میرے دل کو سکون کچھ تو ملا

جو بوؤ گے...وہی کاٹو گے۔ جیسا کرو گے... ویسا بھروگے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ذرا سی دیر ہو جائے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ ارے خالقِ کائنات ہے کوئی دنیاوی جج نہیں کہ حالات کے مطابق فیصلے سنائے۔
آج میں بہت خوش ہوں اور جس فیصلے کا انتظار۲۵سال سے تھا، آہی گیا. (یہ واقعہ فروری ۱۹۹۰ کا ہے)۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر عاصم (چئیرمین پبلک سروس کمیشن، مالک ضیاء الدین اسپتال و نواسہ سر ضیاء الدین ) گرفتار ہو گیا۔اُس نے جان بوجھ کر میرے بہنوئی حفظ الرحمٰن خان کوایکسپائرڈ انجیکشن نہیں لگایا تھا بلکہ اس کے ایڈمن آفیسر محمّد اقبال نے میری ڈیمانڈ پر ثبوت مجھے مہیّا کر دیا کیونکہ اس کا اپنا نو زائیدہ بیٹا بھی عاصم کی لا پرواہی کی وجہ سے یرقان سے انتقال کر گیا تھا ویسے بھی خدا ترس افر مشہور تھا۔ میرے بہنوئی اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹے کی نوکری کی تلاش کے بعد گھر واپس آ رہے تھے کہ کریم آباد پر موٹر سائیکل پھسل کر گر ی تو ماتھے پر معمولی سی خراش آئی، بیٹا اینٹی ٹیٹنس انجیکشن لگوانے نارتھ ناظم آباد کے ضیاءالدین اسپتال لے گیا۔ میں خبر سن کر پہنچا تو بذاتِ خود عاصم سے تفصیل چاہی، پہلے تو بات کرنے سے انکار کردیا لیکن میرے اصرار پرآئی سی یو میں جانے کی اجازت یہ کہہ کر دی کہ ان کے سر میں شدید چوٹیں آئی تھیں اور اسپتال پہنچنے سے پہلے انتقال ہو چکا تھا، میں نے کہا موٹر سائیکل پر انتقال ہؤا اور یہ گرے نہیں تو کہا کہ بس یہاں ایمرجنسی میں پہنچتے ہی انتقال ہؤا، میں کیا کر سکتا تھا۔ میرے بھانجے کو بولنے سے منع اس لئے کردیا کہ اس کی صدمے سے حالت ٹھیک نہیں جبکہ وہ تگڑا جوان مجھے سنبھلنے میں مدد اور جھگڑے سے منع کر رہا تھا۔ آئی سی یو میں جاتے ہوئے لفٹ میں ایڈمن آفیسر نے کہا "آپ دیکھ نہیں پائیں گے، ان کی سر کی حالت بہت خراب ہے" پہنچ کر لاش دیکھنے کی اجازت نہ ملنے پر میرے ہنگامہ کرنے پرکفن ہٹایا تو ان کا سر جگہ جگہ سے پھولا ہؤا تھا، بھانجہ بھی دیکھ کر حیرانی سے بولا "ماموں سر پہ تو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ میں نے آئی سی یو کے انچارج کو اپنی چھوٹی بہن کے جیٹھ آغا سید سعادت علی آئی جی سندھ کا حوالہ دیا تو ایک طرف لے جا کر سرگوشی میں بتایا کہ ہمیں حکم تھا ان کے سر پر ضربیں لگا دو، ہم نے لگوا دیں۔ میں بھاگ کر عاصم کے پاس نیچے پہنچا تو اپنے کمرے میں موجود نہ تھا بتایا گیا کہ ایمرجنسی میں کہیں باہر چلے گئے اور کہہ گئے ہیں "اُن سے کہنا پہلے حادثہ کی ایف آئی آر کٹوائیں پھر لاش ملے گی"۔

بہر حال میں نے لاش تو حاصل کر لی لیکن ۳ ماہ چکّر لگانے اور ایڈمن آفیسر سے باہر ملاقاتوں کے بعد حقیقت پہ مبنی سرٹیفیفکیٹ بھی حاصل کر لیا۔ اُن کی لائف انشورنس ای ایف یو (عطا تبسّم صاحب کی کمپنی) سے دلوانے میں بھی ایڈمن آفیسر محمد اقبال نے بے حد مدد کی۔ان تین ماہ کے دوران عاصم کے گارڈز نے مجھے اس کے دفتر میں داخل نہ ہونے دیا۔ ۲۰۱۳ سے پچھلے ہفتہ تک میں تین بار ایمرجنسی میں کلفٹن کے ضیا الدین اسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں جاکر داخل رہ چکا ہوں، بہترین علاج اور عمدہ سہولیات میسّر ہیں کیونکہ عاصم اب ڈاکٹر نہیں بلکہ وزیر اور چئیر مین ہائر ایجوکمیشن ہے۔جئے زرداری، جئے نواز۔ کیونکہ عظیم لیڈر بھٹّو کو دنیاوی ججوں نے سُولی پر لٹکا دیا اور لُٹیروں کی عیش ہو گئی۔ ٹائپ کرنے کے دوران غیر معمولی کیفیت تبدیل کرنے کیلئے آخری جملہ لکھنا ضروری تھا کیونکہ ابھی مجھے اپنے بچّوں کیلئے زندہ رہنا ہے، باقی اُس کی مرضی۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 182 Articles with 149963 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More