مسلمان گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے
(Shams Tabraiz Qasmi, India)
یوپی اور بہار کے بارے میں
کہاجاتا ہے کہ یہی دونوں ریاستیں ہندوستان کی سیاست کا رخ طے کرتی ہیں ۔
دہلی کا راستہ یوپی اور بہار سے ہی ہوکر گذرتا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا الیکشن
میں این ڈی اے کی کامیابی میں سب سے نمایاں کردار ان ہی دو صوبوں نے ادا
کیا ہے ۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی 80 سیٹوں میں سے 73 سیٹیں بی
جے پی کو ملی تو بہار نے بھی اپنی چالیس سیٹوں میں سے 31 این ڈی اے کی
جھولی میں ڈال دی۔ان دونوں ریاستوں میں ملنے والی تاریخ ساز کامیابی نے بی
جے پی کی جیت میں سب سے بڑا کردا ر اداکیا ۔ حالیہ دنوں میں اب انہیں
ریاستوں میں اسمبلی الیکشن کی سرگرمیاں چل رہی ہیں ۔بہار اسمبلی الیکشن کی
تاریخ بہت قریب آچکی ہے تو 2017 میں ہونے والی اترپردیش اسمبلی انتخابات کی
تیاریاں ابھی سے شرو ع ہے۔
آج بات کرتے ہیں بہار اسمبلی الیکشن کی ۔ بہار اسمبلی الیکشن کو بہت ہی اہم
سمجھا جارہاہے ۔ ملک کے مستقبل کو اس الیکشن سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔ یہ
الیکشن یہ بھی فیصلہ کرے گا کہ اب ہندوستان میں ووٹروں کی پسند اور ترجیحات
کیا ہیں۔آیا ذات پات پر مبنی ووٹنگ کا سلسلہ اب بھی برقرار ہے ، یا ترقی کے
نام پر ووٹنگ ہوگی یا پھر مذہب اور فرقہ پرستی کی سیاست شروع ہوگی ۔مذہب
اور فرقہ پرستی کی سیاست کا آغاز تو ویسے 2014 میں ہی ہوگیا تھا لیکن ہم
اسے حتمی طور پر مذہب کے نام پرووٹنگ نہیں کہ سکتے ہیں کیوں کہ بی جے پی کی
اس جیت میں کانگریس کی دس سالہ ناقص کارکردگی کا اہم رول ہے ۔ عام انتخابات
کے بعد مہاراشٹرا، ہریانہ ، جھارکھنڈ اور کشمیر اسمبلی الیکشن کو بھی اس پس
منظر سے جوڑا گیا تھا لیکن ان دنوں بی جے پی کی مرکزی حکومت نئی نئی تھی ۔
نریندر مودی کے نعرے اور وعدے کا بھر م پردہ خفامیں تھا ۔خوش کن وعدوں کی
حقیقت عوام کے سامنے ظاہر نہیں ہوسکی تھی اس لئے ان صوبوں میں ہوئی بی جے
پی کی کامیابی کے پیش نظر یہ نہیں کہاجاسکتا ہے کہ ملک میں ووٹروں کی آخراب
ترجیحات کیا ہیں ۔لیکن بہار اسمبلی الیکشن میں واضح طور پر یہ نتیجہ بر آمد
ہوجائے گا ۔ کیوں کہ مرکزی کی این ڈی اے حکومت عوامی امنگوں کو پورا کرنے
میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔بی جے پی نے عام انتخابات میں جتنے وعدے کئے
اورعوام کو ورغلانے کے لئے جتنے نعرے لگائے ان سب کے بارے میں پارٹی سربراہ
اور دیگر ذمہ داران خود ہی اعتراف کرنے لگے ہیں کہ وہ سب ایک انتخابی
ہتکھنڈ ہ تھا ۔عوام کو کانگریس سے بد ظن کرنے ، ان کا دل جیتنے اور ان
کاووٹ لینے کے لئے وہ تمام دل فریب نعرے لگائے گئے تھے جس کا حقیقت سے کوئی
تعلق نہیں ہے اور نہ ہی بی جے پی اپنے اس انتخابی منشور پر کبھی توجہ دے گی
۔گویاگذشتہ پندرہ ماہ میں بی جے پی کی حقیقت سامنے آگئی ہے ۔ اچھے دن لانے
، پندرہ لاکھ دینے ،مہنگائی کم کرنے ، فرقہ پرستی پر لگام لگانے خارجہ
پالیسی کو بہتر بنانے اور دیگر تمام وعدے فلاپ ثابت ہوچکے ہیں ۔ دوسر ے
لفظو ں میں یہ کے بی جے پی نے تمام پر یوٹرن لے لیا ہے ۔ عوام کو بھی اس
حقیقت کا اعتراف ہوچکا ہے کہ بی جے پی کی حکومت کانگریس کے دور اقتدار سے
زیادہ بدتر ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
مودی حکومت میں جملہ اور نعرہ کے علاوہ زمینی سطح پر کوئی پیکج نہیں مل رہا
ہے۔ اس صورت حال اور حقائق کا علم ہوجانے کے بعد بھی اگر بہار اسمبلی
الیکشن میں بی جے پی کامیابی حاصل کرلیتی ہے ۔ عوام بہار کا مستقبل اسی
پارٹی کے ہاتھ میں سونپتی ہے تو پھر نتیجہ واضح ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی
پنپ رہی ہے ۔ ووٹروں کی پسند ترقی اور عوامی فلاح و بہبود نہیں بلکہ مذہبی
سیاست کا فروغ اور آر ایس ایس کو بڑھاوادینا ہے ۔ عوام کو ریاست کی ترقی
اور سیکولزم سے دل چسپی نہیں بلکہ فرقہ پرستوں کو آگے بڑھانے میں ہے ۔ ان
کے لئے راہ عمل اور مشعل راہ مسلم مخالف چہرہ ہے سیکولر اور ترقی پسند شخص
نہیں ۔
بہار اسمبلی الیکشن میں جیت کس کی ہوگی ؟کون بنے گا سکندر ؟اس کا فیصلہ تو
نتیجہ آنے کے بعد ہوگا لیکن جو کچھ ابھی دکھ رہا ہے وہ زیادہ امید افزا اور
خوش کن نہیں ہے ۔ بہار میں ان دنوں این ڈی اے کے کارکنا ن کم اور آر ایس
ایس سے وابستہ افراد زیادہ سرگرم ہیں ۔ گھر گھر جاکر این ڈی اے کے لئے
تشہیری مہم چلائی جارہی ہے ۔ اکثریتی طبقہ کے ساتھ انفرادی اور خفیہ ملاقات
میں ترقی کے ایجنڈے پر نہیں بلکہ مذہب اور فرقہ پرستی کے ایجنڈے پر بات کی
جاتی ہے ۔ ہندو عوام سے یہ کہاجاتا ہے کہ مودی جی کے آنے کا سب سے بڑا
فائدہ یہ ہوا ہے کہ میاں بھائی میں خوف و ڈر سما گیا ہے ۔ اگر اپنا مذہب
بچا نا ہے ملک میں ہندوء قوم کی ترقی کا خواب دیکھنا ہے تو مودی جی کے نام
پر ووٹ دومسلم نواز نیتاؤں کو بھگاؤ۔
دوسری طرف نتیش کمار کی بے پناہ جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود بھی موسم
زیادہ خوشگوار نہیں ہوسکا ہے ۔کئی محاذ پر ان کو مخالفت کا سامان کرناپڑرہا
ہے ۔دوسری طرف مسلم اکثری حلقوں میں مسلم پارٹیوں کی آمد نتیش کے لئے ایک
نئی مصیبت بن سکتی ہے ۔ایک طرف کشن گنج میں میں جناب اسدالدین اویسی کی
ہوئی ریلی سے ہلچل مچی ہوئی ہے تو دوسری طرف متھلانچل یعنی دربھنگہ ،مدھوبنی
اور سیتامڑھی جیسے علاقے میں کچھ نام نہاد مسلم لیڈران ایک نوزائیدہ مسلم
پارٹی سے مسلم امیدوارکھڑے کرنے کے فراق میں ہیں۔ معتبر ذرائع سے ملی اطلاع
کے مطابق مسلم اکثریتی حلقوں میں مسلم امیدوار کھڑے کرنے کے لئے اس پارٹی
کو بی جے پی سے تقریبا نوے لاکھ روپے ملے ہیں ۔ آئندہ چنددنوں میں اس کے
ذمہ داروں کی ظفر سریش والا سے پٹنہ میں ملاقات بھی طے ہے ۔بہار کے
مسلمانوں کی ترجیحات کیا ہے اوروہ کیا چاہتے ہیں یہ ابھی تک واضح نہیں
ہوسکا ہے لیکن اتناضرور صاف ہوگیا ہے کہ اس مرتبہ بہارکے مسلم ووٹ کا حشر
وہی ہوگا جو 2014 کے عام انتخاب میں ہوچکا ہے یعنی مسلمان نہ گھر کے رہیں
گے اور نہ ہی گھاٹ کے۔ |
|