بچپن میں ایک بار امی مجھے لے کر
گاؤں گئیں۔ وہاں ان کے بہت ساری زمینوں، مربعوں کے مالک، گاؤں کے نمبردار
رشتے دار رہا کرتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے لے کر اپنے کسی رشتے دار کے گھر
ملنے گئیں۔ گاؤں میں ان سب کے گھر بہت بڑے بڑے اور صحن کھلے کھلے سےتھے۔
جن میں ایک طرف رہائش، چولہا چوکا اور دوسرے حصے میں جانور ہوا کرتے تھے۔
یہ بہاولپور کا علاقہ تھا۔۔ چولستان کے قریب، ریگستانی علاقہ۔۔ جہاں لوگ
مال مویشی، جانور بہت رکھا کرتے تھے۔ گائے، بھینسوں کے علاوہ اونٹ، گھوڑے
رکھنا ان کے لیے عام سی بات تھی جنہیں وہ سواری کے علاوہ کھیتی باڑی میں
بھی استعمال کیا کرتے تھے۔۔
امی مجھے لے کرجیسے ہی اس گھرمیں داخل ہوئیں تو اس گھر کی عورتیں صحن میں
ہی موجود تھیں۔ وہ امی سےتپاک سے مل کر باتیں کرنے لگیں۔ تب میں کافی کم
عمر تھی، یہی کوئی چار پانچ سال کی ۔۔ پہلے تو میں امی سے چپکی رہی۔ پھر
آہستہ آہستہ بور ہونے لگی تو ان سے ذرا ہٹ کرصحن میں گھومنے لگی اور
دیکھتے ہی دیکھتےمجھے ایک نئی مصروفیت مل گئی۔۔ لاہور جیسے بڑے شہر سے ہٹ
کر ایک علیحدہ ہی ماحول۔ منفرد نظارے، ذرا کھُل کھیل کے۔۔ میں ان کے گھر
میں موجود مرغیوں کے پیچھے بھاگنے لگی۔ مجھے یہ کام بڑا دلچسپ لگا۔۔ پھرجا
کر بکری کو چارہ کھلانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ بس انھی معصوم حرکتوں کے ساتھ
نہ جانے مجھ سے کیسے چُوک ہو گئی کہ میں گائے بھینسوں کے ساتھ بندھے
ہوئےاونٹ کو نظر انداز کر گئی۔۔ میں جب بھی اسے دیکھتی تو وہ مجھے اپنی طرف
ہی دیکھتا ہوا محسوس ہوتا۔۔ شائد مجھے اس کا اس طرح دیکھنا بُرا لگا۔۔ میرے
ہاتھ میں اس وقت ایک چھڑی تھی جسے لے کر میں مرغیوں کی دوڑیں لگوا رہی تھی۔
میں نے وہی چھڑی ہاتھ اوپر بلند کر کے زور زورسے ہلا کر اونٹ کو دکھا ئی
اور بول بول کر اسے وارننگ بھی دی کہ آنکھیں نیچی کرو، باز آ جاؤ۔۔ میری
طرف مت دیکھو؟
تواونٹ جو آرام سےبیٹھا ہوا ایک باردائیں اور دوسری بار بائیں جبڑے ہلاتا
ہواجگالی کر رہا تھا اور میری بھاگ دوڑ ملاحظہ فرما رہا تھا۔ یکدم بچھو لڑ
گیا کے مصداق۔۔ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور جس کھونٹے سے بندھا
ہوا تھا اس کے گرد تیزی سے چکر کاٹنے لگا۔۔ اس کا انداز یہ تھا کہ مجھے
کھول دو اور پھر دیکھو۔۔! یہ دیکھ کر امی جان گھبرا گئیں۔ فورا آ کر انھوں
نے مجھے اپنے قریب کر لیا اور گھر کی عورتیں مجھ سمیت امی کو لے کر اندر
کمرے میں چلی گئیں۔ میں نظر سے اوجھل ہوئی تو اونٹ کچھ دیر مزید چکر کاٹنے
کے بعد ذرا پُرسکون ہو گیا۔ امی جان کو کچھ دیر پریشانی ہوئی کیونکہ کہتے
ہیں اونٹ ایک کدورت، دشمنی رکھنے والا جانور ہےلیکن اپنی رشتے دار عورتوں
کے تسلی، دلاسہ دینے پہ پھر وہ بھی بھول گئیں اور باتوں میں مگن ہو گئیں۔۔
امی جان پندرہ، بیس دن وہاں گاؤں میں رہیں اور پھر واپسی کی تیاری ہوئی۔
واپسی کی تیاری کچھ یوں ہوتی تھی کہ ایک بار پھر جا کر سب رشتے داروں سے
الوداعی ملنا ہوتا تھا۔۔ اس دن پھر امی مجھےاورخالہ کو ساتھ لے کر تمام
رشتے داروں کو مل رہی تھیں۔ سب سے ملتے ملاتے آخر میں وہ اس اونٹ والے گھر
میں داخل ہوئیں۔۔ اپنے قیام کے دوران اتنے رونق میلے میں وہ اونٹ والی بات
بھول چکی تھیں سو بے فکری سے خالہ سے باتیں کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔۔
جیسے ہی ہم اس گھر کے اندر داخل ہوئے۔ ابھی ان کے صحن کے درمیان ہی میں
پہنچے تھے۔۔ اتفاقا ان کا وہ اونٹ اس دن بھی گھر میں ہی موجود تھا کہ اس
اونٹ نے ہمیں دیکھ لیا، بلکہ خاص طور پر مجھے دیکھ لیا۔۔ معاذ اللہ، اونٹ
نے مجھےدیکھتے ہی فورا پہچان لیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ اپنی جگہ پر تیزی سے
چکر کاٹنے لگا اور منہ سے خوفناک آوازیں نکالنے لگا۔ اس گھر کی عورتیں اس
وقت صحن میں ہی کام کر رہی تھیں لیکن ابھی ہم سے کچھ فاصلے پر تھیں۔۔ اور
دھوپ سے بچنے کے لیے وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ کا چھجہ بنائے اونٹ کے شور
شرابے پر اچانک نمودار ہونے والی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
اونٹ کے ایک دم خوفناک اور دہشت ناک آوازیں نکالنے پر امی اور خالہ بُری
طرح گھبرا گئیں اور ان کے قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اونٹ
اتنا غصے میں آ گیا کہ اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔ ۔جسے امی بعد میں
بلبلے کہہ رہی تھیں اور مجھے وہ ۔۔غبارے۔۔ لگ رہے تھے۔ ویسے وہ غبارے مجھے
آج بھی یاد ہیں۔۔
اتنے میں اونٹ کے تیزی سے گھومنے،چکر کاٹنے کی وجہ سے اس کے کھونٹے کی رسی
ڈھیلی پڑ گئی اور اب کھلی کہ تب کھلی والی صورتحال پیدا ہو گئی۔۔ تب امی
اور خالہ کو ایک دم ہوش آیا۔۔ پہلے غالبا وہ اس امید میں تھیں کہ شائد اس
گھر کی عورتیں اونٹ کو پچکار لیں گی۔۔ لیکن وہ بیچاری خود ہکا بکا کھڑی
اونٹ کے رنگ ڈھنگ دیکھ رہی تھیں۔۔ اتنے میں امی اور خالہ نے مجھے پکڑا اور
چیختی، چلاتی، شور مچاتی ہوئیں ان کے صحن میں بھاگنے لگیں اوردیکھتے ہی
دیکھتے گھر والوں کی نظروں کے سامنے انھی کے گھر کے ایک کمرے میں گھس کر
روپوش ہو گئیں۔ اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔۔
ادھر اونٹ نے اسی پندرہ، بیس سیکنڈ کے عرصے میں اپنے آپ کو رسی، کھونٹے سے
آزاد کر لیا۔۔ کھونٹے سے آزاد ہو کر وہ پورے صحن میں اِدھر اُدھر بھاگنے
لگا (پگلا کہیں کا) جو باقیوں کے کہنے کے مطابق وہ۔۔ مجھے۔۔ ڈھونڈ رہا
تھا۔۔ منہ سے غبارے پھلاتا، دہشتناک آوازیں نکالتا وہ ایک کونے سے دوسرے
کونے تک جا رہا تھا بلکہ صحن کے جس حصے میں اسے جانے کی اجازت نہیں تھی وہ
وہاں بھی بھاگ رہا تھا یعنی میرا تیا پانچا کرنے کو وہ اتنا بے قرار تھا۔
حیرانی کی بات یہ تھی کہ وہ گھر کی عورتوں اور بچوں کو کچھ نہیں کہہ رہا
تھا۔ جبکہ وہ اونٹ کی اس بے وقت کی آفت و راگنی پہ حیران و پریشان ہو کر
اونٹ کی بھاگ دوڑ دیکھ رہی تھیں۔۔ اب گھر والے باہر تھے اور امی اور خالہ
مجھ سمیت انھی کے گھر کے کمرے میں گوشہ نشین ہو چکی تھیں۔۔
اونٹ کے رنگ ڈھنگ ابھی جاری تھے کہ اس صورتحال کو قابو کرنے کا خیال آیا۔
اتنی دیر میں شور شرابا سن کر آس پاس کے پڑوسی بھی چھتوں پر آ کر یہ
نظارہ دیکھنے لگے تھے۔ اب اونٹ کو قابو کرنے کے لیے کسی۔۔مرد ۔۔ کی ضرورت
تھی کیونکہ یہ عورتوں کے بس کی بات نہ تھی۔۔ دوپہر کا وقت تھا اس وقت زیادہ
مرد حضرات گھر پر نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ کھیتی باڑی کے سلسلے میں اپنے
مربعوں، زمینوں، ڈیروں پر ہوا کرتے تھے۔ بہر حال پھر یہ بات آگ کی طرح
پورے گاؤں میں پھیل گئی۔
اس وقت صورتحال یہ تھی کہ پڑوسی چھتوں پہ کھڑے تھے۔ گاؤں کے لوگ گھر کی
اونچی دیواروں سے جھانک رہے تھے، لٹک رہے تھے۔ گھر والے صحن میں تھے۔ امی
اور خالہ مجھے لے کر حجرہ نشین تھیں۔۔ اِک ہنگامہ تھا جو برپا تھا۔۔
پھریہ بات گولی کی طرح آس پاس کے کھیتوں اور مربعوں میں پہنچ گئی اور بہت
سارے مرد آنا شروع ہو گئے۔۔
باری باری گاؤں کے کئی مردوں نے آ کر اونٹ پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن
ناکام رہے۔۔ اس اجتماعی ناکامی کے بعد سب کی زبان پرایک ہی نام آیا۔۔
گردَابر کو بلاؤ۔۔۔ گردابر کو بلاؤ۔۔،
جی ہاں، ایک چولستانی مرد۔۔
جس کی بہادری پہ کسی کو بھی شک و شبہ نہ تھا۔ جو اونٹوں کی فطرت جانتا تھا۔
ان کی نس نس سے واقف تھا اور اونٹوں پر قابو پانا جانتا تھا۔ اس وقت وہ
احمدپور شرقیہ میں تھا۔ اب اک جہان اس کے انتظار میں نظریں بچھائے ہوئے
تھا۔۔ در و دیوارسےچپکاہوا تھا۔ سو اس تک فوری پیغام پہنچایا گیا اور تین،
چار گھنٹوں کے انتظار کے بعد وہ پہنچ گیا۔۔ تو آگے محفل ابھی جوان تھی۔
اونٹ اتنا بپھرا ہوا تھا کہ گردَابر کے لیے بھی اِک امتحان کھڑا تھا۔ کافی
ہوشیاری اور محنت کے بعد مشتعل اونٹ پر اس نے قابو پا ہی لیا اور اسے نکیل
ڈال دی۔ مجھے اس گھرسے چادر میں چھپا کر باہر لایا گیا تا کہ اونٹ کی مجھ
پر نظر نہ پڑ سکے۔۔ پھر امی اپنے قیام کے آخری جو ایک دو دن وہاں رہیں تو
سب نے مجھے اپنی حفاظت میں اونٹ کی آنکھوں سے اوجھل رکھا۔۔ جب لاہور واپسی
ہوئی تو ٹرین میں بیٹھ کر امی جان نے سکون کا سانس لیا۔۔ گردابر کو ڈھیروں
دعائیں دیں۔۔ اور پیچھے رشتہ داروں نے بھی شکر ادا کیا۔۔
لاہور واپسی پر یہ قصہ جان کر والد صاحب بہت فکرمند ہوئے۔ ۔پھر دوبارہ جب
بھی وہاں بہاولپور جانا ہوا تو ابو لازمی ساتھ جاتے اور ہر وقت مجھے اپنی
کڑی نگرانی میں رکھتے۔۔ یہ سوچ کر کہ اونٹ کی دشمنی بڑی بُری ہوتی ہے جس کی
ایک جھلک تو پورا گاؤں دیکھ چکا تھا۔۔ حالانکہ آپ خود سوچیں ،میں نے بھلا
۔۔کیا۔۔ کیا تھا۔ صرف ایک چھوٹی سی چھڑی ہی تو دکھائی تھی۔ باقی ساری
۔۔آفت ۔۔ تو اس اونٹ نے مچائی تھی۔
|