کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اور۔ کوئی
کہتا ہے پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا۔ کس وجہ سے قائم رہے گا اندلس کیوں قائم
نہیں رہا۔ اسپین کیوں بن گیا۔ میری سمجھ میں تو نہیں آیا۔ تو ایک خواہش
میرے دل میں پیدا ہوئی۔ کاش میں ملک پاکستان سے انٹرویو کر سکتا۔ رات ہوئی
تو آواز آئی میرا انٹرویو کرنا چاہتے ہو۔ میں نے پوچھا آپ کون۔ آواز آئی
پاکستان۔ آپ دیں گے میں نے پوچھا۔ پوچھو کیا پوچھنا ہے۔ بہت کچھ۔ میں نے
جواب دیا۔ اچھا چلو پوچھ لو۔ میں نے انٹرویو لیا اپنے لئے اور آپ کیلئے۔
پیش ہے۔ آپ بھی پڑھ لیں۔
سوال ۔ کیا آپ میرے سامنے آ کر بیٹھ سکتے ہیں؟
جواب ۔ ایک نہایت خوبصورت میدانوں، دریاؤں، سبزے اور لہاتی فصلوں پر پر
مشتمل ایک خوبصورت جسم میرے سامنے ظاہر ہو گیا۔ جگہ جگہ، زخم تھے۔ خون نکل
رہا تھا۔ بیٹھ گیا۔ جواب ملا۔
سوال ۔ آپ کے زخم میرے منہ سے نکلا۔
جواب ۔ رستے رہتے ہیں ۔ انٹرویو کرو۔
سوال ۔ آپ کا حال ٹھیک نہیں ہے۔ کیسے کروں۔
جواب۔ 63 برس سے یہی حال ہے۔
سوال۔ اوہ کس نے کیا۔ سیاستدانوں اور جرنیلوں نے۔
جواب۔ نہیں ۔
سوال ۔ تو پھر کس نے کیا۔
جواب۔ میرے عوام نے۔
سوال ۔ عوام نے۔ لیکن کیسے۔ میں سمجھا نہیں۔
جواب۔ سمجھاتا ہوں۔ مجھے عوام نے بنایا تھا۔ لیکن بنا کر مجھے اکیلا چھوڑ
دیا۔ مجھے اکیلا پا کر سیاستدانوں نے جمہوریت جمہوریت کے نعرے لگائے مجھے
پکڑ لیا۔ آج میرا حال تم دیکھ ہی رہے ہو۔
سوال۔ آپ نے عوام کو مدد کیلئے پکارا۔
جواب۔ 63 برس سے پکار رہا ہوں۔ کوئی سنتا ہی نہیں۔
سوال۔ سیاستدانوں نے جب آپ کو پکڑا تو آپ نے کہا کہ وہ جمہوریت جمہوریت کر
رہے تھے۔ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ کیا آپ کو کچھ سمجھ آئی ہے۔
جواب۔ صاف بات ہے۔ ہر کوئی اپنے مقصد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ مجھے بنانے
والوں کا مقصد اسلامی نظام تھا انہوں نے اسلام کا نعرہ لگایا۔ سیاستدانوں
کا مقصد جمہوری نظام تھا انہوں نے جمہوریت کا نعرہ لگایا۔
سوال۔ اور جرنیلوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔
جواب۔ سیاستدانوں جیسے ہی ہیں ۔
سوال۔ آپ کی عوام آخر گئی کہاں۔ ان کا مقصد اسلام تھا اس مقصد کا کیا ہوا۔
جواب۔عوام ہے تو یہیں ہے لیکن نہیں ہے۔
سوال۔ کیا مطلب۔
جواب۔ مجھے بنانے والے مسلمان قوم کہلاتے تھے۔ ان کا مقصد اسلام تھا۔ لیکن
مجھے بنا کر پہلے انہوں نے اپنی قوم تبدیل کی۔ مسلمان سے پاکستانی قوم بن
گئے اسلام کا مقصد چھوڑ کر بہت سارے دوسرے مقاصد بنا لئے اور مجھے
سیاستدانوں کیلئے اکیلا چھوڑ دیا اور ان کا مقصد جمہوریت ہے۔
سوال۔ قوم تبدیل کر لی اس کا کیا مطلب ہے۔
جواب۔ جب میں نہیں تھا تو مجھے بنانے والے مسلمان کے نام سے پہچانے جاتے
تھے۔ مسلمان ہونا کہلانا ہی ان کی اصل طاقت تھی۔ لیکن جب مجھے بنا لیا تو
یہ مسلمان سے پاکستانی میں تبدیل ہو گئے۔ اپنی طاقت ختم کر دی اور پھر
سندھی، پنجابی، بلوچی، بنگالی بن گئے۔ انہوں نے اپنی طاقت اپنا اتحاد اپنے
ہی ہاتھوں ختم کر لی۔ جب مجھے بنانے والوں میں اتحاد نہ رہا۔ تو میرے بھی
دو ٹکڑے ہو گئے مجھے کاٹ دیا گیا اور میرے دوسرے حصے کا نام بنگلہ دیش رکھ
دیا گیا۔
سوال۔ آپ نے کہا کہ اسلام کا مقصد چھوڑ کر دوسرے مقاصد اپنا لئے۔ اس کی
وضاحت کریں۔
جواب۔ اصل میں جب مجھے بنا رہے تھے تو اس وقت ان کا نظریہ تھا کہ مسلمان
اور ہندو دو علیحدہ قومیں ہیں اور ہمارا رہن سہن اور زندگی گزارنے کا طریقہ
ہندوؤں سے الگ ہے لہٰذا ہم ان کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ نظریہ ان کا مقصد
تھا۔ ان کی طاقت تھی۔ لیکن جب میں بن گیا تواپنی زندگی گزارنے کے طریقے کو
ہندوؤں سے علیحدہ کہنے اور سمجھنے والوں نے ہندوؤں کے طور طریقے اسطرح
اپنائے جیسے ان کا مقصد ہی یہی تھا۔
سوال۔ مثلاً کیسے۔ اس کی تفصیل بتائیں۔
جواب۔ اس کی تفصیل کی کیا ضرورت ہے۔ چند مثالیں ہی کافی ہیں۔ پہلے مسلمانوں
کی اکثریت نماز پڑھا کرتی تھی۔ آج اکثریت ہندوؤں کی فلمیں ڈرامے دیکھنے کا
کام کرتی ہے۔ ہندو خود بھی یہی کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی شادی کرنے اور
ہندوؤں کی شادی کے طریقے میں برائے نام ہی فرق ہے۔ میرے (پاکستان) کے پیدا
ہونے سے پہلے سود کا کاروبار ہندوؤں کا شعار تھا۔ آج یہاں سارا کاروبار
سودی ہے ہندوؤں کی تقلید ہے۔ ہندوؤں کے فلمی ہیرو یہاں کے لوگوں کے بھی
ہیرو ہیں۔ غریب لوگوں کو حقیر سمجھنا اور ان کی حق تلفیاں ہندوؤں کا معاشرے
کا رواج تھا۔ آج یہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بسنت ہندوؤں کا تہوار ہے یہاں
بھی منائی جاتی ہے۔ ہندو چاہتے تھے کہ مسلمان ایک علیحدہ ملک بنانے کی
بجائے ان کے طریقوں پر چلیں۔ مسلمانوں نے علیحدہ ملک پاکستان (مجھے) بنا کر
شادی بیاہ کے معاملات میں ان کے طریقے اپنا کر فرق مٹا دیا۔ ہندو چاہتے تھے
کہ مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ جائیں۔ گروپس میں بٹ جائیں تاکہ یہاں کے
مسلمانوں کا اتحاد ختم ہو جائے۔ ان کی خواہشوں کو میرے اندر بسنے والوں نے
خود عملی جامہ پہنا دیا ہے۔ ہندو چاہتے تھے کہ پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہ
بنے ان کی اس خواہش کو بھی یہاں کی عوام نے پورا کیا ہے۔ میرے دو ٹکڑے کرنا
ہندوؤں کی دیرینہ خواہش تھی۔ عوام نے ان کی خواہش خاموش تماشائی بن کر
بخوبی پوری کی ہے۔ پہلے جب مسلمان داڑھی رکھتے تھے تو ہندو مسلمانوں کی
داڑھی سے نفرت کرتے تھے۔ آج مجھ میں بسنے والے یہ کام خود ہی کر لیتے ہیں۔
دودھ ہو یا مرچ ۔ شہد ہو یا کوئی اور چیز خالص کہنے کا رواج ہے لیکن خالص
بیچنے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ اب تم خود ہی سوچو ۔ کیا یہ سب اسلام ہے۔ کیا
یہی وہ مقاصد تھے جن کیلئے مجھے بنایا گیا تھا۔ کیا یہی نظریہ پاکستان تھا۔
مقاصد تبدیل ہوئے یا نہیں۔ میں نے جلدی سے سر ہلا کر تائید کی اور اگلا
سوال کر دیا۔
سوال۔ چلیں آپ یہ تو مانیں گے کہ عورتوں نے تو بڑی ترقی کی ہے۔
جواب۔ کتنی ترقی کی ہے۔ کیا چاند پر پہنچ گئی ہیں ۔ کتنی ایجادات کی ہیں۔
سوال۔ چلیں یہ تو مانتے ہیں کہ یہاں کہ لوگوں کی ہی بدولت آپ آج ایک ایٹمی
قوت ہیں۔
جواب۔ ہوں ۔۔ایٹم بم کی بات کرتا ہے۔۔ کیا اسی لیے ایٹم بم بنایا تھا کہ
ایٹم بم بنا کر غلامی کے سارے ریکارڈ توڑ دیں۔
سوال۔ کرپشن کے بارے میں کچھ کہیں گے۔
جواب۔ہا ہا ہا ہا۔ مجھے کہنے کی کیا ضرورت ہے ہر گلی ہر محلے میں کرپشن خود
ہی سب کچھ کہتی پھر رہی ہے۔
سوال۔ یہ پولیس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
جواب۔ جیسے عوام ویسے سیاستدان۔ جیسے عوام ویسے جرنیل۔ جیسے عوام ویسی
پولیس۔۔اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔
سوال۔ فوج کے بارے میں کیا خیال ہے۔
جواب۔ عوام ہی میں سے ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے فوج نہ ہوتی تو نہ جانے اس وقت
میرا کیا حال ہوتا۔ میرے زخمی وجود کو تو دشمنوں نے کاٹ کر پھینک دیا ہوتا۔
سوال۔ آپ نے کبھی نصاب تعلیم دیکھا ہے۔
جواب۔ ہاں دیکھا ہے مسلمان کہلانے والوں نے مجھے اسلام کے نام پر بنایا
تھا۔ ۔ جب مجھے بنانا تھا اس وقت اپنے اسلاف کے گن گاتے تھے اور اب غیر
مسلموں کے گن گاتے ہیں۔ نصاب میں بھی اور نصاب کے باہر بھی۔
سوال۔ وہ کیسے۔
جواب۔ تعلیمی نصاب غیر مسلموں کے تذکرے سے بھرا پڑا ہے۔ بچوں کو بچپن ہی سے
ذہنی طور پر غیر مسلموں سے منسلک کیا جا رہا ہے۔ جیک اینڈ جل کی جگہ محمد
بن قاسم کے قصے بھی تو پڑھائے جا سکتے تھے۔
اور قارئین اس کے ساتھ ہی مجھے اپنا انٹرویو روکنا پڑا کیونکہ بم دھماکوں
کی وجہ سے پاکستان کی پہلے سے خراب حالت شدید بگڑ گی تھی۔ اگر مھے موقع ملا
تو باقی انٹرویو کے ساتھ پھر کبھی حاضر ہوں گا۔ |