبور اور نامراد ہے۔پاکستان سیاسی فکر و سوچ اور جدوجہد کا
نتیجہ ہے اور پاکستان میں حقیقی سیاسی کلچر قائم کر نے اور مضبوط بنانے سے
ہی پاکستان کا حقیقی دفاع ممکن ہے۔پاکستان کو قدرت نے بیش بہا وسائل اور
انسانی قابلیت سے نوازا ہے، اگرپاکستان میں حقیقی طور پر انصاف پر مبنی
نظام قائم ہو جائے جو طبقات کی نہیں بلکہ عوام کے مفادات کا تحفظ
کرے،توپاکستان کو دنیا کی ایک بڑی طاقت بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ |