مشاورت کے پچاس سال اور ملت کا حال

آج تک دنیا میں کوئی ایسا دریا وجود میں نہیں آیا جس میں پانی کی مقدار اور رفتار ہمیشہ یکساں رہتی ہو۔ دریا پہاڑ سے اترتا ہے توپانی صاف ، شفاف اور تیزرفتارہوتاہے۔ آگے بڑھتا ہے تو رفتار میں سستی اورکیفیت میں خرابی بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کی طبیعت کا بھی یہی حال ہے ۔کبھی چست ودرست ،رواں دواں۔ کبھی پست وسست ،دھواں دھواں۔اسی پر تنظیموں کا حال بھی قیاس کر لیجئے۔ کوئی آفت آئی تو شور اٹھا، بلا ٹلی تو خاموشی چھاگئی ۔مجھے وہ دور یاد ہے جب لکھنؤ میں مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیاتھا۔ اﷲ اکبر، کیا جوش وخروش تھا۔ کیا امیدیں اورآرزوئیں تھیں۔کیا دانشوروں کی مجلسیں اور کیاعوام کے چائے خانے، ہرجگہ سب کا قیاس یہی تھا کہ سب مل بیٹھے ہیں، کچھ نہ کچھ ہوجائیگا۔ چنانچہ مشاورت کے وفود جہاں بھی گئے ، ہاتھوں ہاتھ لئے گئے۔انسانوں کے ہجوم امڑ پڑے۔یہ ایک غیرمعمولی صورت حال تھی۔ جو تحریک خلافت کے بعد پہلی بار دیکھی گئی۔

لیکن جلد ہی آرزؤں اورامیدوں پر افسردگی چھانے لگی۔۔مختلف وجوہ سے بعض سرپرستوں نے علیحدگی اختیارکرلی۔ پھر جو بچ گئے تھے، وہ بھی دوپھاڑ ہوگئے ۔ دلائل دونوں طرف تھے۔ مگرکوئی مسئلہ منظقی بحث واستدلال سے اس وقت تک حل نہیں ہوتا، جب تک مخالفت پر موافقت کا جذبہ حاوی نہ آجائے اور فریقین اپنے موقف سے دوقدم پیچھے ہٹنے کوآمادہ نہ ہو جائیں۔ چنانچہ مشاورت کی روداد نشیب وفراز میں یہ بات کچھ کم اہم نہیں کہ جوصاحبان چند سال قبل الگ الگ ہوگئے تھے،وہ پھر ساتھ آگئے ہیں اوران کا یہ ساتھ آنا اخلاص سے لبریز ہے۔

ناموافق حالات کے باوجوداپنی عمر کی نصف صدی پوری کرلینا اورکچھ نہ کچھ کرتے بھی رہنا ،کم اہم نہیں۔یہ بات الگ ہے کہ مہمات میں کامیابی کتنی ملی، ملت میں مشوروں کوکتنی پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ قومی تنظیم جو 1964میں چاند بن کر چمکی تھی، آج پھر قومی اورملی زندگی میں ایک نئے عزم وحوصلہ اورنئے انداز فکر کے ساتھ عازم سفرہے۔ا س دوران کئی تنظیمیں وجود میں آئیں،شوراٹھا اورپھر پردہ غیب میں گم ہوگئیں۔ مشاورت نہ صرف باقی رہی بلکہ گزشتہ چند سال میں اس میں ایک نئی زندگی بھی رواں دواں نظرآئی ہے۔

یہ وہ تنظیم ہے انتہائی سنگین حالات میں وجود میں آئی تھی۔اس کے قیام سے ملت میں بڑی حد تک خوداعتمادی بحال ہوئی تھی اورایک نئی منزل کی طرف سفر شروع کردیا تھا۔کسی کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو،لیکن 1964سے پہلے اوراس کے بعد کے حالات کا مشاہدہ اورتجزیہ گواہ ہے کہ مشاورت کے قیام نے خوداعتمادی کا جو یغام دیا تھا اس کے کچھ نہ کچھ اثرات ضرورمرتب ہوئے ہیں۔

1964سے قبل کا یہ وہ دورتھا جب قوم تقسیم کے زخموں سے چورتھی۔ ہمارے قومی قائدین نے مسلم اقلیت کو جو یقین دہانیاں کرائی تھیں، آئین میں جن تحفظات کو درج کیا تھا، حکمراں عملاً ان سے منحرف نظرآئے۔ ہرچندکہ سیکولر نظریہ کودستاویزی حیثیت حاصل رہی مگر وہ صرف کاغذوں کی حد تک۔ جب کہ ریاستی کام کاج میں اکثریتی فرقہ کی بالادستی کاوطیرہ عام ہوتاچلاگیا۔ انتظامیہ کی نظر میں مسلمانوں کا وجود عاربن کررہ گیا۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کے داخلے بند ہوگئے۔ مسلم دشمنی ذہنوں پراسقدر حاوی ہوگئی کہ بیک جنبش قلم اردو کودیس نکالا دیدیا گیا ،حالانکہ وہ اسی ملک کی مشترکہ تہذیب کی پروردہ زبان ہے۔قطعی غیرقانوی طریقے سے سینکڑوں قدیم مساجد اور مدارس پر آثارقدیمہ کے حوالے سے تالے جڑدئے گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم کش فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ سرکار کی سرپرستی میں جاری ہوا۔ مقصد صاف تھا۔ مسلم اقلیت کے حوصلے پست اوران کے وسائل آمدنی تباہ کردئے جائیں۔ بابری مسجد کی حیثیت بدلنے کے لئے برسراقتدار افراد کی پس پردہ شراکت سے اقدام ہوئے۔ غرض مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم کے نتیجہ میں جس ہندوفرقہ پرستی کے حاوی ہوجانے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا،وہ ظاہرہونے لگا۔ نہروکی کابینہ میں کئی قدآور لیڈرجو کارخانہ حکومت پر حاوی تھے ،ان کے فکروذہن میں ہندواحیاء پرستی کا ہی نام قوم پرستی تھا۔ قصرصدارت سے تائید اورگاندھی جی کا آشیرواد بھی ان کو حاصل تھا۔ ماحول مسلم قیادت کے لئے بڑا ہی مایوس کن تھا۔ اس میں جمعیۃ علماء ہند کی آواز ہی ملت کی ڈھارس بندھا رہی تھی۔ مگر قیادت کا بحران اس میں بھی درآیا۔ جو جماعت اپنے قیام کے وقت سبھی مسلکوں کی نمائندگی کرتی تھی ، وہ وسیع دریا سے ایک آب جومیں بدل کر رہ گئی۔ اس ماحول میں نہرو کے ایک خاص معتمد ڈاکٹر سید محمود کی تحریک پر مجلس مشاورت کی صورت گری ہوئی جس کوبشمول جمعیۃ علماء ہندپوری ملی قیادت نے چنددرچند تحفظات کے باوجود قبول کیا۔ مشاورت کاڈنکا کچھ اس زور سے بجا کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ بعض قائد جو مشکل سے ساتھ آئے تھے، آسانی سے الگ ہوگئے۔ آخراپنے وجود کی کا بقا بھی توکوئی چیز ہے۔ غیروں کی کیا شکایت کریں ، دیوبندمیں وہ واقعہ بھی پیش آیا جب مشاورت کے قائدین کو جان بچاکر بھاگنا پڑا۔حملہ آورغیر نہیں اپنے ہی تھے۔ اپنے ہی دین اورمسلک کے امین تھے۔ اپنی انفرادیت کواجتماعیت میں ضم کرنے کے لئے جس جگرگردے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مشکل سے ملتاہے۔ستم درستم یہ کہ بانی قائدین کی بے تعلقی کا سلسلہ بھی دراز ہوتا گیا۔اس کے باوجود مشاورت زندہ رہی ، زندہ رکھا گیا ۔یہ حوصلہ مندی کچھ کم حوصلہ افزا نہیں ہے۔

کچھ عرصہ نہ گزرا تھا کہ تقریباً انہی حضرات نے جو مشاورت کے بانی تھے، مسلم پرسنل لاء بورڈ کی تشکیل کی۔ قیادت میں خلفشار نہ ہوتا تو جو کام بورڈ کو کرنا تجویز ہوا، وہ مشاورت کے پلیٹ فارم سے بھی ہوسکتاتھا۔اس کے بعد ملی کونسل کا وجود بھی تقریباًانہی مقاصد کے تحت عمل میں آیا جن کے لئے مشاورت بنی تھی اور ایک ہی بزرگ محترم مشترکہ طور پر دعاگوبھی رہے۔ یہ بحث فضول ہے کہ جو اجتماعیت 1964میں پیدا ہوگئی تھی وہ اتنی جلدی بکھر کیوں گئی ؟ یہ اپنی طرح کوکوئی پہلا تجربہ نہیں۔ اس سے قبل 1893-84 میں کانپورکے فیض عام کالج میں ایک ایسی ہی مشارت کی صورت گری ہوئی تھی ، جس کا نام ’ندوۃ العلماء ‘رکھا گیا تھا۔ اس کے جلسوں میں تمام مسالک کی سربرآوردہ شخصیات نے شرکت کی تھی ۔ ’’دارالعلوم ندوۃ العلماء ‘‘ اسی کی نشانی ہے۔ 1919میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا تو اس کے ڈائس پر بھی وہی بہارنظرآئی۔ ہرمسلک کی نمائندگی بھرپورتھی۔ مگراب ایک ہی مسلک اورمذہب کے ارباب حل وعقد تقسیم ہوگئے ہیں۔ یہ ہماری ملت کامزاج ہے کہ وقتی طور پر جمع ہوجاتے ہیں اورپھر جلد ہی منتشر ہوجاتے ہیں۔ مشاورت کے ساتھ بھی اگرایسا ہی ہوا تو کچھ عجب نہ ہوا۔ البتہ وہ سب حضرات جو ان مختلف کوششوں میں شامل رہے بیشک مخلصین میں تھے۔ اﷲ ان سب کے درجات بلند کرے اوراپنی رحمتوں سے سرفراز کرے۔

بہرحال تاریخ کا ایک دورتھا جوگزرگیا۔ اس کا کیاماتم کریں۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا ملک اور ملت کو ان خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے یانہیں جو مشاورت نے وضع کئے تھے اور جن پر وہ آگے بڑھنے کا عزم رکھتی ہے؟ نئے حالات میں نیا منشور، جس کا مسودہ میری نظرسے گزرا ہے، حوصلہ افزا بھی ہے اورحقیقت کا عکاس بھی ہے۔اس پر جشن زریں کے موقع پر بات ہوگی۔اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں ملک کی تمام دبی کچلی اقوام کو ساتھ لیکر چلنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ملت کے مسائل کو قومی مسائل سے جوڑا گیا ہے اورتمام صاف ذہن برادران وطن کے تعاون اورشراکت سے اس پر عمل کا ارادہ بھی ہے۔

ملی مسائل پر سر پچی کرنے والی تنظیموں پراب یہ حقیقت واشگاف ہورہی ہے کہ ان مسائل کے حل کیلئے ان کو برادران وطن کے دلوں پر دستک دینی ہوگی۔ سرکار سے مانگتے رہنے سے کچھ نہیں ملے گا۔چنانچہ ابھی چندروز قبل ایک دلچسپ تصویراخباروں میں شائع ہوئی ۔ یہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی پریس کانفرنس کی تصویر ہے، جس میں ایک صاحب کو چھوڑ کر باقی سارے مخاطبین برادران ملک کی سربرآوردہ شخصیات سے منتخب تھے۔ مسلم مجلس مشاورت کا ریکارڈ اس سلسلہ میں روزاول سے بہتر رہا ہے۔ البتہ اس کے نام کے ساتھ اگر مسلم کا لائحقہ نا جوڑا جاتا توان سیاسی حالات میں جن میں اس کا وجود عمل میں آیا اورجوآج ہیں،اس کی اپیل میں اوروسعت پیدا ہوجاتی۔ یہ حالات ـ’مسلم ‘ کے تعلق سے بہتر نہیں، بدتر ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ مرکز میں سنگھی سرکارقائم ہوتے ہی ’مسلم مکت بھارت‘ کا خواب بھی دیکھا جانے لگا ہے۔ مشاورت ملت میں خوداعتمادی کا پیغام ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ ہم خود اپنے وسائل سے آگے بڑھیں۔ اسکول اورکالج قائم ہوں۔ اسلامی اخلاقیات کو فروغ ہو۔ کرخت مزاجی، محاذ آرائی اورالگ تھلگ رہنے اور سوچنے کی روش تبدیل ہو۔ بیشک ہم مسلمان ملت ہیں مگرہندستانی قوم کا حصہ ہیں اوراس ملک کی بہی خواہی ہماری اپنی بہی خواہی ہے۔

اپنے کام کاج کے لئے مشاور ت نے جمہوری طریقہ کار کا انتخاب کیا ہے۔ وہ پرامن ذرائع کی پابند ہے ۔ اس کی اولین تشویش اگرچہ ملک میں بڑھتا ہوا تشددپسندی اورعسکریت پسندی کا رجحان ہے، لیکن اس کو یہ احساس بھی ہے کہ ملک کی اکثریت کے دلوں پر دستک اگردی جائے توپانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ شرپسند بول رہے ہیں اورخیرپسند خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کوبدلنا ہوگا۔

مشاورت کی موجودہ قیادت سے امیدیں اس لئے زیادہ ہیں کہ جہاں وہ دین کے تقاضوں اورمسائل کے حل کیلئے سنت طریقوں کا براہ راست علم رکھتی ہے، ان پر مضبوطی سے قائم بھی ہے اسی کے ساتھ اس کی نظر عالمی اورقومی تغیرات اوران کے اسباب پربھی گہری ہے۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ اگرملت ماضی کے قصوں کہانیوں سے بلند ہوکرمستقبل کی فکرمندی کو اولیت دے گی تو اس تنظیم کا وجود یقینا باعث خیر وبرکت ہوگا۔

اگرچہ مسلم مجلس مشاورت نے گزشتہ سال اپنے قیام کے 50سال پورے کرلئے تھے اور اس موقع پر ایک خصوصی پروگرام کے انعقاد کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، مگر چند درچند حالات اوراتفاقات کہ یہ تقریب ایک سال کی تاخیر سے اب 31 اگست بروز پیر صبح 11بجے سے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر، لودھی روڈ، نئی دہلی میں ہورہی ہے۔ایک سال کی یہ تاخیرخود اس قومی تنظیم کے مالی اورافرادی وسائل پر ایک تبصرہ ہے۔بطورمہمان خصوصی نائب صدر جمہوریہ حامدانصاری تشریف لائیں گے۔جن افراد کو قومی مسائل سے دلچسپی ہے، ان کے لئے اس میں شرکت امید ہے کہ مفید ہوگئی۔ہمارا وطیرہ یہ ہونا چاہئے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق تولیں لیکن ان کو اپنے پیروں کی زنجیرنہ بنالیں۔ جب کہ ہماری عادت یہ بن گئی ہے:
طوفاں کے بعد اہل تدبر کو ہے یہ فکر
ساحل کا تھا قصور یا دریا غلط گیا
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.