ذوالفقار علی بھٹو.... تاریخ پاکستان کا ایک زندہ اور لازوال کردار

ایٹمی پاکستان کے بانی،قائدِ عوام فخر ایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر خصوصی تحریر

یہ اپریل 1945ء کی بات ہے جب تحریک پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے بام عروج پر تھی اور مسلمانان ہند کے ”لے کر رہیں گے پاکستان بٹ کر رہے گا ہندوستان “ کے نعروں سے پورا برصغیر گونج رہا تھا، بچے، بوڑھے، جوان سب کا ایک ہی مطالبہ تھا ایک آزاد و خود مختار سرزمین کا حصول، جس میں وہ اپنی زندگی اپنی معاشرتی روایات اور مذہبی اقدار کے مطابق بسر کرسکیں، گویا حصول پاکستان مسلمانان برصغیر کا خواب ہی نہیں انکی جدوجہد کی حقیقی منزل بھی تھا، اُس زمانے میں ایک طالبعلم نے اپنے محبوب لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا، جس میں اُس نے لکھا”ڈیئر سر.......صوبہ سرحد میں جو سیاسی صورتحال پیدا ہوئی ہے، اُس نے مجھے اتنا جذباتی اور برانگیختہ کردیا ہے کہ میں اپنے قائد کو اِس کے متعلق لکھنے کی جرات کررہا ہوں،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج مسلمانوں کو یہ محسوس کرلینا چاہیے کہ ہندؤ بنیئے ہمارے ساتھ کبھی مخلص ومتحد نہیں ہوسکتے،وہ ہمارے قرآن اور ہمارے پیغمبر کے شدید ترین دشمن ہیں، یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ آپ ہی ہمارے قائد اور رہنما ہیں، جناب آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم اور ایک جھنڈے تلے اکٹھا کیا ہے اور ہر مسلمان کا یہی نعرہ ہے کہ ”پاکستان کی طرف بڑھو، ہماری قسمت پاکستان ہے “ہماری منزل و مقصد پاکستان ہے، ہمیں آپ کی ذات میں ایک قابل رہنما مل گیا ہے، اب ہمیں کوئی بھی منزل مقصود کی طرف جانے سے نہیں روک سکتا، میں حیران ہوں کہ شیخ محمد عبداللہ اور اُن جیسے ڈاکٹر خان صاحب وغیرہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہتے ہیں جب کہ انہوں نے کانگریس کی پالیسیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، میرا دل ڈوبنے لگتا ہے جب میں مسلم لیگ کے خلاف اُن کی بیہودہ تقریریں پڑھتا ہوں، کیا وہ اتنے ہی بے خبر ہیں یا اُن کی حبّ الوطنی کا یہی تقاضہ ہے؟ ہزاروں لاکھوں عبداللہ بھی مل کر ہم کو یقین نہیں دلاسکتے کہ ہم غلطی پر ہیں، اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے، کیونکہ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ہم آپ سے کس قدر متاثر ہیں اور ہمیں آپ پر کتنا فخر ہے، ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں ابھی اِس قابل تو نہیں ہوں کہ مادر وطن قائم کرنے کیلئے(آپ کی) کوئی مدد کرسکوں،لیکن ایک وقت ایسا آئے گا،جب میں پاکستان کیلئے اپنی جان قربان کروں گا۔“

بیس اپریل 1945ء کو سولہ سال کی عمر میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھنے والے نوجوان طالبعلم ذوالفقار علی بھٹو تھے، کس کو معلوم تھا اتنی کم عمری میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھ کر اپنی وفاداری اور ملک کیلئے جان دینے کے عزم کا اظہار کرنے والا طالبعلم ایک دن پاکستان کا وزیراعظم بنے گا اور 4اپریل 1979ء کو ایک فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر کے اپنے دور طالبعلمی کے عہد پر ایفا کی مہر ثبت کرے گا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو کی دوسری بیوی خورشید بیگم کے یہاں پیدا ہوئے، جو ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، جاگیردارانہ پس منظر کی وجہ سے خاندان میں خورشید بیگم کو وہ عزت و احترام حاصل نہیں تھا، جس کی وہ مستحق تھیں، یہ خاندانی تفاوت ذہین و فطین بچے ذوالفقار علی بھٹو کے قلب و ذہن پر گہرا انقلابی اثر مرتسم کر گیا،ایک انٹرویو میں خود بھٹو صاحب اِس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”میری والدہ ایک معمولی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، انہوں نے مجھے غریبوں اور مفلسوں کی تکلیفوں سے آگاہی دی،اِس کے علاوہ جب میں والد صاحب کے ساتھ دورے پر جاتا تو غریبوں کی حالت زار دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتا،بمبئی اور سندھ کے اندرونی حصوں کی معاشی حالات میں غیر معمولی فرق تھا،اِس فرق نے افلاس کے نقوش میرے ذہن پر اور بھی گہرے کردیئے“ چنانچہ بھٹو بچپن ہی سے طبقاتی اونچ نیچ، معاشرتی ناہمواریوں اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف ہوگئے۔

وہ اپنی آخری کتاب”اگر مجھے قتل کردیا گیا “میں اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” 1935ء میں جب میری عمر سات سال تھی،میرے والد اُس وقت بمبئی کی حکومت میں وزیر تھے ایک دن بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے میرے والد کو تینوں بیٹوں کے ہمراہ چائے کی دعوت پر بلایا،جب میرے بڑے بھائی امداد علی جن کی عمر 21سال تھی کا تعارف ہوچکا تو گورنر نے بھائی کے بارے میں کہا ”کتنا خوبصورت اور جوان آدمی ہے،امداد علی نے ایک تربیت یافتہ ارسٹو کریٹ ہوتے ہوئے جواب دیا ”میں اپنے آپ کو بہت مسرور اور مغرور سمجھتا ہوں کیونکہ میری تعریف ہمارے خوبصورت گورنر نے کی ہے،جب میری باری آئی تو میں نے باریک آواز میں کہا ”ہزایکسی لینسی گورنر اس لئے خوبصورت ہیں کیونکہ وہ ہمارے خوبصورت ملک کے خون پر پلتے ہیں،لارڈ برابورن میرے اِس جواب پر ششدر رہ گیا ایک لمحے تک وہ حیرت زدہ میری طرف دیکھتا رہا اور پھر میرے والد سے کہنے لگا ”شاہنواز اِس میں تمہیں ایک شاعر اور انقلابی ملا ہے۔“بھٹو صاحب لکھتے ہیں ”یہی سب کچھ ہے جو میں اِن سارے برسوں میں رہا ہوں،ایک شاعر اور ایک انقلابی اور جب تک میرے جسم میں سے آخری سانس نہیں نکل جاتی ہیں یہی رہوں گا۔“

ذوالفقار علی بھٹو کا شمار بیسویں صدی میں جنوبی ایشیاء کے عظیم انقلابی رہنماؤں میں ہوتا ہے،وہ ایک ایسے رہنما تھے جو ناصرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں عوام میں بے حد مقبول تھے اور دنیا بھر بالخصوص مسلم دنیا کے سربراہ مملکت اُنہیں خاص محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو بے انتہا ذہانت،اعلیٰ سیاسی بصیرت،لاجواب تدبر اور دو طرفہ تعلقات کے امور کے ماہر تھے،وہ ابتدا ہی سے ایشیائی امور میں مغرب کی مداخلت کے کڑے مخالفوں میں سے ایک تھے، بھٹو ”سامراج“ کے خاتمے،اقتصادی آزادی اور خودکفالت کے حامی اور زندگی بھر اس موقف کے زبردست داعی رہے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کی جائے،بھٹو کہتے تھے ”نوآبادیاتی دور ختم ہورہا ہے،اب ایشیاء اور افریقہ میں نئی طاقتیں ابھر چکی ہیں،ایشیائی قیادت کے سامنے بنیادی مسئلہ اُن کی خود مختاری کے چیلنج کا ہے،مغرب میں ایشیائی قیادت کو جس دن برابری اور مساوات کی بنیاد پر تسلیم کرلیا گیا اُس دن عالمی امن کے تقاضے پورے ہوجائیں گے“اپنی اسی انقلابی فکر کی وجہ سے وہ زندگی بھر سامراجی حلقوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے،1963ء میں وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جان کینڈی کی پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات میں امریکی صدر بھٹو کی ذہانت اور وسعت علمی سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے بھٹو سے کہا کہ ”اگر آپ امریکن ہوتے تو میری کابینہ میں وزیر ہوتے “ جناب بھٹو نے برجستہ جواب دیا ”مسٹر پریذیڈنٹ محتاط رہیں اگر میں امریکن ہوتا تو آپ کی جگہ ہوتا۔“

پاکستان کے نوجوان وزیر خارجہ کی بلاکی ذہانت،خود اعتمادی اور بے باکی نے امریکی صدر کو ہلا کر رکھ دیا اور اسی دن سے بھٹو کے باغیانہ خیالات کی وجہ سے امریکن خفیہ ایجنسیوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ایک دن یہ شخص امریکہ کیلئے درد سر بنے گا، چنانچہ انہوں نے بھٹو کے نام کے گرد سرخ دائرہ لگا دیا، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو 1957ءمیں 29سال کی عمر میں پہلی بار اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سب سے کم عمر رکن ہونے کا اعزاز ملا،بھٹو کی خداداد ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے اسکندر مرزا نے انہیں اپنی کابینہ میں بطور وزیر شامل کیا،28اکتوبر 1958ءکو جنرل ایوب خان نے بھٹو کو اپنی حکومت میں وزیر معدنیات مقرر کیا اور 23جنوری 1963ء کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ کے انتقال کے بعد جناب بھٹو کو وزارت خارجہ کا قلم دان سپرد کیا گیا،یہ پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کا نکتہ آغاز تھا،بھٹوصاحب کے دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی جن خطوط پر استوار ہوئی اور جس ماہرانہ انداز سے بھٹو نے اسے آگے بڑھاتے رہے،وہ مغربی طاقتیں بالخصوس امریکہ کیلئے درد سر تھا۔

چھ ستمبر 1965 کو رات کے اندھیرے میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کی جنگ لڑی اور چین، انڈونیشیا، سعودی عرب، ایران، ترکی، عراق، مصر، اردن، الجزائر، شام، سوڈان، یمن، مراکش، لیبیا، کویت کی حکومتوں کو پاکستان کی اخلاقی اور مالی امداد پر رضامند کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی، جس کے ایک ایک لفظ سے زندگی حرارت اور جذبوں کی سچائی عیاں تھی،جناب بھٹو نے اقوام عالم کو مخاظب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے“اُن کا یہ جملہ پاکستان کے عوام کے دلوں کی دھڑکن اور جذبوں کا امین تھا،اقوام متحدہ میں بھٹو کی تقریر نے قوم کے حوصلوں کو بلند کردیا،مگر افسوس کہ جنگ کے میدانوں میں جیتی ہوئی بازی جنرل ایوب خان نے تاشقند میں مزاکرات کی میز پر ہار دی،16جون 1966ءکو بھٹو صاحب نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور 30نومبر 1967ءکو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ کر ملک میں عوامی جدوجہد کا آغاز کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20دسمبر 1971ءباقی ماندہ پاکستان کی باگ دوڑ سبنھالی۔

وہ پاکستان کی پہلی شخصیت تھے جس کی سوچ اور فکر کے منفرد،انقلابی اور تخلیقی انداز نے ایشیائی سیاست میں انقلاب آفریں تبدیلیاں پیدا کیں،افریشائی اتحاد،پاک بھارت تعلقات اور پاک چین دوستی کے متعلق بھٹو صاحب کا انداز فکر و عمل عالمی سامراج کے مقاصد کیلئے زہر ِ قاتل ثابت ہوا،جس کی وجہ سے اُسے جنوب مشرقی ایشیاء میں اپنی پالیسیوں کے تسلسل میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا،اِسی وجہ سے بھٹو صاحب کو کئی بار خریدنے کی بھی کوشش کی گئی،ایک بار امریکی صدر جانسن نے انہیں کہا تھا کہ ”ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ، تمہیں جتنی دولت چاہیے، وہ دنیا کے جس حصے میں چاہو گے مل جائے گی“اِس موقع پر بھٹو نے قومی غیرت اور جذبہ حب الوطنی سے لبریز جواب دیتے ہوئے امریکی صدر جانسن کو کہا تھا کہ”ہم غیرت مند قوم ہیں کوئی بکاؤ مال نہیں ہیں“لالچ، دھونس، دھاندلی اور دھمکیوں کے باوجود بھٹو نے پاکستان کی سالمیت، استحکام، ترقی اور عوام کی خدمت کا پُر خار راستہ منتخب کیا،اُن کے دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ 7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی و سینٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور 10اپریل 1973ءکو متفقہ آئین کی منظوری تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی پاکستان کے اولین معمارو بانی اور اسلام کی نشاط ثانیہ کے سب سے بڑے علمبردار تھے،ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو دفاعی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، مشہور نقاد و دانشور جناب حسن نثار ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر دور کے کارناموں کو یوں بیان کرتے ہیں”چند سالہ دور اقتدار میں لاتعداد محاذوں پر لڑنے والا بھٹو، کراچی میں ایٹمی بجلی گھر بنانے والا بھٹو،90ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ ہندوستان سے چھڑانے والا بھٹو،اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اور اوپن یونیورسٹیاں ایجاد کرنے والا بھٹو،چواین لائی،اور سوئیکارنو سے لے کر برئینڈرسل تک کا فیورٹ بھٹو،آئین سے لے کر شاہراہ قراقرم تک کا معمار بھٹو،پورٹ قاسم کی تعمیر،چشمہ بیراج سے لے کر فرانس اور کینیڈا کے ساتھ دو ایٹمی معاہدے کرنے والا بھٹو، وزارت مذہبی امور بنانے سے لے کر 17لاکھ ایکڑ زمین بے زمین ہاریوں میں بانٹنے والا بھٹو،غریب عوام کو شریک اقتدار کرنے والا بھٹو،کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے ہزار سال تک لڑنے والا بھٹو اور عالم اسلام کو نیم وفاق کی زنجیر میں باندھنے کی سعی کرنے والا بھٹو۔“

پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی سعی کرنا ذوالفقار علی بھٹو کا سب سے بڑا جرم تھا، جو امریکہ کی نظر میں ناقابل معافی جرم تھا،امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرے اور مسلم ممالک کو متحد و منظم کرے چنانچہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ”اگر تم نے ایٹمی پروگرام ترک نہیں کیا اور اس منصوبے سے باز نہیں آئے تو تمہارا انجام عبرت ناک ہوگا“اس دھمکی کو سن کر جناب بھٹو نے نہایت بہادری سے جرات مندانہ جواب دیتے ہوئے کہا تھا ”مسٹر ہنری کسنجر یہ پاکستانی قوم کا حق ہے اور پاکستانی قوم اپنے حق سے دستبرار نہیں ہوسکتی، میں یہ پسند کروں گا کہ چند جرنیل میری لاش کو سڑکوں پر کھینچتے پھریں، لیکن قوم سے غداری کر کے میں تاریخ کا مجرم نہیں بنوں گا“بھٹو اپنے اسی ناکردہ جرم کی پاداش میں امریکی ایماء پر ایک فوجی آمر کے ہاتھوں 4اپریل 1979ءکو تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے۔

بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے اپنی آخری ملاقات میں بھٹو نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ”میں اپنے اجداد کی زمینوں کی طرف واپس جا رہا ہوں،تاکہ اِس سرزمین کا اِس کی خوشبو اور اِس کی فضا کا حصہ بن جاؤں،خلق خدا میرے بارے میں گیت گائے گی، میں اُن کی کہانیوں کا جاوداں حصہ بن جاؤں گا۔“آج قائد عوام، فخر ایشیاء ذوالفقار علی بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے31 برس گزر چکے ہیں، لیکن قوم کے دل و دماغ اُن کی یادوں سے آج بھی معطر اور ترو تازہ ہیں، وہ تاریخ پاکستان کا ایک ایسا زندہ و لازوال کردار ہیں، جس کے عزم وحوصلے،جرات و بہادری،بے مثال تدبر اور فہم و فراست سقوط پاکستان کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی تشکیل نو کا باعث بنی۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314210 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More