جنگ آزادی 1857اور مدارس اسلامیہ کے شاہین صفت مجاہدین کا کردار
(M D Arif Hussain Misbahi, India)
15اگست 1947ء کو ’تن کے گورے من
کے کالے ‘انگریز سامراج کی غلامی سے ہندوستان کے جیالوں نے اپنے لہو کاآخری
قطرہ دے کر بھارت کو آزادی دلائی جو در حقیقت غیر ملکی انگریزوں کے 1757ء
میں بنگال کے حکمراں نواب سراج ا لدولہ کا پلاسی کی جنگ میں انگریزوں سے
ہوئی شکست اور 1799ء میں سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد ملک کے اکثر حصے
پرغاصبانہ کنٹرول کے قیام اور 1800ء کے اختتام کے بعد غیر ملکی طاقت کے
پورے ملک میں قبضے اور ان کے پیہم ظلم و ستم جارحیت و سفاکیت، قتل و غارت
گری اور مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت کے رد عمل میں 11مئی 1857 سے
شروع ہو کر 21ستمبر 1857کو ختم ہونے والی ملک کی پہلی جنگ آزادی کی عظیم
قربانی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے ۔
جنگ آزادی 1857ء کی عام ناراضگی کے اسباب بیان کرتے ہوئے عدالت عالیہ مدراس
ممبر کونسل سر میلکم لوئن نے لندن کے ایک رسالے میں لکھا ہے ’’ہم نے
ہندوستانی ذاتوں کو ذلیل کیا ، ان کے قانونی وراثت کو منسوخ کیا ، بیاہ
شادی کے قاعدوں کو بدل دیا، مذہبی رسم رواج کی توہین کی ،عبادت خانوں کی
جاگیریں ضبط کیں ،سرکاری کاغذات میں انہیں کافر(بے دین ) لکھا ،امرا ء کی
ریاستیں ضبط کیں،لوٹ کھسوٹ سے ملک کو تباہ کیا ، انہیں تکلیف دے کر مال
گذاری وصول کی ،اونچے خاندانوں کو برباد کرکے انہیں اواراہ گرد بنانے دینے
والے بندو بست کئے‘‘(روشن مستقبل ص 109 - 110بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ انقلاب
1857ص:5)۔
اس جنگ آزادی میں انقلابی فوجیوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار ، ادبا، شعر
ا،علما ، مشائخ کرام ،عام مسلمین سب شریک تھے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس
آزادی کے لئے 1857ء میں ماحول تیار کرنے ، اور بالخصوص شمالی ہند میں
انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی
فضا برپا کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی دکھانے والوں میں مدارس اسلامیہ کے
فارغین علمائے اہل سنت و جماعت کے لوگ تھے،تو تاریخی لحاظ سے یہ حق بجانب
ہوگا کیوں کہ انگریزسامراج ایک طرف جہاں ہندوستانیوں کو ہر لحاظ سے ذلیل
اور کمزور کررہے تھے جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں گزراوہیں مسلمانوں کو
دین اسلام سے دور کرنے اوردرپردہ عیسائی بنانے کی منظم کوششیں بھی جاری
رکھے تھے جیسا کہ سرچارلس ٹرپولین کہتا ہے ’’میرا یقین ہے جس طرح ہمارے
بزرگ کل کے کل ایک ساتھ عیسائی ہو گئے تھے اس طرح یہاں (انڈیا) میں بھی سب
کے سب عیسائی ہوجائیں گے ملک میں مذہب عیسوی کی تعلیم بلا واسطہ پادریوں کے
ذریعے اور بالواسطہ کتابوں ، اخباروں اور یورپینوں سے بات چیت وغیرہ کے
ذریعے نفوذ کرے گی ،حتیٰ کہ عیسوی تعلیم تمام سوسائٹی میں نفوذ کرجائے
گی،تب ہزاروں کی تعداد میں(مسلمان ) عیسائی ہوا کریں گے‘‘(تاریخ ا لتعلیم ص
:69از سید محمود بحوالہ ماخذ سابق )۔ مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی
مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں انہوں(انگریزوں) نے تمام باشندگان ہند کو،
کیا امیر ،کیاغریب ، چھوٹے بڑے،مقیم و مسافر، شہری دیہاتی،سب کو نصرانی
(عیسائی)بنانے کی اسکیم بنائی‘۔۔۔ان سازشوں کے علاوہ ان کے دلوں میں اور
بھی بہت سے مفاسد چھپے ہوئے تھے مثلاً مسلمانوں کو ختنہ کرانے سے
روکنا،شریف و پردہ نشیں خواتین کا پردہ ختم کرنا نیز دوسرے احکام دین مبیں
کو مٹانا وغیرہ(باغی ہندوستان مترجم ص 31 )۔
ظاہر ہے مسلمانوں کے خلاف رچی جانے والی ایسی ناپاک سازش کو مدارس اسلامیہ
کے جیالے سپوت علمائے کرام کیسے برداشت کرسکتے تھے ؟اس لئے اس دور کے
مجاہدین اور اکابر علمائے کرام میں علامہ فضل حق خیرا
بادی(متوفٰی1278ھ)مفتی صدرا لدین آزردہ دہلوی(م:1285ھ)مولانااحمد ا ﷲ شاہ
مدارسی(م:1858ء)مفتی عنایت احمد کاکوروی(1279ھ) مولانا فیض احمد بدایونی ،
مولاناڈاکٹر وزیر خان اکبرآبادی(م:1279ھ1873ء)،مولانا وہاج ا لدین مرآدا
بادی (م :1274ھْ1858)مولانا رضا علی خان بریلوی جد امجد مولانا احمد
رضاخان(م :1286ھ 1869ء )مولانا بخش امام صہبائی دہلوی(م:1273ھ 1857ء )مفتی
مظہر کریم آبادی ، (اسی سالہ حکیم سعید ا ﷲ قادری (م :1907ء 1325ھ )مولانا
رحمت ا ﷲ کیرانوی(م:1308)۔وغیرہ شامل تھے(تفصیل کے لئے دیکھیں چند ممتاز
علمائے انقلاب 1857از مولانا ےٰسین اختر مصباحی )ان مجاہدین علما نے
انگریزی ظلم و استبداد کے خلاف 1857ء میں’’ فتوئے جہاد‘‘ دیا۔اور 1857کی
جنگ آزادی کی لڑائی کو’جہاد ‘کا نام دے کران کے خلاف ’جہاد ‘کو فرض قرار
دیا جس سے انگریزوں کی ہوا نکل گئی اور ہر طرف انگریز مخالف ماحول تیار ہو
گیا ۔
جیسا کہ مجاہد آزادی علامہ فضل حق اور دیگر علما کے فتویٰ جہاد کے بارے میں
مولانا عبد ا لشاہد خان شیروانی علی گڑھی مولف باغی ہندوستان ، تاریخ مولوی
ذکاء ا ﷲ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’علامہ (فضل حق ) سے جنرل بخت خاں ملنے
پہونچے ۔مشورے کے بعد آخری تیر ترکش سے نکالا ۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد میں
علما کے سامنے (انگریز مخالف جہاد کے لئے )تقریر کی ،استفتا پیش کیا ، مفتی
صدر ا لدین خاں آزردہ صدر ا لصدور دہلی، مولوی عبد ا لقادر (بدایونی)،قاضی
فیض ا ﷲ دہلوی ، مولوی فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خان اکبرآبادی،
سید مبارک شاہ رام پوری نے (اس فتوئے جہاد پر )دستخط کردئے، اس فتوے کے
شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی اور (دیکھتے ہی دیکھتے ) دہلی میں
نوے ہزار سپاہ جمع ہو گئی تھی(مقدمہ تحقیق الفتویٰ ص : 215بحوالہ ماہنامہ
اشرفیہ انقلاب 1857 )۔معروف مور خ رئیس احمد جعفری اپنی تاریخ ’’بہادر شاہ
ظفر اور ان کا عہد ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ہم نے غدر کے جن ہیروں کا ذکر کیا
ہے ان میں سے صرف بخت خاں اور فضل حق خیرابادی دو ایسی شخصیتیں ہیں جنہوں
نے دہلی کے محاربات غدر میں مرکز نشیں ہو کر حصہ لیا ۔امتیاز حق ص
:40بحوالہ ماخذ سابق ص:73)۔ اور دوسری جگہ اسی کتاب میں لکھتے ہیں ’’وہ
(علامہ فضل حق )انگریزوں سے نفرت کرتے تھے اور انگریزوں کو نکالنے کے لئے
ہر منظم اور باقاعدہ تحریک میں حصہ لینے پر دل و جان سے آمادہ رہتے تھے
چنانچہ جب غدر شروع ہوا تو مولانا بے تامل شریک ہوئے وہ بہادر شاہ کے معتمد
مقرب اور مشیر تھے ،ان کے دربار میں شریک ہوا کرتے تھے انہیں اہم معاملات
اور مسائل پر مشورہ دیتے تھے اور اس بات کے مساعی تھے کہ آزادی کی یہ تحریک
کامیاب ہواور انگریز اس دیش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائیں ،مولانا
نے دلیری اور جرات کے ساتھ علانیہ حصہ لیا( باغی ہندوستان ص : 275-76
بحوالہ ماخذ سابق)۔
دیوبندی مکتب فکر کے عالم دین مولانا حسین احمد مدنی ، جنگ آزادی میں علامہ
فضل حق اور بعض معاصر علما اور ان کے تلامذہ کے بڑے پیمانے پر شرکت کے
حوالے سے لکھتے ہیں ’’بہر حال مسلمان علما میں سے مولانا احمد ا ﷲ شاہ
مدراسی، دلاور جنگ مدراسی اور مولانا فضل حق خیرابادی اورمولانا بخش امام
صہبائی اور ان حضرات کے تلامذہ (شاگردوں) وغیرہ نے جہاد حریت 1857ء میں بڑے
پیمانے پر حصہ لیا(باغی ہندوستان ص:271بحوالہ ماخذ سابق)۔محمد اسمعیل پانی
پتی اپنے مضمون 1857ء مین علمائے کرام کا حصہ ‘ میں رقم طراز ہیں ’’جب
1857ء کا ہنگامہ عظیم دہلی میں رونما ہوا تو علامہ فوراً دہلی پہونچے اور
جہاد کا فتویٰ دیا جنرل بخت خان کمانڈر انچیف افواج ظفر سے ملے اور اس کی
بڑی اعانت کی۔(ماخذ سابق ص : 272)۔پاکستان کے مشہورپروفیسر محمد ایوب قادری
علامہ کے دہلی اور الور دونوں جگہ کے جہاد میں شریک ہونے اور اس پر جلا
وطنی کی سزا پانے کے بارے میں لکھتے ہیں ’’جنگ آزادی 1857ء میں مولانا فضل
حق نے حصہ لیا ،دہلی میں جنرل بخت خان کے شریک رہے ، لکھنو میں بیگم حضرت
محل کورٹ کے ممبر رہے آخرمیں (انگریزوں کے ذریعے)گرفتار ہوئے مقدمہ چلا اور
حبس و دوام عبور دریائے شور(کالاپانی )کی سزا ہوئی( باغی ہندوستان ،ص:
275)۔
1857ء کی کامیابی وطن کے گندم نما جو فروش جو اپنوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے
تھے ان کی دغا بازی سے شکست میں تبدیل ہو گئی اور اس کے بعد زبردست طریقے
سے انگریزوں نے ہندوستانیوں کا خون بہایا اور ایک اندازۂ کے مطابق تقریبا ً
پانچ لاکھ مسلمانوں کو پھانسی دی گئی۔ اور مدارس اسلامیہ کے فارغین علما
کرام چونکہ انگریز مخالف مہم میں پیش پیش تھے اس لئے علمائے کرام کو کثرت
سے پھانسی اور کالا پانی کی سزا دی گئی جیسا کہ انگریز ی فوجی افسر ہنری
کوٹن دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد علما کے قتل و غارت گری کا منظر بیان
کرتے ہوئے لکھتا ہے’’دہلی دروازے سے پشاور(پاکستان )تک گرینڈ ٹریک روڈ کے
دونوں ہی جانب شاید ہی کوئی خوش قسمت درخت ہوگا جس پر انقلاب 1857ء کے رد
عمل اور اسے کچلنے کے لئے ہم نے ایک یا دو عالم دین کو پھانسی پر نہ لٹکایا
ہو۔ایک اندازہ کے مطابق تقریباً22000علمائے کرام کو پھانسی دی گئی ‘‘(ایسٹ
انڈیا کمپنی اور باغی علما ، ص :23 بحوالہ ماہنامہ اشرفیہ انقلاب
1857ص:105)
ایک اورانگریزمورخ ایڈورڈ ٹامسن اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے
1864سے 1867ء تک انگریزوں نے علما کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ تین سال
ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں ان تین سالوں میں انگریزوں نے
14000علما کرام کو تختہ دار پر لٹکادیا دلی کے چاندنی چوک سے خیبر(پاکستان)
تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر علما کی گردنیں نہ لٹکی ہوں ،علما کے جسم
کو تانبے سے داغا گیا ،سور کی کھال میں لپیٹ کر جلتے ہوئے تندور میں ڈالا
گیا ،ہاتھیوں پر کھڑا کرکے درختوں سے باندھ کرہاتھیوں کو نیچے سے چلادیا
گیا،(جنگ آزادی اور وطن کے جاں باز ص : 56بحوالہ ماخذ سابق)۔
پہلی جنگ آزادی 1857ء میں بطل حریت علامہ فضل حق خیرآبادی کی انگریز مخالف
اشتعال انگیزی ، اسلامی جوش و خر وش اور ملی جذبہ سے سرشار کی طرح دیگر
علما و قائدین میں مفتی کفایت علی کافی مرآدابادی ،بطل حریت مفتی عنایت
احمد کاکوروی(ولادت :/9شوال ا لمکرم 1228ھ مطابق 15 اکتوبر1813ء)مفتی صدر ا
لدین آزردہ دہلوی ،مولانا مولوی سید ا حمد ا ﷲ شاہ مدارسی((1858-1788بھی
تھے ۔جنگ کی ناکامی کی صورت میں گرفتار ہوئے مجاہدین علما کر ام کو دیگر
لوگوں کے ساتھ جزیرۂ انڈمان کالا پانی کی سزا سنائی گئی جہاں کے بارے میں
بارے میں کالا پانی کی سزا کاٹ رہے مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرا بادی
فرماتے ہیں’’ نسیم صبح بھی گرم و تیز ہو ا سے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر
ہلاہل سے زیادہ مضر تھی، اس کی غذا حنظل سے زیادہ کڑوی،اسکا پانی سانپوں کے
زہر سے بڑھ کر ضرر رساں،اس کا آسمان غموں کی بارش کرنے والا، اس کا بادل
رنج و غم برسانے والا ، اس کی زمین آبلہ دار اس کے سنگ ریزیں بدن کی
پھنسیاں ، اس کی ہوا ذلت و خواری کی وجہ سے ٹیڑھی چلنے والے تھی ، ہر
کوٹھری میں چھر تھا جس میں رنج و مرض بھرا ہوا تھا ،میری آنکھوں کی طرح ان
کی چھتیں ٹپکی رہتی تھیں ، ہوا بدبو دار اور بیماریوں کا مخزن تھیں،مرض
سستا اور دوا گراں،بیماریاں بے شمار ،خارش و قوبا(وہ مرض جس سے بدن کی کھال
پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے عام تھی، بیمار کے علاج تندرست کی بقائے صحت اور
زخم کے اندمال کی کوئی صورت نہ تھی‘(الثورۃ ا لہندیہ78-77از:علامہ فضل حق
خیرابادی ترجمہ مولانا عبد ا لشاہد شروانی)
پہلی جنگ آزادی 1857ء میں بطل حریت علامہ فضل حق خیرآبادی کی انگریز مخالف
اشتعال انگیزی ، اسلامی جوش و خر وش اور ملی جذبہ سے سرشار کی طرح دیگر
علما و قائدین بھی تھے جن کی قربانیوں سے واقفیت حاصل کرنا ملت کے نو
نہالوں کے لئے آج کے اس دور میں اور بھی ضروری ہوگیا ہے کیوں کہ بر سر
اقتدار مرکز کی بی جی پی سرکار اور اس کے وزرانے جہاں ایک طرف اچھے دن کا
وعدہ کرکے بھارتی مسلمانوں سمیت اور مدارس اسلامیہ کے لئے برے دن پیدا کرنے
کی کوشش شروع کردی ہے وہیں بھارت اور اس کے حقیقی مجاہدین کی تاریخ مسخ
کرنے کی بھی جانب حکومت گامزن ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے 15اگست 1947ء
کوبھارت ک آزادی ،میں مدارس اسلامیہ کے فارغین مجاہدین کو بھی یاد رکھا
جائے اور ان کے نام سے کنونشن منعقد کیا جائے تاکہ جہاں ایک طرف ملت کے نو
نہالوں کوان کی خدمات اور تاریخ سے واقفیت حاصل ہو وہیں ان کے اندر ومزیدطن
پرستی کا جذبہ بھی پیدا ہواوروہ ملک کے فرقہ پرستوں کو بتا سکیں کہ بھارت
کی آزادی میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ (مولانا ) محمد عارف حسین مصباحی
کنوینر :تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ ہوڑہ8820090073 |
|