وہ دیکھو وہ کیسے گند اٹھا کر لے
کے جا رہی ہے. توبہ دیکھو ذرا یہاں تک بدبو آ رہی ہے، شاہدہ نے پاس بیٹھی
ہمسائی کو کہا. میں اسکول سے گھر داخل ہوا تھا جب ان دونوں کی باتیں میرے
کانوں میں پڑی.
میں اپنے تایا جی اور تایی جان کے ساتھ رہتا تھا کہ اپنے والدین کی وفات کے
بعد یہی میرا سب کچھ تھے. تایا جی بڑھاپے کی عمر میں شوگر اور دل کے مریض
بھی تھے.اس گھر میں انکا ایک بیٹا اور بہو بھی رہتی تھی جن کے ساتھ گزارا
اس لئے تکلیف دہ تھا کہ بہو کا ان بوڑھے لوگوں کے ساتھ رویہ ویسا ہی تھا
جیسے ہم ساس بہو کی کہانیوں میں پڑھتے ہیں .
بیماری کی وجہ سے تایا جی کمرے سے باہر نہیں جاتے تھے اور کھانے پینے سے لے
کر رفع حاجت کمرے میں ہی کرتے تھے. تایی جان بہت دل سے اپنے شوہر کا خیال
رکھتی تھی. پرہیزی کھانا ، ادویات سے لے انکی صفائی ستھرائی اتنی محبت سے
کرتی تھی کہ رشک آتا تھا انکی تیمارداری پر. لیکن بہو ہاتھ بٹانے کی بجے
الٹا منفی باتوں سے دل دکھایا کرتی تھی. تایا جی نے ایک کرسی بنا رکھی تھی
لکڑی کی جس کی سیٹ پر سوراخ تھا اور ایک سوراخ کے نیچے ایک کھلا برتن پڑا
ہوتا تھا. جب تایا جی رفع حاجت سے فارغ ہوتے تو تایی جان وہ برتن اٹھا کر
واش روم میں صفائی کے لئے جاتی تھی. چونکہ وہ ایک وفا شعار بیوی کی طرح
محبت سے سارے کام سرانجام دیتی اور ایسے کاموں کی عادی ہو چکی تھی سو وہ سر
جھکا کر کام کرتی رہتی چاہے بہو جتنا بھی دل دکھاتی.
میں نے بہت دفعہ کہا تایا جان کو ایک الگ واش روم بنوانے کا جس میں کموڈ
لگوا لیتے لیکن انہوں نے ہمیشہ پیار سے ٹالا اور کہا کہ بس یہی کرسی ٹھیک
ہے. میں جانتا تھا کہ تایا جی صرف خرچے کی وجہ سے ایسا کہہ رہے تھے . تب
ایسی سہولت والا واش روم مہنگا ہونے کی وجہ سے انکی استطاعت سے باہر تھا کہ
آمدن کا ذریعہ صرف انکی پنشن تھا.
تایا جی کا بیٹا بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا تو میں دل ہی دل میں بہت کڑھتا
تھا اور بس نہیں چلتا تھا کہ فورا گھر میں کموڈ والا واش روم بنا کر تایا
جی کے لئے سہولت پیدا کروں اور تایی جان کو بھی فضلہ اٹھا کر پھینکنے سے
آزاد کروں. اور خاص اس لئے بھی کہ انکی بہو منفی باتیں کر کر کے دل دکھاتی
جب تایی جان یہ عمل کر رہی ہوتی.
خیر وقت ایسے ہی گزرتا گیا اور ایک دن تایا جی وفات پا گے. انکے صرف ایک
سال بعد تایی جان بھی چل بسی. لیکن اس گھر میں کموڈ والا واش روم نہ بن سکا
اور میرے دل میں حسرت ایک پچھتاوا بن کر رہ گئی. آج بہت عرصے بعد میرے چھے
سال کے بیٹے نے فون کر کے بتایا کہ ابو مستری آ گیا ہے اور واش روم میں
کموڈ لگا رہا ہے کہ میری بیوی بہت عرصے سے پیچھے پڑی ہوئی تھی کہ کموڈ لگوا
کے دیں.
بس تبھی فون رکھنے کے بعد وہ پرانا وقت، حسرت یاد آ گئی. تبھی آنسو ایسے
نکل رہے کہ روکنا محال. جب بہت خواہش تھی تب میں قبل نہیں تھا. آج جب میں
قابل ہوا. تو وہ پیارے لوگ نہیں رہے. اور ہاں یاد آیا تایا جان کا بیٹا اور
بہو آجکل گھٹنوں کی تکلیف میں رہتے ہیں سو اب انہوں نے اپنے اسی گھر میں
اسی کمرے کے ساتھ کموڈ والا واش روم بنا لیا ہے جہاں تایا جی کی سوراخ والی
کرسی پڑی ہوتی تھی. |