بسااوقات شرم ناک صورتحال پر تبصرہ کر نے کے لئے
لفظ افسوسناک بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ جب کوئی فریق بے شرمی
کی آخری حدود کو چھوتے ہو ئے اپنے رویے سے نیستی اور ندامت کاادنیٰ سا
اشارہ دینے کا روادار نہ ہوتو ’’لغت‘‘ صورتحال کوالفاظ کا جامعہ زیب کرنے
سے عاجزآکر پرانے گسے پٹے الفاظ کا سہارا لیتی ہے ۔مسئلہ کشمیر کو زمانہ
دراز تک پاک بھارت کے مابین ایک مسئلہ قرار دیا جاتا رہا اور کشمیریوں کو
’’جنگ یا امن‘‘ہر دو حالات میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کی صلح !بعض منتشر العقل
کشمیری دانشوروں نے بھی قوم کو یہی صلح دی کہ مسئلہ کشمیر ’’دو قومی نظریہ
‘‘کی تکمیل کا ایک حل طلب مسئلہ ہے لہذاہمارا بھلا اسی میں ہے کہ ہم خاموش
تماشائیوں کا رول ادا کریں ۔ان دانشوروں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ مسئلہ
کشمیر اگر ہندوپاک کے بیچ ’’جغرافیائی تنازع‘‘ہے مگر اس کی وجہ سے پوری ایک
قوم اور ملت دہائیوں سے برباد ہو رہی ہے ۔اس کے بیچ ’’دیوارِ برلن‘‘کھڑی کر
کے ’’آزاد اور مقبوضہ کشمیران‘‘کی ایسی خونین لکیر کھینچی گئی جس سے اس کے
ہزاروں اور لاکھوں رشتے ناطے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہو گئے ۔ایک ہی علاقے کے دو
حصوں میں اس لکیر پر کھڑی دو طاقتور فوجوں کی جھڑپوں میں تباہ و برباد
’’طرفین کا کشمیری ‘‘ہو رہا ہے کوئی دلی اور اسلام آبادی نہیں ۔
کشمیریوں کی بد نصیبی مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ وہ جمالات و کمالات ہیں جن کو
دیکھ کر علاقائی طاقتوں کے منہ کی رال ٹپکنے لگتی ہے حیرت کا مقام یہ کہ
خطے کی تین بڑی طاقتوں نے ایک ملت کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے جس کے
نتیجے میں’’مرحوم ملت‘‘ہر علاقے میں تقسیم در تقسیم کی صورتحال سے گذر رہی
ہے ۔خود اپنے ہی کشمیر کو دیکھ لیجیے ایک طبقہ ہندوستان نواز دوسرا پاکستان
نواز تیسرا خود مختار کشمیر کا وکیل اور یہی حال آزاد کشمیر کا ہے جہاں کے
لو گ کم سے کم دو نظریوں’’ پاکستان نوازی اور خود مختار ی میں تقسیم ہے ،
رہا چین تو علاقے کی بڑی طاقت ہونے کی بنیاد پر اس کے ہاں جو کشمیر کا حصہ
ہے پر عالمی طاقتیں خاموش ہیں اور یہ حصہ کشمیر کبھی بحث و مباحثے میں بھی
شامل نہیں ہوتا ہے ۔
بھارت اور پاکستان کی کشمیر پر دعویداری بہت پرانی ہے اور دونوں کشمیر کو
اپنا ’’جزوِحیات‘‘تصور کرتے ہیں ۔ایک ’’اٹوٹ انگ‘‘کا راگ الاپتا ہے تو
دوسرا ’’شہہ رگ‘‘کا مدعی ۔اولاََ دونوں کشمیر کے دو حصوں پر قابض ہیں
ثانیاََدونوں نے ’’ھل من مزید‘‘کا وظیفہ حرز جان بنا رکھا ہے ۔کشمیریوں کے
لئے یہ صورتحال بالکل ویسی ہی جیسی صورتحال ان کے لئے ’’گوروں ‘‘نے ’’جموں
کے ڈوگرہ مہاراجہ خاندان‘‘کے ساتھ مل کر پیدا کر دی تھی ۔جب سکھوں کا تاریک
دور ختم ہوا اور انگریزوں نے سارے براعظم پر ماسوائے افغانستان کے قبضہ کر
لیا تو بد باطن ’’گوروں‘‘نے کشمیر کو اپنے قبضے میں لینے کے برعکس اس کو
’’مال و جان ،عزت و آبروحتیٰ کہ جانوروں سمیت چند نانک شاہی سکوں کے عوض
فروخت کردیا۔کشمیریوں کی مرضی کا نہ کبھی خیال کیا گیا اور نہ ہی ان سے
کبھی پوچھا گیا ۔یہی کچھ آج بھی بھارت کشمیریوں کے ساتھ کرنا چاہتا ہے ۔وہ
انھیں مسئلہ کشمیر کے فریق کے برعکس اپنے غلام تصور کرتا ہے ۔ پاکستان کی
خوبی یہ ہے کہ وہ روزِ اول سے مسئلہ کشمیر کے وکیل کے طور پر لڑتا رہا اور
اس نے پاکستانی حدود میں شامل آزاد کشمیر کو بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے تک حل
طلب ’’خطہ‘‘ قراردیدیا ہے برعکس اس کے بھارت نہ ہی مسئلہ کشمیر کو مانتا ہے
نہ ہی کشمیریوں کی ’’آزادی پسند لیڈر شپ‘‘ کو ،نہ ہی انھیں فریق ماننے کے
لئے تیار ہے۔
سنگھ پریوار کی حکومت وجود میں آنے کے بعدبھارت غیر ضروری تکبر میں مبتلا
ہوا ہے ۔سنگھ پریوار حکومت سے باہر جس بے ہنگم صورت میں مسلمانانِ
ہند،پاکستان اور کشمیریوں پر تبصرے جھاڑتے تھے آج بھی برابر وہی صورتحال
قائم ہے حالانکہ آج مسئلہ کشمیر اُس مقام پر کھڑا نہیں ہے جس پر یہ 1990ء
میں تھا ۔اب مسئلہ کشمیر ایک مسلمہ مسئلے کے طور پر اُبھر چکا ہے ۔آج ساری
دُنیا اس کو ایک آتش فشاں تصور کرتی ہے۔ ماسوائے بھارت کے دنیا کا ہر ملک
کشمیریوں کو ایک فریق ہی نہیں بلکہ بنیادی فریق مانتا ہے باوجود یکہ الفاظ
مختلف استعمال کئے جا رہے ہوں جیسا کہ امریکہ ،برطانیہ،چین بلکہ اب عرصہ سے
روس بھی مسئلہ کشمیر کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کے ساتھ
ساتھ کشمیریوں کی رائے کے احترام کی بھی تلقین کرتے ہیں ۔بھارت بخوبی جانتا
ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی لالچ میں بھارت کو مسئلہ کشمیر حل
کرنے پر زور نہیں دیتی ہیں ،البتہ اس غلط فہمی کے غبارے سے ہوا نکلنے میں
اب دیر نہیں لگے گی اس لئے کہ بھارت کی منڈی بے شک بڑی ہو اور سات سمندر
پار بڑی طاقتوں کی نگاہیں اس پر ٹکی ہوں مگر دور کی دوستی کے سراب سے ہوا
نکلانے میں جس طرح بھارت کے ہمسایہ ممالک متفق اور متحد نظر آتے ہیں کا
’’مذہبی ،سیاسی ،لسانی،علاقائی اورفکری طور پرمنتشربھارت‘‘زیادہ دیر تک
متحمل نہیں ہو سکتا ہے ۔
عقلمندی یہ ہے کہ پہلی فرصت میں ہمسایوں کے ساتھ تمام تر جھگڑے اور مسائل
حل کر لئے جاتے ،جب تک سارے مسائل کو خوشگوار ماحول میں باہمی اعتماد کے
ساتھ حل نہیں کیا جا تا دور کے ’’مہاجنوں اور تاجروں‘‘کے پرکشش اور پر فریب
پیشکش کو بنیاد بنا کر ایک جانب اپنی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کرکے
’’مال کے عوض مسئلہ کشمیر پراپنے اسٹینڈپر مائل کرناتو دوسری جانب اپنے
ہمسایوں کے ساتھ جنگی صورتحال کو جنم دیکراسی میں چھید لگانا بدترین حماقت
کے سوا کچھ بھی قرار نہیں دیا سکتا ہے ۔بھارت ،پاکستان ،چین اور عالمی
طاقتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر صرف زمینی تنازع نہیں ہے
بلکہ مستحکم عقائد رکھنے والی ملت کے مستقبل کا مسئلہ ہے ۔جوہر قربانی کے
بعداب اندھا دھند فیصلوں کے زہریلے گھونٹ پینے کی قربانی کا تصورنہیں
کرسکتی ہے ۔ |