ڈاکٹر قدیر کا مقدمہ قوم کی عدالت میں

گزشتہ چند سال سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ناکردہ گناہوں اور ملک و قوم سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ایک ایسا شخص جس کو مغرب میں نہ صرف زندگی کی ہر سہولت بہ آسانی دستیاب ہو بلکہ وہاں کی حکومتیں اسے عزت و احترام کی اعلیٰ و ارفع بلندیوں پر رکھیں، جب اس نے مسلم امہ اور پاکستان کی خدمت کی ٹھانی تو انتہائی نامساعد حالات میں، اپنی اور اپنے خاندان کی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر، صرف اور صرف ایک مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے وہ کام کیا جو اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کسی دوسرے مسلمان سے نہ ہوسکا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب پورا ہوگیا، پاکستان ناقابل تسخیر ہوگیا، وہ ہندو بنیا جو ایک دن پہلے تک پاکستان کو کھلی جارحیت کی دھمکیاں دیتا تھا اس کی گھگھی بندھ گئی۔ پوری مسلم امہ کو اور پاکستانی قوم کو باالخصوص ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر فخر ہے، وہ ان کا محسن ہے۔ مشرف کی آمریت سے قبل جتنی بھی حکومتیں ذالفقار علی بھٹو کے بعد تخت نشیں ہوئیں ان سب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تعریف و توصیف کی اور حتی المقدور ان کے کام میں ان کی مدد کی گئی۔ لیکن پھر اس ملک پر، اس کے آئین پر اور اس کے عوام پر دوبارہ شبخون مارا گیا۔ کسی بھی شخص کے کوئی آئینی و قانونی حقوق نہ رہنے دئے گئے جب تک کہ اس نے مشرف کو اپنا آقا تسلیم نہ کرلیا۔ نیب کے ذریعہ ایسے ایسے مجرموں کو جان کی امان اور ان کی کرپشن کو تحفظ دیا جن کو کڑی سزائیں ملنا چاہئیں تھیں۔ قوم کے اربوں روپے ڈکار جانے والے لوگوں کو پہلے اسمبلیوں میں ”بھرتی“ کیا گیا اور بعدازاں کابینہ میں۔ اسی دوران جب مشرف کے بڑے ”آقا“ کا حکم موصول ہوا تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ”تر نوالہ“ سمجھتے ہوئے دبوچ لیا گیا۔ بلیک میلنگ، غنڈہ گردی، دھونس اور طاقت کے غلط و بیجا استعمال سے قوم کے ہیرو کو ”زیرو“ بنانے کی کوشش کی گئی۔ مشرف نے چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین کو استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو یقین دہانی کرائی کہ اس وقت چونکہ ملک کو خطرات درپیش ہیں اس لئے آپ ان کاموں کو قبول کرلیں جو آپ نے کئے تو نہیں لیکن جن کی وجہ سے آج پاک آرمی اور ملک پر کڑا وقت آن پڑا ہے اور ہم آپکو بہت تھوڑے عرصہ میں آپکے عہدہ پر بحال کردیں گے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات کو لال مسجد آپریشن اور اکبر بگٹی کو قتل کرتے وقت بھی استعمال کیا گیا تھا۔ انکار کی صورت میں ڈاکٹر صاحب کی بیٹیوں اور دیگر عزیز و اقارب کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کو ”بریف“ کردیا گیا تھا۔

مجبوری کی حالت میں، ملک و قوم اور اپنے گھر کو آمر اور اس کے آقاﺅں سے بچانے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے میڈیا پر ناکردہ گناہوں کو قبول کر لیا۔ بس اس کے بعد پہلے مشرف حکومت نے اور اس کے کوچ کرجانے کے بعد موجودہ حکومت نے بھی اپنے ”آقاﺅں“ کو خوش کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب کو غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر پابند سلاسل اور قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔ اخلاق نام کی تو کوئی شے موجودہ حکومت میں نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صدر پاکستان کے عہدہ پر ایسا شخص براجمان نہ ہوتا جس پر کرپشن جیسے بیسویں مقدمات ہوتے....! آئینی اور قانونی طور پر بھی دیکھیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی انتہائی غلط اور کراہت آمیز ہے۔ ایک ایسا شخص جو اب بھی قومی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو، جو چاہتا ہو کہ وہ اپنے ملک اور قوم کی بقاء کے لئے، زراعت اور صنعت کے میدان میں اصلاحات کے لئے کچھ کرے اور وہ ایسا کرنے کے لئے متعدد منصوبے بھی رکھتا ہو، اس کو بلا جواز اس قوم کی خدمت نہ کرنے دینا، مسلسل قید میں رکھنا، ظلم و بربریت نہیں تو اسے اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر بندی کو کچھ عرصہ پیشتر لاہور ہائی کورٹ کے پنڈی بنچ میں چیلنج کیا گیا تھا اور عدالت نے ڈاکٹر صاحب کو ایک آزاد شہری تسلیم بھی کیا تھا لیکن صرف ایک دن گزرنے کے بعد انہیں دوبارہ حفاظت کے نام پر نظر بند کردیا گیا اور ان کے دوست احباب اور عزیز و اقارب کی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ اب دوبارہ ان کی نظر بندی اور قید کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس میں گزشتہ روز عدالت نے اپنا فیصلہ سنانا تھا لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے ایک متفرق درخواست دائر کی گئی کہ مارچ کے مہینہ میں ایک امریکی اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں مضمون نگار نے ڈاکٹر صاحب پر دوبارہ کچھ الزامات لگائے ہیں اس لئے عدالت اجازت دے کہ ڈاکٹر صاحب سے تفتیش کی جاسکے۔ پہلی بات تو یہ کہ کیا حکومت نے اس سے پہلے آج تک کسی بھی شخص سے تفتیش کے لئے کبھی ہائی کورٹ سے اجازت طلب کی ہے؟ اگر دنیا کے کسی بھی اخبار میں کسی بھی مضمون نگار کی طرف سے کوئی الزام لگایا جائے تو کیا یہاں پاکستان میں اس پر تفتیش شروع کردی جائے گی؟ یہ کیسی حکومت ہے اور یہ کیا طریق کار ہے؟ جو بات ایک عام پاکستانی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے وہ عدالت کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ حکومت صرف وقت گزارنا چاہتی ہے تاکہ اس اثناء میں ڈاکٹر صاحب کو ایک بار پھر کسی حیلے بہانے اور بلیک میلنگ سے کسی ایگریمنٹ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔ بیرسٹرعلی ظفر نے بالکل صحیح کہا کہ یہ حکومت کی ”شرارت“ کے علاوہ کچھ نہیں!

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کا کیس ایک بار پھر عدالت کے سامنے ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کا کیس قوم کی عدالت میں بھی سنا جارہا ہے۔ عدالت نے یہ طے کرنا ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب ایک آزاد پاکستانی شہری ہیں یا نہیں؟ اگر وہ ایک عام شہری بھی ہوں تو حکومت کسی قانونی جواز کے بغیر انہیں نظر بند اور قید نہیں رکھ سکتی کجا کہ ان جیسا ایک محسن....! جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ انہیں جان کا خطرہ ہے اور اگر انہیں نقل و حرکت کی اجازت دے دی گئی تو غیر ملکی ایجنسیاں ان کو اغواء کرنے یا جان سے مارنے کی کوشش کرسکتی ہیں اور اس وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی نقل و حرکت ”محدود“ کردی گئی ہے تو اس بودے استدلال پر یہی کہا جاسکتا ہے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!

قوم کی عدالت بخوبی جانتی ہے کہ جب صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں، مشیروں کے قافلے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو چڑیا کا بچہ بھی پر نہیں مار سکتا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی عوام کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کا حال ”شیر“ افگن نیازی اور نعیم بخاری جیسا ہوگا لیکن ڈاکٹر صاحب تو پوری قوم کے ہیرو ہیں، انہیں عوام سے تو کوئی خطرہ ہرگز نہیں ہوسکتا، البتہ اگر کوئی خطرہ ہوسکتا ہے تو بلیک واٹر، را، موساد اور سی آئی اے وغیرہ سے ہوسکتا ہے جن کے اہلکاروں کی تعداد اب دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وی وی آئی پی کے پروٹوکول کی وجہ سے اب بچے بھی مجبوراً رکشوں میں پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں، اگر موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے کرپٹ شخص کو ایک عہدہ کی وجہ سے اتنی زیادہ سکیورٹی دی جاسکتی ہے، اگر میاں نواز شریف کو بغیر کسی عہدہ کے وزیر اعظم کے برابر سکیورٹی حاصل ہوسکتی ہے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان تو حقیقی معنوں میں اس سے بھی زیادہ سکیورٹی کے حقدار ہیں، انہیں کیوں سکیورٹی کے نام پر مسلسل پابند سلاسل رکھا جارہا ہے، آخر خوش کیا جارہا ہے تو کسے؟ آئینی عدالت کا فرض ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کو ایک آزاد شہری کے طور پر تسلیم کرے، حکومت اور متعلقہ اداروں کو حکم دے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی حفاظت کا انتظام کرے نا کہ نظر بندی کا۔ انہیں ہر جگہ جانے کی مکمل آزادی دی جائے، ملاقاتوں پر پابندیاں ختم کی جائیں، انہیں ان کے فلاحی اور ترقیاتی ایجنڈہ پر عملدرآمد کے لئے سہولیات فراہم کی جائیں، مکمل اور فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے، اگر آئینی عدالت ایسا فیصلہ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے خود قوم کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور آخرت میں اللہ کی عدالت کے سامنے، کیونکہ یہ عدالتیں دنیاوی لحاظ سے تو آخری ہوسکتی ہیں، آخروی لحاظ سے ہرگز نہیں۔ قوم نے جان جوکھوں میں ڈال کر، بڑی مشکل سے ان عدالتوں کو بحال کروایا ہے، اب ان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اور جلوس نکالتے ہوئے یقیناً انہیں بہت شرمندگی ہوگی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کا کیس آزاد عدلیہ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقتاً آزاد ہیں یا ....؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222511 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.