ٹربیونل رپورٹ ۔۔۔عمران خان کا جشن!

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد چیئر مین پی ٹی آئی کو شرمندگی سے بچنے کے لیے کوئی حربہ حاصل نہ ہو رہا تھا کہ کافی کھچڑی پکنے کے بعد مورخہ 22 اگست 2015کو قومی اسمبلی کے حلقے 122 کی رپورٹ منظر عام آگئی صبح سے لے کر شام تک پی ٹی آئی اور ن لیگ کے جتھے کشمکش کا شکار رہے شام سات بجے فیصلہ آگیا اور الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا گیا ری پولنگ کے احکامات جاری کیے گئے رپورٹ 80 صفحات پر محیط تھی اس میں تمام بے ضابطگیوں کو بیان کیا گیا تھا اور وہ محرکات سامنے آئے جن سے یہ ظاہر ہوا کہ ایک بڑی حد تک انتخابی معرکہ متاثر ہوا۔اس حلقہ کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلقہ ہے جہاں سے وہ منتخب ہوئے الیکشن 2013 میں ایاز صادق کے مدِمقابل عمران خان تھے پچھلے سال اس ہی ماہ میں سیاسی بھونچال شروع ہوا لیکن اس سے پہلے اسمبلی میں پی ٹی آئی چار حلقوں کا رونا روتی رہی جن میں شکوک و شبہات تھے لیکن کسی نے بھی ان کے اِن اسمبلی احتجاج کو افادیت نہ دی اور پھر پی ٹی آئی کے اس اصلاحی مظاہرے کو طول پکڑتے دیر نہ لگی اور 126 دن کا دھرنا دیا گیا۔ایاز صادق ایک آبرو دار شخصیت ہیں اور سلجھے ہوئے سیاسی اکابرین میں شمار ہوتے ہیں پی ٹی آئی کی جانب سے منظم دھاندلی میں ن لیگ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے لیکن دراصل یہ الیکشن کمیشن پاکستان کی خامیاں ہیں غیر تجربہ کار اسٹاف کی کم عقلی ہے جنہوں نے انتخابات کو خلط ملط کردیا ،متنازعہ بنا دیا۔اس الجھاوُ نے قوم کو تناوُ کا شکار کردیا اور ملکی پائداری کو داوُ پر لگادیا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جمہوریت کو پٹری پر چلتے رہنے دینا چاہیے اور کسی کو اپنے اقتدار پر براجمان ہونے کی جلدی ہے۔اس سے قبل بھی قومی اسمبلی کے حلقہ 125 کو ٹربیونل نے کالعدم کہہ دیا تھا لیکن سپریم کورٹ سے رجوع کے بعد فیصلے کو مسترد کردیا گیا تھا۔عمران خان صبح سے لے کر شام تک شدید پریشان نظر آرہے تھے لیکن فیصلے سے کچھ دیر پہلے ہی وہ پُر اطمینان دکھائی دیے اور ساتھ ہی دھرنے کا عندیہ دے دیا اس دور اندیشی کے باعث کے اگر سپریم کورٹ فیصلہ منسوخ کرکے ایاز صادق کو بحال نہ کردے اور یہ ہونے کہ وافر امکانات ہیں لیکن چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر منٹ کے قریب ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی انوکھا ورڈکٹ دے دیں ۔عمران خان چالف کی زد میں ہیں اوردھرنے کا دوبارہ آغاز کرنے کے لیے اتاوُلے ہوئے جارہے ہیں۔سربراہ پی ٹی آئی نے فیصلہ آتے ہی لاہور میں تحریکِ انصاف کے نئے افتتاح کردہ سیکریٹریٹ میں جشن منایا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا اور چونکہ یہ فیصلہ آفیشل ٹائم گزرنے کے بعد سنا یا گیا اس میں تاخیر ہوئی تو موجود لوگوں نے اس نتیجے کو تاریخ ساز قرار دیا حالانکہ تحقیقات نے کوئی نیا رُخ اختیار نہیں کیا وہ ہی باتیں جو سب جانتے ہیں کے ایک بڑی حد تک غلطیوں کا طوفان برپا ہوا۔پی ٹی آئی متعلقہ ٹربیونل پر تنقید کرتی رہی ہے لیکن NA 122 کا رزلٹ آنے کے بعد ان چار جج حضرات کے لیے ان کی محبتیں جاگ گئی ہیں انہیں سر آنکھوں پر رکھا جارہا ہے اور اگر یہ ہی فیصلہ ان کے خلاف سنادیا جاتا تو ان ہی کے خلاف مزید پروپگنڈہ شروع ہوجاتا۔ایاز صادق نے ٹریبونل کی بات کی پاسداری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اخلاقی طور پر میں ایم این اے نہیں رہا لیکن سپریم کورٹ سے رجو ع کرنا میرا حق ہے اور میں سُرخرو ہوجا وُنگا اور وزیرِاعظم نے بھی قانونی تقاضوں کا احترام کرنے کا کہا۔پاکستان تحریک انصاف کی نظر میں یہ فیصلہ تعزیری ثابت ہوا ان کے اسٹانس کے عین مطابق البتہ اس نتیجہ میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ نواز لیگ نے دھاندلی کرائی بلکہ اس سب کو عملے کا نقص کہا گیا ہے۔ٹربیونل نے ایاز صادق کو منسوض کیا انہیں بے ضابطیاں کروانے کا سرغنہ ہر گز نہیں کہا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی نیا سیاسی بحران پھر تو راہ نہیں تک رہا؟۔ اﷲ نہ کرے کہ پھر سے کوئی عدم استحکام پیدا ہو اور ملک افراتفری لی لپیٹ میں آجائے لہٰذا سیاسی مدبرین کو اپنے مفادات بالائے طاق رکھ کر ملک کی سلامتی کے لیے مل بیٹھنا چاہیے۔ ’’بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جُوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی‘‘ -

Waqar Butt
About the Author: Waqar Butt Read More Articles by Waqar Butt: 31 Articles with 25246 views I am student at Government College University Lahore plus freelance columnist .. View More