پاک چائنہ اقتصادی راہداری سبوتاژ کرنے کا بھارتی منصوبہ

شاہین اختر

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ دراصل پاکستان کی معاشی آزادی کا منصوبہ ہے جس کی کامیابی کے بعد ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کوئی قرض کے جال میں نہ پھنسا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی شرائط منوا سکتا ہے بلکہ دیانت دار قیادت کی صورت میں پاکستان قرض لینے والے ممالک سے نکل کر قرض دینے والے ممالک کی صف میں شامل ہو جائیگا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے لئے اپنے دفاعی منصوبوں، خودکفالت، تحقیق و ترقی کے لئے مطلوبہ فنڈز اور بجٹ کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستان کاازلی اور عملاً ابدی دشمن بھارت کو یہ منصوبہ کھٹکتا ہے۔ ویسے تو اس منصوبے کے مخالفین میں امریکہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے کیونکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل سے چین کو گرم پانیوں تک رسائی مل جائیگی اور امریکہ کو بھارت کی مدد سے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے منصوبے میں منہ کی کھانی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی شہ پر بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے خوفناک منصوبہ تشکیل دے دیا ہے ،بھارتی کی خفیہ ایجنسیرا نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو متنازع بنانے کیلئے 4 رکنی ٹیم پر مشتمل نیا سیٹ اپ تشکیل دے دیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھار ت نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی مخالفت اور دشمنی کاثبوت دیتے ہوئے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری بھارتی خفیہ ایجنسی را کو سونپ دی گئی ہے،بھارتی خفیہ ایجنسی نے انیل دھشمنا کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے اورانہیں پاک چین اقتصادی راہداری کو متنازع بنانے کیلئے مختلف ٹاسک سونپ دیئے گئے ہیں،چار رکنی کمیٹی میجر جنرل راجیشو سنگھ،جے ایس رمیش ،ویوک جوہری پر مشتمل ہوگی۔میجر جنرل راجیشو سنگھ کے ہمراہ2 جوائنٹ سیکرٹری بھی ہمراہ ہوں گے جو تمام عسکری امور کی نگرانی کریں گے جبکہ میجر جنرل راجیشو سنگھ کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ بنانے کیلئے گوادر ایکسپریس وے پردہشت گردانہ کارروائی کاٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔جے ایس رمین کو بلوچستان میں پاک چین منصوبے کو متنازع بنانے کیلئے ٹاسک سونپا گیا ہے جبکہ ویوک جوہری سندھ اور پنجاب میں پاک چین اقتصادی منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے اپنا حربہ استعمال کریں گے،انیل دھشمنا کو4 رکنی ٹیم کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے جو تمام کارروائیوں کی ایک جامع رپورٹ بھارتی خفیہ ایجنسیاں کو پیش کرے گا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف ڈھولک کی تھاپ پر نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر کہہ چکے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے دشمنوں کی شازشیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دی جائینگی۔ چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان پر لکھوی کی امداد کے الزامات کے تناظر میں بھارت کی طرف سے پابندیاں لگوانے کی کوشش ویٹو کردی تھی۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے بلوچستان میں خوشحالی آئیگی جبکہ روس سمیت کئی ممالک کے لئے پاک چین اقتصادی راہداری بحیرہ عرب تک رسائی کا مختصر ذریعہ بنے گی۔ روس اور امریکہ کی دوبارہ شروع ہونے والی سرد جنگ کے تناظر میں امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ روس کو پاک چین اقتصادی راہداری کی صورت میں گرم پانیوں تک رسائی مل جائے۔ روس کو گرم پانیوں تک رسائی نہ دینے کے لئے ہی ماضی میں امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ لڑی تھی۔ اب پاکستان اور روس کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے جبکہ چین اور روس کا اتحاد اور اشتراک عمل امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا بہترین توڑ ہے۔

ماضی میں جرمنی نے دنیا کے تیل کے بڑے ذخائر تک رسائی کے لئے برلن سے بغداد تک چارہزار چار سو تیئس کلو میٹر ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ اس منصوبے کے 5 بڑے مقاصد تھے۔ ایک، جرمنی سے عراق تک صنعت و تجارت سے خطے میں خوشحالی کا دور دورہ۔ دو، جنگی حالات میں ریل کو بطور ہتھیار استعمال کرنا۔ تین، عراق، شام، ترکی، بلغاریہ، سربیا، ہنگری، آسٹریلیا اور جرمنی کو ایک ٹریک کے ذریعے آپس میں ملا دینا۔ چار، بحیرہ فارس میں ایک جدید بندرگاہ کا قیام اور پانچ، عراق و شام کے تیل تک بآسانی رسائی۔ یہ وہ مقاصد تھے جس کی بنیاد پراس طویل ترین ریلوے لائن کا منصوبہ تشکیل پایا۔ یہ 1900 سے قبل کا دور تھا۔ اس زمانے میں جرمنی ایک بڑی طاقت کا روپ دھار رہاتھا۔ دوسری طرف امریکا، روس، برطانیہ اور جاپان کا طوطی بول رہا تھا۔ جرمن کے اس منصوبے کی بو پا کر امریکا، روس، برطانیہ اور جاپان کو لالے پڑ گئے۔ انہوں نے اس روٹ کو ناکام بنانے کے لیے سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا۔انہیں علم تھا اگر جرمن اس منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں سپرپاور بننے سے نہیں روک سکتی۔ دنیا کے تیل کے بڑے ذخائر ان کے ہاتھ آ جائیں گے اور اس سے جرمنی کی تجارتی اور دفاعی پوزیشن بھی ناقابل تسخیر ہو جائے گی۔ اس ریلوے لائن کو ناکام بنانے کے لیے آسٹریا اورسربیا میں شہزادی کے قتل پر کشیدگی پھیلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے فرانس اور جرمنی آمنے سامنے آ گئے اور پھر فرانس کے ساتھ امریکا، برطانیہ، روس، اٹلی، یونان پرتگال، رومانیہ اور سربیا کاندھے سے کاندھا ملائے میدان جنگ میں اترگئے۔ دوسری طرف جرمنی کی مدد کے لیے آسٹریا، ترکی اوربلغاریہ نے نعرہ لگا دیا۔ یوں یہ جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے ساتھ ساتھ اس ریل منصوبے کو بھی دفن کر دیا۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.