مشرق وسطیٰ کی سیاست میں داعش کی پیدائش

مشرق وسطیٰ کی سیاست اتنی الجھی ہوئی اور پیچیدہ ہے کہ اس کو سیدھی طرح یا یوں سمجھئے کہ دو اور دو چارکی طرح سمجھانا مشکل ہے ۔اب سے تقریباَ دو سال پہلے تک کسی نے داعش کانام بھی نہیں سنا ہوگا بالکل اسی طرح جس طرح اب سے 80سال پہلے تک کسی نے اسرائیل کانام نہیں سنا تھا ۔اسرائیل کی پیدائش کیونکر اور کیسے ہوئی اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور یہ اس وقت ہما راموضوع بھی نہیں۔ یہودیوں کی سازش اورعالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا ۔یوں تو تمام یورپی اقوام کی اسرئیل کو اندھی حمایت حاصل ہے لیکن امریکا کا معاملہ تھوڑا اس سے آگے بڑھ کر ہے ۔مشرق وسطی ٰ میں امریکا کی پالیسی اسرائیل کے ساتھ مشفقانہ سرپرستی اور مسلم ممالک کے ساتھ جابرانہ دوستی کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب، مصر، اردن سے امریکا کے اچھے اور دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں ۔شام اور عراق کے ساتھ معاملات کچھ مختلف ہیں۔

اب سے چار پانچ سال قبل جب اسرائیل کی حزب اﷲ سے جنگ ہورہی تھی تو اس وقت حزب اﷲ نے اسرائیل کو مشکل میں ڈالا ہوا تھا وہی اسرائیل جس نے 1967میں اور پھر 1973میں بڑے اور منظم مسلم ممالک پر اپنی برتری ثابت کی تھی لبنان کی حزب اﷲ جیسی جہادی تنظیم نے جس کے پاس کوئی منظم ریاست نہیں تھی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے حزب اﷲ گو کہ شیعہ تنظیم ہے لیکن اسرائیل کے خلاف جنگ میں پورے عالم اسلام کی اسے حمایت حاصل تھی ۔حماس بھرپور طریقے سے عملی مدد کررہی تھی مصر،سعودی عرب،کویت ،اردن اور دیگر ممالک بھرپور اخلاقی حمایت کررہے تھے جب کہ شام تو اس کی مکمل سرپرستی کررہا تھاحزب اﷲ نے یہ جنگ جیت لی تو شام کی پارلیمنٹ کے بھر پور اجلاس میں اس طرح مسرت کا اظہار کیا گیا کہ جیسے اس نے خود یہ جنگ جیتی ہو ۔ان ممالک کے علاوہ دنیا بھر کی اسلامی تنطیمیں بھی بھرپور حزب اﷲ کی حمایت کررہی تھیں جس میں عرب ممالک میں اخوان المسلمین،جماعت اسلامی جیسی منظم تنظیمیں اس میں شامل تھے ۔اسرائیل سمیت امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک اور یورپ کو اسرائیل کی شکست سے زیادہ اس بات کا غم تھا کہ اس جنگ میں دنیا کے تمام مسلم ممالک اور اسلامی قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئی تھیں ۔

آج سے ایک ڈیڑھ سال قبل ایک اور معرکہ ہوا جس میں اسرائیل نے چھوٹی سی غزہ کی پٹی میں بمباری کرکے دو ہزار سے زائد بچوں اور خواتین کو ہلاک کردیا یہ ایک ماہ کے لگ بھگ طویل جنگ تھی جس میں حماس کے مجاہدین اسرئیل جیسی قوت کا مقابلہ کررہے تھے وجہ اس کی یہ تھی ایک طویل عرصے سے اسرائیلی حکومت نے غزہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا بجلی اور گیس کی سپلائی کے حوالے سے پریشان کیا ہواتھا،وقت پر تنخواہیں نہیں ملتی تھیں پھر ایک سازش کے تحت اپنے ہی تین لوگوں کو اغوا کیا گیا اور اس کا الزام حماس پر لگایا گیا پھر ایک دن ان تینوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں تو پورے اسرائیل میں کہرام مچ گیا اور حماس کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا عزم کیا گیا ادھر غزہ کے لوگ پہلے ہی پریشان تھے پھر جب اسرائیل نے حملہ کیا تو حماس نے بھی مارو اور مرجاؤ کے اصول پر جنگ کا آغاز کیا اور غزہ کے عام لوگوں نے اس کی بھر پور حمایت کی اسرائیل کی ظالم حکومت ایک خاص منصوبے کے تحت شہری علاقوں میں بمباری کررہی تھی تاکہ حماس کے القسام بریگیڈ پر اندرونی دباؤ بڑھایا جائے کہ وہ اسرائیل سے جنگ نہ کریں اور اس کی شرائط پر جنگ بندی کرلیں عرب اسرائیل کی۱۹۶۷ کی جنگ ۷دن اور ۱۹۷۳کی مصر سے جنگ دس دن چلی لیکن حزب اﷲ اور حماس جیسی جہادی تنظیموں سے مہینوں تک یہ جنگ چلی ۔پھر حماس نے ایک باعزت معاہدے پر اس جنگ کا اختتام کیا دلچسپ بات یہ ہے ایک طرف ایران اس جنگ میں حماس کی حمایت کررہا تھا تو دوسری طرف اسے اخوانین المسلمین اور حزب اﷲ سمیت کئی عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی ۔

اب سے دو تین سال پہلے یہ خبریں پڑھنے کو مل رہی تھیں کہ امریکا شام پر حملہ کرنے والا ہے ،وجہ اس کی یہ تھی اسرائیل شام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے ادھر شام کے اندر بشارالاسد کی عوامی سطح پر مخالفت شدت اختیار کرتی جارہی تھی جس کے نتیجے میں ایک منظم جدوجہد کا آغاز ہوا شام کے اندر ہی سے باغی اٹھے جس میں شیعہ اور سنی دونوں شامل تھے اور پھر ان جہادی باغیوں کو حزب اﷲ اور حماس کی حمایت حاصل تھی جو عملی طور سے مدد کررہے تھے جہادی لوگ شام کی حکومت کے خلاف بھر پور کاروائی کررہے تھے انھیں ایک حوالے سے امریکا اور سب سے اہم یہ کہ سعودی عرب کی بھی حمایت مل رہی تھی وہی سعودی عرب جو حماس اور اخوان المسلمین کا شدید مخالف تھاشام کے خلاف جنگ میں میں ان کا ساتھ دے رہا تھا ۔امریکا کی دھمکیاں بھی رک گئیں کہ شاید اس وجہ سے کہ ایران نے یہ کہا تھا کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کیا تو ایران اسرائیل کو نشانہ بنائے گا یا پھر یہ کہ شام کے خلاف مجاہدین کامیابیاں حاصل کررہے تھے اس لیے خاموشی اختیار کر لی ۔

پھر اچانک مشرق وسطیٰ کے سیاسی افق پر ایک نام داعش کے نام سے ابھر کر آیا ،یہی وہ مقام ہے جہاں سے مشرق وسطی کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا حزب اﷲ کی کامیابی کے بعد شامی حکومت کے خلاف جو جہادی گروپس جہاد کررہے تھے اس کی قیادت معتدل مزاج جہادی رہنما کررہے تھے امریکا اور مغربی ممالک کے لیے یہ امر انتہائی تشویشناک تھا کہ اگر شام کے خلاف یہ جہادی تنظیمیں کامیاب ہو گئیں تو پورے مشرق وسطی میں جہادی کلچر غالب ہو جائے گا اور اگر اعتدال پسند اسلامی قوتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا تو اخوان المسلمین اور جماعت اسلامی جیسی تنظیموں کے اثر ورسوخ میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔شامی حکومت کے خلاف جو لوگ جہاد کررہے تھے اس میں سے انتہا پسندسنی عناصر کو الگ کر کے اورپھر امریکا نے کچھ اپنے ایجنٹوں کو ملا کر داعش کے نام سے ایک سخت گیر تنظیم بنائی جس کا نام تو دعوت اسلامی عراق اورشام رکھا لیکن اس کا عملاَ اصل کام ایک سخت گیر سنی تنظیم کی حیثیت شیعہ عناصر کے خلاف اپنے آپ کو متعارف کرانا اور یہ کہ تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنا داعش کے وجود میں آنے کے بعد اعتدال پسند قوتیں از خود تحلیل ہو گئیں ۔عقل حیران ہوجاتی ہے اچانک بننے والی اس تنظیم کے پاس اتنے جدید ہتھیار اور افرادی قوت کہاں سے آگئی کہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے عراق وشام کے ان اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا جہاں پر تیل کے کنوئیں موجود تھے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے امریکا داعش کا مخالف ہے اور اس کے خلاف صف بندی کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن یہ عملاَ اسی کی قائم کی ہوئی تنظیم ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مل مالکان معروف یونین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے متبادل یونین تشکیل دیتے ہیں جو انتظامیہ کو پہلے والی یونین سے زیادہ گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں تاکہ لوگ ان کی طرف مائل ہو جائیں اور لوگ یہی سمجھیں پہلے والی یونین تو انتظامیہ کی ایجنٹ ہے اب یہ اصل مزدوروں کی نمائندہ یونین وجود میں آئی ہے ۔حالانکہ جس کو وہ اصل مزدوروں کی نمائند ہ تنظیم سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی انٹطامیہ کے ایجنٹ ہوتی ہے ۔

داعش کی پیدائش سے امریکا کوتین بڑے فوائد حاصل ہوئے ہیں پہلا تو یہ کہ جو اعتدال پسند اسلامی و جہادی قوتیں آگے بڑھ رہی تھیں ان کی پیشقدمی رک گئی اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ حزب اﷲ اور حماس نے اسرائیل کے خلاف فتح حاصل کرکے پورے عالم اسلام کے اتحاد کا جو تصور دیا تھا اس تصور کو پاش پاش کردیا جائے اور اس طرح مشرق وسطی کی سیاست دو عقائد کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی یعنی شیعہ اور سنی کے درمیان تقسیم ہو گئی اور تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ اگروہ خود تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرتا تو پوری دنیا میں شور مچ جاتا لیکن یہ کام داعش کے ذریعے سے کروا کر وہ صاف ستھرا بنا الگ کھڑا ہے اور فائدہ بھی اٹھا رہا ہے ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 56371 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.