آزادی کے محض دو دن ہی گزرے تھے
کہ قوم کو پے درپے اچانک دو بڑی خبریں سننے کو ملیں جن کی شایداس کی کسی کو
بالکل بھی امید نہیں تھی ۔پہلی خبر جنرل ریٹائیرڈ حمید گل صاحب کی برین
ہمرج کی وجہ سے 79 سال کی عمر میں مری میں وفات تھی ۔ آپ 20 نومبر1936 کو
پیدا ہوئے 1956 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1992میں
ریٹائیرڈہوگئے ۔ آپ آئی ایس آئی کے بھی سربراہ تھے ۔
جزل حمید گل کو ایک متنازعیہ ہیرو کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ افغانستان کی روس
سے انخلاء میں آپ کے کردار کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی
کہا جارہا ہے کہ روس سے افغانستان کے انخلاء سے افغانی بہت سے گروپ میں
تقسیم ہوگئے جس سے ناختم ہونے والی خونریز لڑائی جاری رہی ۔ حمید گل صاحب
اسلامی نظام شریعت کے نفاذ کے حامی تھے اس لئے ان کے تعلقات بہت سی دینی
جماعتوں سے بھی تھا ۔ یہاں تک کہ کچھ کالعدم تنظیموں کے رہنماوں سے ان کی
تصاویر نے بھی بہت سے سوال کھڑے کر دیئے ۔
افغانستان کی مبینہ کامیابی سے پاکستان پر اس کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے
ان میں کلاشنکوف کلچر کا پاکستان میں فروغ پانا ۔ اسمگلنگ اورچرس کی کھلے
عام فروخت بھی ایک عرصہ تک پاکستان کے لئے درد سر بنی رہی ۔ اس کے علاوہ
افغانستان میں عورتوں کے حقوق پر بھی بہت سے تحفظات پیدا ہوئے جن میں
فرخندہ کی المناک موت نے افغانستان کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ۔ اس کے
علا وہ مختلف شدت پسند تنظیموں کا جنم ہوا جس سے دہشت گردی کی ناختم ہونے
والی فضا پروان چڑھی ۔ ان سب حقیقتوں کے ساتھ ۔ افغانستان نے کبھی بھی
پاکستان کے احسانات کو تسلیم نہیں کیا ۔بلکہ جب بھی موقع ملا پاکستان کے
خلاف زہر اگلتا رہا ۔جبکہ پاکستان نے ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کی افغان
مہاجرین کو پناہ دی ان تما م صورتحال میں روس کی شکست اور افغانستان کی فتح
پر بہت سے سوال اٹھائے گئے ۔ روس یہ جنگ ہار کے بھی جیت گیا ۔یہی وجہ ہے کہ
حمید گل صاحب پر تنقید کرنے والے ان تما م صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ان
پر تنقید کرتے ہیں ۔ جنرل صاحب نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے مدرسوں کے
قیام اور ان کی افادیت پر بھی کھل کے اظہار خیال کیا ۔
دوسری بڑی خبر وزیر خارجہ شجاع خانزادہ صاحب کی المناک موت سے متعلق ہے
جنہیں اٹک میں ان کے ڈیرے پر ایک خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا ۔ جس میں
17افراد جان سے گئے ۔ شجاع خانزادہ صاحب کی شہادت کو عالمی سطح پر غیر ملکی
میڈیانے اپنی بریکنگ نیوز کے طور جگہ دے کر ان کی بہادری کو بھر پور طریقے
سے سراہا ۔
اٹھائیس اگست 1943 کو پیدا ہوئے آپ کا تعلق پٹھان قبیلے یوسفزئی سے تھا ۔
شجاع خانزادہ صاحب نے ابتدائی تعلم اٹک اور نوشہرہ سے حاصل کی اور پھر 1966
میں اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے کیا ۔ 1967 میں پاک فوج میں شمولیت اختیار
کی اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھرپور حصہ لیا ۔
شجاع خانزادہ 1983 میں سیاچن کے محاذ پر پہنچنے والے اولین دستے میں شامل
تھے ۔1988 میں انھیں تمغہ بسالت سے نوازا گیا ۔ 1992 سے 1994 تک امریکہ میں
ملٹری اتاشی بھی رہے ۔کرنل ریٹائیرڈ شجاع خانزادہ کی سیاسی زندگی پر نظر
ڈالی جائے تو آپ پنجاب اسمبلی کے رکن رہے ۔ مشیر وزیر اعلی پنجاب کے فرائض
بھی انجام دیئے ۔ آپ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج کی معاونت کر رہے تھے ۔
اور کالعدم تنظیموں القائدہ کے کئی اہم کمانڈوز سمیت جرائم پیشہ افراد کے
خلاف موثر کاروائیاں بھی کیں۔ |