موسمیاتی تبدیلیوں ‘کے وزیرکو بیرون ملک کا موسم راس نہیں آیا
(Dr Rais Samdani, Karachi)
موسمیاتی تبدیلیوں کے وفاقی وزیر
سینیٹر مشاہد اﷲ خان جو گزشتہ دنوں بیرون ملک دورے پر تھے بی بی سی کی اردو
سروس کو انٹر ویو دیتے ہوئے ایسی باتیں کہہ گئے جن کی پاداش میں انہیں
وفاقی کابینہ کی رکنیت سے مستعفی ہونا پڑا۔خان صاحب جو چرب زبانی میں اپنا
ثانی نہیں رکھتے، بے وقت ، بے محل اور بے موقع غیر ضروری گفتگو کر کے وزارت
سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2015 کودھرنوں ، احتجاجی و سیاسی معرکوں کے ساتھ ساتھ
استعفٰوں کا سال بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ دھرنوں کی بات تو بہت ہوچکی اس کی
حقیقت پر آخری کیل کیمشن کی رپورٹ نے ٹھونک دی۔جہاں تک استعفوں کا تعلق ہے
تو یہ سلسلہ جاوید ہاشمی سے شروع ہوا تھا آخری خبریں آنے تک ہماری اسمبلیاں
ایم کیو ایم کے استعفوں کی لپیٹ میں ہیں اور میڈیا ان استعفوں سے خوب خوب
مزے لے کر وقت پاس کررہا ہے۔ استعفٰے دو قسم کے سامنے آئے ایک انفرادی اور
دوسرے اجتماعی، اجتماعی استعٰفے سے مراد ایسے استعٰفے جو کسی سیاسی جماعت
نے مشترکہ طور پر دیے، جیسے تحریک انصاف اور ایم کیوایم نے اجتمائی طور پر
احتجاجاً اور تحفظات کے نتیجے میں دیے اور انفرادی استعٰفے جیسے مخدوم
جاوید ہاشمی ، نبیل گبول اور پیپلز پارٹی کی علیزے حیدر نے اپنی اپنی
نششتوں سے اسپیکر کو استعٰفے پیش کردئے۔ ایسے استعٰفے بھی مارکیٹ میں آئے
کہ جنہیں طلب کرنے کے مطالبات کیے گئے، جیسے گو نواز گو کے نعرے کے ساتھ
وزیراعظم کو استعٰفی دینے ، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو بھی استعٰفی
دینے کے مطالبات سامنے آئے جو وقت کے ساتھ دم توڑ گئے اس لیے کہ وہ بے وقت
کے راگ تھے۔
سینیٹر مشاہد اﷲ خان صاحب کا استعٰفی ایک منفرد استعٰفی ہے۔ جو اپنی مرضی
سے، خوشی سے، کسی وجہ کے باعث، مطالبات اور تحفظات کی صورت میں پیش نہیں
کیا گیا بلکہ یہ استعفیٰ وزیر اعظم نے عسکری قوت اور سول جمہوری حکومت کے
مثالی تعلقات میں غلط فہمی سے بچاؤ کے لیے طلب کیا، اس استعفیٰ کا تعلق خان
صاحب کی سینٹ کی رکنیت سے نہیں بلکہ وہ جس وزارت کے چیف تھے اس سے عہدے سے
ان کا استعٰفی طلب کیا گیا یعنی اب وہ پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے لا
تعلق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بڑے تغافلانہ عارفانہ اندازمیں اپنا ردِ عمل ظاہر
کرتے ہوئے فرمایا کہ’ انہیں وزارت کی کوئی پروا نہیں‘، واقعی ہونی بھی نہیں
چاہیے اس لیے کہ انہیں پوری امید ہے کہ کچھ عرصہ بعد جب ان کے بیان کے
نتیجے میں جو صورت حال پیدا ہوئی اس پربرف پڑجائے گی، لوگ اسے بھول جائیں
گے تو خان صاحب کو پھر کوئی اور محکمہ سپرد کردیا جائے گا۔ وہ اپنی پارٹی
کے سرگرم ہی نہیں بلکہ گرما گرم ، کرو فر اور مخالفین کو ٹاک شوز کی میز پر
سخت سے سخت جملے ، حتیٰ کہ غیر پارلیمانی الفاظ اور جملوں تک کے استعمال سے
گریز نہ کرنے والے کھلاڑی گردانے جاتے ہیں۔ لیکن وہ خواہ کتنے ہی کرو فر
رکھتے ہوں اس وقت تو ان کا سارا کرو فر دھڑام سے زمین بوس ہوگیا، جب انہیں
فوری طور پر غیر ملک سے واپسی کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی فوری استعفیٰ دے
دینے کے سخت احکامات دیے گئے جس کے نتیجے میں انہوں نے پاکستان آکر استعٰفی
دینے کا انتظار نہیں کیا بلکہ ای میل کے ذریعہ ہی پاکستان کی سرحدوں سے دور
رہتے ہوئے اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کا پروانہ میل کردیا۔ ساری
اَکڑپُھوجاتی رہی، روب و دب دبا ڈھیر ہوا، کرخت زبانی اور بد زبانی کچھ کام
نہ آئی۔ ان کی جگہ مخدوم جاوید ہاشمی ہوتا تو اس بے عزتی پر سینٹ کی رکنیت
کے ساتھ ساتھ پارٹی رکنیت کو خیر باد کہہ کر گھر بیٹھ جاتا۔ کاش ہمارے
سیاست دانوں
میں اتنا حوصلہ پیدا ہوجائے۔
مشاہد اﷲخان کے استعفیٰ سے دیگر پارلیمانی اراکین کو خواہ ان کا تعلق کسی
بھی سیاسی جماعت سے ہو اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہیے کہ پارٹی لیڈر کسی
بھی صور اپنے دامن میں آئے ہوئے دھبے کیا ایک دھبہ بھی برداشت نہیں کرتا۔
پارٹی کا کیسا ہی وفادار، کام آنے والا، مشکل میں ساتھ نبھانے والا ،
مخالفین کو سخت سے سخت جواب دینے والا، جیالا، سرخا، سبزا،جاں نثار تحریکیا
ہی کیوں نہ ہو، اس کی اپنی جماعت کے لیے قربانیاں ہی کیوں نہ ، سچ گو،
ایماندار ، مخلص ،طویل ساتھ نبھانے والا ،عمر میں بڑا یا چھوٹا، نیک نام ہو
یا بد نام اگر اس کی وجہ سے لیڈر بہادر پر حرف آئے تو پارٹی سربراہ تمام
باتوں کو پسِ پشت ڈال کر اسے آسمان سے زمین پر پھینک دینے کا اختیار رکھتا
ہے۔ ایسی مثالیں ہماری سیاست میں بے شمار پائی جاتی ہیں۔ کپتان عمران خان
نے اپنے دھرنے میں مخدوم جاوید ہاشمی کے ساتھ کیا سلوک کیا، جسٹس ریٹائرڈ
وجہہ الدین کو سر پر بٹھایا اور پھر اب اس کے سفید بالوں کی سفیدی کا بھی
خیال نہ کیا۔یہی حال مشاہد اﷲ خان کے ساتھ بھی ہوا بقول کالم نگار الطاف
حسین قریشی ’ان کی اپنی جماعت کے لیے بڑی قربانیاں ہیں ،وہ کھردرے انداز
میں سچ بات کہنے کی شہرت رکھتے ہیں، مگر یوں لگا کہ وہ تنے ہوئے رسے پر
چلتے ہوئے توازن قائم نہ رکھ سکے‘۔ یہ بات بہت واضح طور پر بے شمار تجزیہ
نگاروں نے کہی کہ مشاہد اﷲ نے کوئی نئی بات نہیں کہی، البتہ کہنے کا انداز،
مقام ، وقت مناسب نہیں تھا۔انہوں نے بیرون ملک اس طرح کا بیان دے کر حکومت
وقت کو شرم شار کیا۔ موجودہ حالات میں جب کہ سول و عسکری قوتیں ایک پیچ پر
رہتے ہوئے ملک کے اندر اور بیرونی دشمنوں سے برسرِ پیکار ہیں ، گھڑے مردے
بے وقت اکھاڑنے کے مترادف تھا۔ جو خان صاحب نے اپنے زور خطابت میں دکھایا۔
وزیر دفاع کی مثال دی جاتی ہے، کہ وہ بھی اسی قسم کی گفتگو کرچکے ہیں، دیگر
کئی لوگ اس جانب اشارہ کرچکے ہیں، بقول کالم نگار طارق بٹ(21اگست روزنامہ
جنگ)مشاہد اﷲ نے جو کچھ کہا وہ پی ٹی آئی کے رہنما بریگیڈ یئر (ر) سائمن سے
بالکل مختلف نہیں تھا۔ اپنے انٹر ویو میں بریگیڈیئر صاحب نے یہ دعویٰ کیا
تھا کہ دراصل ظہیر الا سلام وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو لڑا
کر دونوں کی چھٹی کرنا چاہتے تھے۔تاکہ وہ خود ٹیک اوور کرسکیں ، مگر اس
انٹر ویو پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا شاید اس وجہ سے کہ وہ ایک اہم آدمی
تھے نہ کہ وفاقی وزیر۔ وفاقی وزیر کی طرف سے اس طرح کے بیانات کی اہمیت کچھ
اور ہوتی ہے‘۔ اس کا عملی مشاہدہ پوری قوم نے مشاہد اﷲ خان کے معاملے میں
دیکھا۔
مشاہد اﷲ خان صاحب ایک سینزن سیاست داں ہیں، پڑھے لکھے ہیں، عمر رسیدہ ہیں،
سیاسی سمجھ بوجھ کے حامل ہیں انہیں از خود سوچنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان
کی نمائندگی کرنے بیرون ملک گئے تھے۔ پاکستان کے سیاسی معاملات سے پردہ
اٹھانا مقصد نہیں تھا۔یہی وجہ تھی کہ انٹر ویو نشر ہوتے ہی وزیر اعظم نے
خان صاحب سے فوری استعٰفی طلب کیا، ان سے ان کے بیان کی وضاحت طلب کی،
وزیراعظم کے ترجمان نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ جس ٹیپ کا ذکر کیا گیا ہے
اس کا کوئی وجود نہیں۔ وزیر اعظم کو ایسی کوئی ٹیپ کا علم نہیں اورنہ ہی
کوئی ٹیپ کسی کو سنائی گئی‘۔ وزیر اطلاعات نے بھی موسمیات و تغیرات کے وزیر
کے اس بیان کی سختی سے تردید کی اور اس واقعہ کو من گھڑت قرار دیا۔ اسی طرح
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی میڈیا میں چلنے والی اس خبر اور ٹیپ سے متعلق
خبر کو بے بنیاد اور حقیقت سے دور قرار دیا۔ٹیپ کیا تھی، مشاہد اﷲ نے کیا
تفصیل بیان کی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ اپنے دیے گئے انٹر ویو
میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ خان صاحب یہ کہتے بھی نظر آئے کہ’ انہوں نے یہ
گفتگو اپنے کانوں سے نہیں سنی البتہ انہیں اس گفتگو کا علم دوسروں کے ذریعہ
ہوا اور یہ کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں‘۔ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ
اس قدر اہم اور بلند منصب پر فائز شخص سنی سنائی باتوں کا اظہار اس طرح بر
ملا کرے جیسے وہ از خود اس جگہ موجود تھا۔ اسے اقتدار کا نشہ، گھمنڈ، غیر
ذمہ داری کے سوا اورکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ انہیں اس کی جو سزا ملی وہ ان کے
جرم کے مقابلے میں کم ہے۔
اگر یہ بات وزیر موصوف نے درست بھی کہی تو یہ ان کا منصب اور مقام نہیں
تھا۔ وہ اپنی جماعت میں اپنی حیثیت، وزیراعظم سے اپنی قربت ، اعتماد اور
بھروسے کے نشے میں ضرورت سے زیادہ آگے نکل گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منہ کے بل
دھڑام سے گرا دئے گئے۔ وزیراعظم نے بروقت درست قدم اٹھایا، معاملے پر وقتی
طور پر مٹی پڑ گئی، لیکن یہ سزا اس جرم کے مقابلے میں کم دکھائی دیتی ہے۔
سر دست خان صاحب کو ملکی معاملات سے دور رکھنا بہتر ہوگا۔ ابھی کل (20اگست)
کو وزیراعظم کراچی تشریف لائے جہاں انہوں نے کئی تقاریب میں شرکت کی اس میں
اہم میٹنگ اپیکس کمیٹی کی میٹنگ تھی جس میں مشاہد اﷲ خان بھی شریک نظر
آئے۔یہ کچھ اچھا تاثر نہیں تھا۔ ہمارا تو خیال تھا کہ یہ عمل دوسروں کے لیے
مثال بنے گا، وہ آئندہ احتیاط سے کام لیں گے، بیان بازی کرتے وقت اس بات کا
خیال رکھیں گے کہ کوئی بات ایسی نہ کریں جو ان کے منصب اور عہدہ سے بڑھ کر
ہو۔ لیکن اس عمل سے جو سامنے آیا یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ خان صاحب سے
استعٰفی وقتی طور پر معاملے پر پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ محض ایک تھپڑ
تھا جو وزیراعظم نے سزا سمجھتے ہوئے وزیر موصوف کے منہ پر دے مارا اور پھر
اگلے ہی لمحے اسے گلے سے لگا لیا اور آئندہ یہ عمل نہ کرنے کی ہدایت کردی۔
مشاہد اﷲ خان کا یہ عمل معمولی نوعیت کا نہیں تھا۔ سوال یہ نہیں کہ انہوں
نے کون سی ایسی بات نئی کہی سوال یہ ہے کہ اس عمل سے پاکستان کا وقار
بیرونی دنیا میں مجروح ہوا ہے، ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے اور عسکری قوت میں
غلط تاثر گیا ہے۔ موجودہ سیاسی صورت حال، ملک میں جاری آپریشن اور دیگر
حالات کے تناظر میں بہتر یہی تھا کہ اس قسم کے موضوعات کو نہ چھیڑا
جائے۔وقاتی طور پر یہ معاملا سرد خانے میں چلا گیا ہے لیکن کسی بھی وقت اس
پر سے گرد صاف ہوگی تو کئی سوال اٹھیں گے۔ کئی دوسرے جواسی قسم کے بیانات
دے کر استثنیٰ لیے ہوئے ہیں اور وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں انہیں بھی جواب
دینا ہوگا۔ (21اگست2015) |
|