اٹک خود کش حملہ....خطرے کی گھنٹی!
(عابد محمود عزام, karachi)
خودکش حملے میں جاں بحق ہونے
والے پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ اور ڈی ایس پی شوکت
شاہ کی نماز جنازہ گزشتہ روز اٹک کی پولیس لائنز میں ادا کی گئی، جس میں
اہم سیاسی شخصیات اور شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اتوار کے روز پنجاب
کے وزیر داخلہ (ر) کرنل شجاع خانزادہ اور ڈی ایس پی شوکت شاہ سمیت بیس
افراد اٹک میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ کرنل
ریٹائرڈ شجاع خانزادہ اٹک میں اپنے گاﺅں شادی خان میں اپنے گھر سے متصل
ڈیرے پر ایک جرگے میں علاقہ مکینوں کے مسائل سن رہے تھے کہ ایک نامعلوم شخص
کمرے میں داخل ہوا ،شجاع خانزادہ سے مصافحہ کیا اور خود کش حملہ آور نے خود
کواڑا دیا جس کے نتیجے میں پوری عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ ذرایع کے مطابق
وزیر داخلہ کئی گھنٹے اسی ملبے تلے دبے رہے اور وزیر داخلہ پنجاب کی موت سر
میں چوٹ لگنے کے باعث واقع ہوئی،جو امدادی اداروں کی ناہلی کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔
اٹک خودکش دھماکے میں جاں بحق ہونے والے صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع
خانزادہ 28 اگست 1943ءمیں اٹک کے گاﺅں شادی خان میں یوسفزئی قبیلے میں پیدا
ہوئے۔ ایف ایس سی اور گریجویشن کے بعد1967ءمیں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔
1971ءکی پاکستان بھارت جنگ میں بھی حصہ لیا۔ انہوں نے 1974-78 اور 1982-83
کے دوران پاک فوج میں انسٹرکٹر اسٹاف کے سربراہ کے طور پر بھی فرائض
سرانجام دیے۔ 1983-85ءکے درمیان کمانڈر 13لارنسر بھی فرائض سر انجام دیے۔
انہیں ان کی خدمات کے اعتراف میں 1988ءمیں تمغہ بسالت سے نوازا گیا۔
1992-94ءمیں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستان کے ملٹری اتاشی کے طور پر بھی خدمات
سرانجام دیں۔ پاکستانی سفارتخانے میں بطور اطلاعات بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔
تین مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ پہلی مرتبہ 2002ءمیں ق لیگ
کی ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور وزیراعلیٰ پنجاب کے رابطوں اور
عملدرآمد کے بطور پہلے وزیر بنے۔ 2008ءکے انتخابات میں حلقہ پی پی 16اٹک سے
آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور کامیاب ہونے کے بعد مسلم لیگ ن میں
شمولیت اختیارکر لی۔ مئی 2013ءکے انتخابات میں تیسری مرتبہ پی پی 16اٹک سے
رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اس بار بھی انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر حصہ
لیا۔ انہیں وزیر ماحولیات کا قلمدان سونپا گیا۔ بعدازاں انہیں صوبائی وزیر
داخلہ کا چارج بھی دے دیا گیا اور صوبے میں وزیر داخلہ کا چارج سنبھالنے
والے پہلے رکن اسمبلی تھے۔ جبکہ خودکش حملے میں صوبائی وزیر داخلہ کے ہمراہ
جاں بحق ہونے والے ڈی ایس پی شوکت شاہ گیلانی ماسٹر ڈگری ہولڈر، شاعر اور
15 کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایم ایس سی
کی اور 1998ءمیں پی سی ایس کے تحت پنجاب پولیس میں انسپکٹر بھرتی ہوئے۔ اٹک
سمیت کئی اضلاع کے تھانوں میں ایس ایچ او تعینات رہے۔ پولیس کی نوکری کے
باوجود شوکت حسین شاہ ادبی ذوق رکھتے تھے، ان کی 15 کتابیں شائع ہوئیں۔
خودکش حملے میں صوبائی وزیر داخلہ کی موت پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف، صدر
ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف سمیت ملک کی اہم سیاسی و مذہبی شخصیات اور
غیر ملکی تنظیموں نے شدید مذمت کرتے ہوئے شجاع خانزادہ کی موت کو ملک و قوم
کے لیے بڑا المیہ قرار دیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا
اظہار بھی کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر)شجاع
خانزادہ پر کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو
واقعہ کی تحقیقات اور فوری مجرموں تک پہنچنے اور ماسٹر مائنڈ کو پکڑنے کا
حکم دے دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، سربراہ جے یو آئی مولانا
فضل الرحمن، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان،
امیرجماعت اسلامی سراج الحق، قائد ایم کیو ایم الطاف حسین، چودھری نثار علی
خان، مسلم لیگ ن کے قائدین، مسلم لیگ ق کے صدر شجاعت حسین، عوامی مسلم لیگ
کے سربراہ شیخ رشید، وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک سمیت دیگر سیاسی
و سماجی قائدین نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے شجاع خانزادہ کی موت کو قومی
نقصان قرار دیا۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے کہا ہے کہ سانحہ اٹک قابل
مذمت ہے۔ واقعے میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔
وفاق المدارس کے جنرل سیکرٹری مولانا حنیف جالندھری نے کہا ہے کہ وطن عزیز
کو دہشت گردی، قتل و گارتگری اور خون خرابے کی صورتحال سے نجات دلانے کے
لیے حکمران سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔
وزیرداخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر حملے کا مقدمہ تھانہ
رنگو میں درج کرلیا گیا۔ ایس ایچ او تھانہ رنگو غلام شبیر کی مدعیت میں
وزیرداخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ڈیرے پر حملے کا مقدمہ درج کیا
گیا، جس میں قتل، اقدام قتل اوردہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمے
میں پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کی دفعہ 16 بھی لگائی گئی ہے، جب کہ اس کے
علاوہ مقدمے میں ایکسپلوسیو ایکٹ کی دفعہ سمیت انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7،
427، 436، 324 اور 302 بھی شامل کی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اٹک میں وزیر
داخلہ پنجاب پر ہونے والے حملے کی ذمے داری دو کالعدم تنظیموں نے قبول کی
ہے۔ ذرایع کے مطابق جماعت الاحرار نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا
کہ حکمران جماعت اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس سے
قبل ایک ٹی وی کے مطابق لشکر جھنگوی نے بھی حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب کی سیکورٹی کے سب سے بڑے عہدے دار اور ذمہ دار
کا دہشتگردی کا نشانہ بن جانا متعلقہ اداروں کی اہلیت پر ایکبڑا سوالیہ
نشان ہے۔ خانزادہ کی شجاعت اپنی جگہ، تاہم سیکورٹی ادارے ایسے شخص کی حفاظت
سے کیوں غافل رہے جو دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ میں دوسرے تیسرے نمبر پر تھے۔ ایک
ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر خودکش
حملہ کرنے والا شخص پولیس کی وردی میں ملبوس تھا۔ ذرایع کے مطابق وزیر
داخلہ پنجاب کرنل (ر) شجاع خانزادہ نے 23 جون کو میڈیا کو دہشتگردوں کی طرف
سے دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا۔ دہشتگردوں نے انہیں ٹیلی فون پر کہا تھا کہ آپ
کو دیکھ لیں گے، جس پر بہادر شجاع خانزادہ نے جواب دیا تھا کہ مجھے اس بات
سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھمکیاں دینے والے دہشتگرد کون ہیں۔ کرنل (ر)
شجاع خانزادہ نے پاکستان میں کرکٹ روکنے کے لیے بھارتی ایجنسی ”را“ کی سازش
کو بے نقاب کیا تھا اور وہ بھارت کی دہشتگردی کی کارروائیوں کے حوالے سے
بلا خوف و خطر اظہار کرتے تھے۔ سیکورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر
داخلہ کی شہادت میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کا کردار مسترد نہیں کیا
جاسکتا، وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے خلاف کافی سرگرم تھے اور مئی میں ہونے
والے دورہ زمبابوے ٹیم کو سبوتاژ کرنے کی ”را“ کی کوششوں کو بھی ناکام
بنایا تھا، جبکہ گزشتہ دنوں سانحہ یوحنا آباد میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا
کردار سامنے لائے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان دو واقعات کی روشنی میں
ہوسکتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے شجاع خانزادہ کو شہید کرکے بدلہ لیا ہو،
جبکہ ”را“ کے پاس پنجاب میں خودکش بمباروں کا فعال نیٹ ورک موجود ہے۔ ذرایع
کا کہنا ہے کہ ”را“ کی سازش بے نقاب کرنے کے بعد انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔
دوسری جانب اٹک میں خودکش حملے کے بعد پنجاب بھر میں بڑا سرچ آپریشن بھی
شروع کردیا گیا ہے اور مشتبہ گروہوں کے مخصوص ٹھکانوں پر چھاپے مارے جارہے
ہیں۔ سیکورٹی کے ذمہ دار ادارے اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ صوبائی
وزیر داخلہ کے حفاظتی انتظامات میں وہ کونسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے اس
سانحہ کو نہ روکا جا سکا۔ حساس اداروںنے اٹک خودکش دھماکے کے ماسٹر مائنڈ
تک پہنچنے کے لیے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ واقعہ کے بعد اٹک،
حضرو، حسن ابدال اور گردونواح کے علاقوں میں کریک ڈاﺅن تیز کردیا گیا اور
مشکوک افراد کو حراست میں لیا جارہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے اٹک میں خودکش
حملے سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں امن و امان کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر
نہیں ہوا ہے۔ امن کی جو صورتحال پیدا ہوتی ہوئی نظر آرہی تھی، وہ عارضی
وقفہ ثابت ہوئی ہے ۔ اٹک حملے کو ملک کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی قرار دیا
جارہا ہے، اسی لیے اہم شخصیات کو غیر ضروری نقل و حرکت سے روک دیا گیا ہے
اور اہم شخصیات کی سیکورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے
واقعات کے سدباب کے لیے پیشگی اقدامات کرے۔ |
|