گھر میں گھس کے !

برصغیر پاک وہند پہ مسلمان حکمران رہے یا پھر انگریز۔ہندو نسل در نسل غلام رہے۔ دورِغلامی ختم ہو جائے تو بھی خوئے غلامی نہیں جاتی۔پھر ہزاروں سال کی غلامی۔اس کا لیکن ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔کم ظرف کو جب کبھی قدرت اوج عطا کرتی ہے تو بھی کمینگی سے اس کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹتا۔سانپ کو جتنا چاہے دودھ پلا لیں اس کی ڈسنے کی عادت نہیں جاتی۔انگریز برصغیر سے بوریا بستر لپیٹنے لگا تو اکثریت کی بنیاد پہ برہمن نے مسلمانوں سے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لینے کے منصوبے بنانا شروع کر دئیے۔انگریز راج کے دوران جب کبھی انہیں حکومتی اختیار میں حصہ دار بنایا گیا انہوں نے مسلم دشمنی کی انتہاء کر دی۔ یہی وجہ تھی کہ قائد اعظم جیسے ہندو مسلم اتحاد کے زبردست سفیر اور داعی بھی بالآخر اس نتیجے پہ پہنچے کہ ہندو کے ساتھ ایک ملک میں رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ دو قومی نظریہ تو پہلے سے موجود تھا لیکن اسے قبولِ عام ہندو کی ذہنیت کے باعث حاصل ہوا۔

قائداعظم علیہ الرحمہ کی ولولہ انگیز، مخلص اور جانفشان قیادت کے بل بوتے اور ملت کے اتحاد اور یگانگت کی بنیاد پہ مسلمانانِ برصغیر دنیا کے نقشے پہ سب سے بڑی اسلامی ریاست کے حصول میں سرخرو ہو گئے۔یہ بڑی کامیابی تھی۔مسلمان قیادت کے اس وقت کے بیانات پڑھ کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تقسیم ہند کو دل وجان سے قبول کر کے ہندوستان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت تعلقات استوار رکھنے کا عہد کیا ہوا تھا۔ لیکن اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے گھر تو جیسے تقسیم برصغیر پہ ماتم بپا تھا۔ان کی تو بقول ان کے ماں تقسیم ہو گئی تھی۔نہ صرف یہ بلکہ ماں کا ایک حصہ کوئی غیر لے اڑا تھا۔اثاثوں کی تقسیم پہلابڑا مسئلہ تھا جو دو نوزائیدہ ممالک کے درمیان وجہ نزاع بنا۔بھارتی قیادت کی ہٹ دھرمی اس قدر تھی کہ بھارت کے باپو گاندھی جی کو ان اثاثوں کی منصفانہ تقسیم کے لئے بھوک ہڑتال کرنا پڑی۔اسی بناء پہ بعد میں انہیں ایک ہندو شدت پسند کی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ہمیں آج شدت پسندی کا طعنہ دینے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس سے بڑھ کے شدت پسندی اور کیا ہو گی کہ ایک جائز مطالبے پہ کوئی قوم اپنے ہی فادر آف دی نیشن یا بابائے قوم کا خون بہا دے۔

برصغیر کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی ۔انگریز جاتے جاتے ایک ایسا معاملہ حل طلب چھوڑ گیا جو اس وقت سے لے کے آج تک اس خطے کا رستا ہوا ناسور ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ بھی اسی ایشو پہ ہوئی اور شاید یہی معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان آخری جنگ کا باعث بھی بنے۔دنیا بجا طور پہ اسیبرصغیر کا فلیش پوائنٹ کہتی ہے کہ یہ چنگاری شعلہ تو کب کی بن چکی۔کوئی پل جاتا ہے کہ اسے الاؤ بننا ہے پھر شاید سب جل کے بھسم ہو جائے۔اگر بد قسمتی سے کبھی ایسا ہوا تو بقول ضیاء الحق مسلمان تو پھر بھی اس دھرتی پہ رہیں گے لیکن ہندو ،ہندتوا کا شاید اس کے بعد نشان بھی نہ رہے۔عالمی امن کے لئے ضروری ہے کہ دنیا اس معاملے میں سنجیدگی دکھائے اور بھارت بھی اپنی ہٹ چھوڑ کے کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دے جس کا اس نے خود اقوامِ عالم سے وعدہ کر رکھا ہے۔اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ طاقت کے بل بوتے پہ عوام کے جذبہ حریت کو وقتی طور پہ دبایا تو جا سکتا ہے اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔محبتیں اور نفرتیں متعدی ہوتی ہیں اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔انہیں بڑھانے اور مٹانے کے لئے نسلوں ہی کی محنت درکار ہوا کرتی ہے۔بڑا ملک ہونے کے ناطے بھارتی قیادت پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت تعلقات استوار کرے۔یہ نہ صرف بھارت کے ان کروڑوں افلاس زدہ ننگے بھوکے عوام پہ اس کا احسان ہوگا جو اپنی ساری زندگی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پہ بسر کر دیتے ہیں بلکہ خطے کے دوسرے ممالک بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔

بھارت بلا شبہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا ملک ہے۔اس کے وسائل بھی سب سے بڑھ کے ہیں۔اس کی آبادی چین کے بعد دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے۔اسی تناسب سے اس کی افواج اور فوجی سازو سامان کا بھی خطے کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کرتا اور شاید کر بھی نہیں سکتا۔اس پہ مستزاد اس کی علاقے کا تھانیدار بننے کی خواہش۔سارک کا کون سا ایسا ملک ہے جس نے کبھی بھارت کے ہاتھوں زخم نہ کھائے ہوں۔نیپال سری لنکا،بھوٹان مالدیپ کو تو بھارتی جیسے اپنی باجگذار ریاستیں سمجھتے ہیں ۔لے دے کے ایک پاکستان ہی ہے جو بھارتی جارحیت پسندی اور ہمہ گیری کی خواہش کے آگے سدِ سکندری کی طرح حائل رہتا ہے۔ دنیا بھر کے دفاعی تجزیہ نگار جب کبھی پاک بھارت کے وسائل اور مسائل کا تقابلی جائزہ لیتے ہوں گے تو اعداد وشمار انہیں لازماََ دانتوں میں انگلیاں دابنے پہ مجبور کرتے ہوں گے کہ کیسے ایک چھوٹا سا ملک بھارتی دیو کے سامنے ہمہ وقت سینہ تان کے کھڑا ہوتا ہے۔رقبے اور آبادی کے لحاظ سے تو خیر کوئی مقابلہ ہی نہیں روایتی ہتھیاروں کا تقابل بھی حیران کن ہے۔بھارت کی سٹینڈنگ آرمی کی کل تعداد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاکھ فوج ہے۔بھارتی ریزروز کی تعداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاکھ ہے تو پاکستان کے پاس صرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریزرو فوج ہے۔ بھارت کی بری بحری اور فضائی استعداد بھی پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ٹینک، توپیں،گولہ بارود اسلحہ ساز فیکٹریاں،بحری اور ہوائی جہاز ہیلی کاپٹر غرضیکہ کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جس میں بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک کا تقابل کیا جا سکے۔امریکہ اور چین کے بعدبھارت دنیا کی تیسری بڑی باقاعدہ فوج ہے ۔بھارت دفاع پہ اپنے کل قومی بجٹ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔فیصد خرچ کرتا ہے۔خطے کے دوسرے ممالک کا سارا دفاعی بجٹ بھی ملا لیا جائے تو بھی اس کا کوئی مقابل نہیں۔

بھارتی فوج کی عددی برتری اور وسائل کا کیا یہ مطلب ہے کہ گردن جھکا کے بھارت کے ہر جائز و ناجائز مطالبے پہ سر تسلیم خم کر دیا جائے۔کیا ہندو دوسرے علاقائی ممالک کی طرح ہمیں بھی اپنی طفیلی ریاستوں کی فہرست میں شامل کر لے گا۔کیا توپ وتفنگ اور سامانِ حرب وضرب ہی قوموں کی تقدیر میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے یا کچھ اور عوامل بھی ہیں جنہیں مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔اقبال علیہ الرحمہ نے ڈیڑھ صدی قبل مسلمانوں کو خودی کا سبق رٹاتے ہوئے یہ نکتہ بھی کھول کے بیان کر دیا تھا کہ
کافر ہے، تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

کیا وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی پاکستان اور بھارتی افواج مقابل آتی ہیں تو دنیا پاک فوج کی تربیت اور اس کے عزم وحوصلے کی کھل کے داد دیتی ہے۔بعض مواقع پہ تو خود بھارتی جرنیلوں نے بھی پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت کی داد دی۔اس کی ایک وجہ تو وہ جذبہ ایمانی ہے جس سے کوئی بھی مسلمان فوجی معمور ہوتا ہے کہ وہ اﷲ کی رضا اور آقائے دو جہاں کی خوشنودی کے لئے جنگ آزماء ہوتا ہے ملک گیری کی ہوس کے لئے نہیں۔ مسلمان کبھی جارح نہیں ہو سکتا۔اسے ملک گیری کی ہوس نہیں ہوتی۔وہ اﷲ کریم کے احکامات کے تحت ہی دشمن سے نبردآزماء ہوتا ہے۔اسے اپنے آقاﷺ کے سکھائے ہوئے اطوار کے مطابق ہی جنگ لڑنا ہوتی ہے۔اور تو اور وہ تو کھڑی فصلوں اور سرسبز درختوں تک کو نہیں کاٹ سکتا۔وہ راہِ خدا میں اپنے دین اور وطن کی سربلندی کے لئے لڑتے ہوئے مارا جائے تو حیاتِ جاودانی پاتا ہے اور اگر معرکہ حق و باطل میں اس کی جان بچ جائے تواسے غازی کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔دل میں یہ جذبات موجزن ہوں تو پھر نقدِ جان کی پرواہ کسے ہوتی ہے۔جو زندگی سے زیادہ موت کو عزیز رکھتا ہو جسے یقین ہو کہ اسے عارضی زندگی سے چھٹکارا پاکے اﷲ کے ضضور پیش ہونا ہے اسے پھر دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

طالبان نے ہمارے ساٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان لے لی ۔ان کی وجہ سے ہماری گلیاں محلے منبرومحراب ،کوچہ بازار خون سے تر ہو گئے۔پچھلے ایک عشرے سے ہم حالتِ جنگ میں ہیں۔ضربِ عضب اس جنگ کا نکتہ عروج ہے ۔ دین اور وطن کے یہ دشمن اب راہِ فرار اختیار کرنے پہ مجبور ہیں۔اس جنگ نے ہمیں ملک کے اندر ہی میدان جنگ میں ایستادہ کر رکھا ہے۔تصویر کے دوسرے رخ پہ نظر ڈالیں تواس تخریب میں بھی تعمیر کی ایک صورت مضمر نظر آتی ہے۔ہمارا سپاہی اب وہ سپاہی نہیں جو میدانِ جنگ سے باہر بیٹھ کے جنگ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے بلکہ یہ وہ سپاہی ہے جس کی بندوق ہاتھ میں ہے۔گولی چیمبر میں ہے اورنگاہ ہمہ وقت ہدف پہ ہے۔اتنی منظم،تربیت یافتہ اور نظریاتی سپاہ کا مقابلہ آسان نہیں۔ہاتھی کی جسامت بھلے ہی بہت بڑی ہواس کی سونڈ بھلے ہی کتنی لمبی ہو لیکن بعض اوقات یہی لمبی سونڈ اس کی موت کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک سمارٹ سی چیونٹی اسی سونڈ میں گھس جائے تو ہاتھی اپنے سارے جاہ وجلال سمیت زمین پہ آ رہتا ہے۔نمرود بھلے خدائی کا دعوے دار ہو لیکن ایک مچھر ناک میں گھس جائے تو سر پہ جوتے کھانا پڑتے ہیں۔ٹینک خود نہیں چلتے توپیں بھی چلانے کو مردان ِکار درکار ہوتے ہیں۔انسان نہیں انسان کا نظریہ اور جذبہ ہی اسے گولے اور بم کو اپنے سینے پہ سہنے کی ہمت جرات اور طاقت عطا کرتا ہے۔اور نظرئیے اور جذبے میں پاکستانی قوم اور پاک فوج کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔آئے دن مادرِ وطن کے یہ ہونہار سپوت وطن کی مانگ گل رنگ رکھنے کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرتے رہتے ہیں۔فوج اپنے کمانڈر کی حکم پہ ،ا س کے منصوبے اور پلان پہ لڑتی ہے جس فوج کا سپہ سالار ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے سر بکفن اپنے جانبازوں کے شانہ بشانہ ہواس فوج کا مورال آسمانوں کی بلندی کو چھونے لگتا ہے۔سوئے مقتل روانگی پھروہ لذت عطا کرتی ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ماہرینِ حرب کہتے ہیں کہ جنگ وہی جیتتا ہے جو جنگ کے شروع ہونے سے قبل دشمن کے عزائم کی مکمل آگاہی رکھتا ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ ہماری آنکھیں اور کان ،ہمارے وہ گمنام مجاہد جن کا نہ تو کہیں ذکر آتا ہے نہ ان کی تصویر چھپتی ہے نہ کبھی ان کی کوئی کہانی۔ان کی کارگردگی کی بنیاد پہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں میں انہیں پہلے نمبر پہ شمار کیا جاتا ہے۔چومکھی لڑنے والے یہ افسانوی کردار کسی صلے کی تمنا کئے بغیرہمہ وقت دشمن کے اداروں کو بھانپنے اور ان کا توڑ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ہمارے ازلی دشمن کا مائی باپ آج بھی آئی ایس آئی کے لگائے زخموں کو یاد کر کے کانپ جاتا ہے۔ان مجاہدوں کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ بھارت میں کوئی متعدی مرض پھوٹ پڑے تو بنیا اس پہ بھی آئی ایس آئی کا نام لے کے بلبلانے لگتا ہے۔جو دشمن پاکستانی سرحد سے اڑ کے جانے والے کبوتر کے چار دن نزدیک نہ آئے اس کی عددی برتری اس کے ٹینکوں اور جہازوں سے کیا ڈرنا۔

ارے ہاں میں سرحد پار اپنے دوستوں کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ جنگ جیتنے کے لیے اب دو بدو آنا ضروری نہیں رہا۔اب تو ممکن ہے کہ آنکھ لگ گئی تو پھر لگی ہی رہے اور اسے کبھی کھلنے کا موقع نہ ملے۔ہم نے اﷲ قہار وجبار کے حکم کے عین مطابق اپنے گھوڑے تیار کر رکھے ہیں۔اسلام امن کا دین ہے اور آشتی کا۔ جارحیت کی صورت میں ہمیں ناک کے بدلے ناک ،کان کے بدلے کان اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے کا حکم ہے اور جان کے بدلے جان۔ہم اپنے دین اور وطن کے لئے جان دینا بھی جانتے ہیں اور جان لینا بھی۔جنگ تو درکنار ہم تو آپ کے ساتھ کرکٹ میچ کی صورت بھی سیسہ پلائی دیوار کی طرح یکمشت اور یک جان ہو جاتے ہیں۔بے سروسامانی کے عالم میں بھی آپ ہماری صلاحیتوں کے گواہ ہیں۔اب تو جدید جنگی کھلونوں میں ہم آپ کی گردن پہ سوار ہیں۔آپ کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری میزائیل ٹیکنالوجی نہ صرف یہ کہ بہتر ہے بلکہ تعداد میں بھی ہم ان سے زیادہ ہی ہیں۔ہم لیکن ان آلاتِ جنگ پہ نہیں اﷲ کی نصرت پہ بھروسہ کرتے ہیں۔ہماری تاریخ گواہ ہے کہ تعداد اور آلاتِ جنگ کبھی ہماری کمزوری نہیں رہے۔ہمارے تین سو تیرہ نے ہزاروں کا مقابلہ کیا اور جیتا ہے۔

بھارتی عوام کو اپنے قائدین کو یہ باور کرانا چاہئیے کہ جنگی جنون،اسلحے کی دوڑ،اور حرصِ ملک گیری کسی بھی طرح نہ تو بھارت کے مفاد میں ہے اور نہ خطے کے۔امن ہی اس علاقے کے عوام کی حالت بدل سکتا ہے۔امن کی کوشش کو کمزوری سمجھا جانے لگے تو جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔اس خطے میں جب کبھی بھی جنگ ہوئی تو یہ بھارت کی ضد، ہٹ دھرمی،جارحیت اور کم فہمی کی بنیاد پہ ہو گی۔اب کی بار جنگ ہوئی تو یہ ان ہتھیاروں کی جنگ قطعاََ نہیں ہو گی جو بھارت سرکار اپنے لوگوں کو بھوکا پیاسا رکھ کے اکٹھا کر رہی ہے۔دشمن آپ کی مرضی اور منشاکے نہ تو میدان میں لڑتا ہے اور نہ ہی اس جنگ میں ہتھیار آپ کی مرضی کے استعمال کرتا ہے۔ہمارے جانباز آپ کے سٹریٹیجک اثاثہ جات کے حتمی محل وقوع سے واقف ہیں اور اب کی بار آپ نہیں ہم آپ کے گھر میں گھس کے آپ کو ماریں گے۔اور آپ کی آنکھ کھلنے سے پہلے۔
 

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267985 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More