کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے دربار
میں ایک فریادی فریاد لے کر حاضر ہوا، اور اس نے بادشاہ سے روتے ہوئے عرض
کی، حضور والا....میں لٹ گیا....میں برباد ہوگیا.... میں تباہ ہوگیا....بادشاہ
نے اُس سے پوچھا....کیا ہوا؟، فریادی نے عرض کی جناب والا....میرے گھر میں
چوری ہوگئی ہے اور چور میری زندگی بھر کی تمام جمع پونجی لوٹ کر لے گئے ہیں....بادشاہ
نے فریادی کی بات سن کر غصے سے کہا....جب چور یہ کام کررہے تھے، تم کیا کر
رہے تھے؟ فریادی نے عرض کی، حضور والا.... اُس وقت میں سو رہا تھا، فریادی
کا جواب سن کر بادشاہ کے غصے میں مزید اضافہ ہوگیا اور اُس نے چیختے ہوئے
کہا....تم کیوں سو رہے تھے؟ حیرت میں گم فریادی نے عرض کی، جناب والا....میں
معافی چاہتا ہوں ....مجھ سے غلطی ہوگئی .... میرا گمان تھا کہ آپ جاگ رہے
ہیں۔
آج یہ حکایت ہمارے حالات کی بہترین عکاسی کرتی ہے، عوام چیخ رہے ہیں، چلا
رہے ہیں، دہائی دے رہے ہیں لیکن اُن کی آواز ایوان اقتدار کی بلند و بالا
فیصلوں سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہے، کوئی سننے والا نہیں، دیکھنے والا نہیں،
محسوس کرنے والا نہیں ہے، ایوان اقتدار کے مکین بے حس تماشائی بنے ہوئے ہیں،
انہوں نے وعدوں کے رنگا رنگ غباروں، دعوؤں کی ست رنگی پتنگوں اور خلاف
حقیقت بیانات کی پھلجھڑیوں سے مکرو فریب کا ایک سرکس لگا رکھا ہے، جبکہ
دستر خوانی قبیلے کے افراد کا کہنا ہے کہ ترقی و خوشحالی نقرئی پازیبیں
پہنے ملک کے گلی کوچوں میں رقص کررہی ہے،شلیکن حقیقت حال یہ ہے کہ بے چارگی
کی صلیب پر لٹکی خلق خدا اپنے روز وشب کا شمار تک بھول گئی ہے اور پاکستان
کے 17کروڑ عوام کو ایک بھی ایسا دل نواز منظر دکھائی نہیں دے رہا جسے وہ
اپنے زخموں کا مرہم بنا سکے اور جو اُن کے دکھوں کا مداوا بن سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس قوم کے حاکم جاگ رہے ہوتے ہیں، وہاں کسی تقریر، کسی
بیان، کسی اشتہار کی ضرورت نہیں ہوتی، کبھی حاکم وقت کو یہ کہنے کی ضرورت
نہیں پڑتی کہ ہمیں عوام کے مسائل کا اندازہ ہے، ہم جلد ہی عوام کو ریلیف
دیں گے، نہ ہی انہیں یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم نے تمہارے لئے یہ
کیاہے یا ہم تمہیں بہترین مستقبل دینے کی کوشش کررہے ہیں، ہم ظلم و زیادتی،
دہشت گردی اور غربت کا خاتمہ کردیں گے، ہماری پالیسیاں عوام کے دلوں کی
دھڑکن ہیں، لوگوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے جو اگلے پانچ برسوں کیلئے ہمیں
حکمران دیکھنا چاہتی ہے، کیونکہ جہاں عوام کی اکثریت حکمرانوں کے ساتھ ہوتی
ہے، وہاں ان کی زبانیں نہیں چہرے بولتے ہیں، اُن کی آنکھیں روشن اور ہنستی
ہیں، زبانیں خوشی و مسرت کے گیت گاتی ہیں اور جسم جھومتے ہیں لہراتے ہیں،
لیکن جس قوم کے حاکم سو رہے ہوں، وہاں لوگوں کو ایک لمبی چپ لگ جاتی ہے اور
ایک طویل خاموشی چہروں پر چھا جاتی ہے، جس سے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ملک
میں آرام ہے، چین ہے، سکون ہے، امن ہے، جبکہ یہ آرام و سکون اور بظاہر
دکھائی دینے والا چین اُس غبارے کی مانند ہوتا ہے جس میں ہوا بھری جارہی
ہوتی ہے تو ہوا بھرنے والے کو اندازہ نہیں ہوتا کہ غبارہ مزید کتنا اور
پھولے گا اور کب اُس کے پھولنے کی حد ختم ہوجائے گی، وہ تو بس اُسے لمبا
اور بڑا کرنے کے شوق میں مزید پھونکیں مارتا اور ہوا بھرتا جاتا ہے، اور جب
غبارے کی برداشت کی حد ختم ہوجاتی تو وہ اچانک پھٹتا ہے، اُس وقت اس کا
نشانہ کوئی اور نہیں بنتا بلکہ ہوا بھرنے والے کا منہ ہوتا ہے، کمال کی بات
یہ ہے کہ اس سارے عمل کے دوران نہ تو غبارہ فریاد کرتا ہے، نہ ہی وہ ہوا کے
بوجھ سے بلبلاتا اور چیختا ہے، بس ایکدم دھماکے سے پھٹ جاتا ہے، گذشتہ دنوں
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اِس کی عملی
مثال ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے غریب عوام کو
روٹی کپڑا اور مکان دینے کا جو نعرہ لگایا تھا وہ اب ایک مذاق کے سوا اور
کچھ نہیں لگتا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کسی پارٹی نے سب سے زیادہ
عرصے حکومت کی ہے تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے، اگر پیپلز پارٹی دور
حکومت کے تمام ادوار کو شامل کر کے دیکھا جائے تو ایک چیز جو مشترک نظر آئے
گی، وہ عوام کو محض نعروں کے ذریعے بہلانے اور ٹرخانے کی پالیسی ہے، لیکن
موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت پچھلی حکومتوں سے اس لحاظ سے قدرے ممتاز رہی
کہ ُاس نے عوام کو محض نعروں کے ذریعے بہلانے اور پھسلانے کے ساتھ اہم قومی
معاملات پر لٹکانے کی بھی پالیسی اپنائی اور تمام عرصہ بحران پیدا کرنے اور
پھر اسے حل کرنے میں گزار دیا، اگرچہ وزیر اعظم نے ریڈیو پر اپنے گذشتہ
خطاب میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم نے دو سال میں قوم سے جو وعدے کیے انہیں
پورا کیا، مہنگائی، دہشت گردی، غربت و بیروزگاری کے خاتمے کیلئے ترجیحی
اقدامات اٹھائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معروضی حقائق کا زاویہ کچھ اور ہی کہہ
رہا ہے، ججز بحال ہوئے مگر کس طرح بحال ہوئے یہ پوری قوم جانتی ہے، ججوں کی
تقرری کا معاملہ بھی عدالتی فیصلوں کے تحت حکومت کو تسلیم کرنا پڑا، گلگت
بلتستان کی خودمختاری، آغاز حقوق بلوچستان پیکج، صوبہ سرحد کیلئے نیٹ
ہائیڈل منافع کے واجبات اور NFCایوارڈ کا اجراء، اُس وقت تک حکومت کی اہم
کامیابیاں شمار نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ اقدامات نتائج اور اثرات کے اعتبار
پوری طرح اپنی افادیت ظاہر نہیں کرتے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے
عوامی مسائل ومشکلات کم اور حل ہونے کے بجائے مزید بڑھی ہیں، ڈالر قیمت
بڑھنے سے لے کر آٹا چینی گھی ودیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اتنا اضافہ
ہوا ہے کہ مہنگائی و غربت کم ہونے کے بجائے خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے، دوسری
طرف توانائی کی قلت اور بجلی کے بحران کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں جس
کی وجہ سے بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، رہی سہی کسر بدعنوان
انتظامیہ اور بیورو کریسی نے پوری کردی ہے، روز ایک نیا انکشاف عوام کے
سامنے آتا ہے، یہ درست ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتی ادوار میں ملک کی
حقیقی معاشی ضروریات کی طرف سے شدید غفلت برتی گئی، بجلی، پانی اور گیس کی
بڑھتی ہوئی ضروریات کو بری طرح نظرانداز کیا گیا، ہر حکومت کی توجہ وقتی
ضروریات، محدود فوائد اپنی حکومت کا استحکام، برسراقتدار طبقے اور اشرافیہ
کے مفادات کا تحفظ اور حکمرانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آمرانہ اختیارات کے
حصول کی طرف رہی اور وہ آئین میں سرنگیں لگانے اور تسلسل اقتدار کی راہیں
تراشتے رہے۔
بدقسمتی سے یہی وطیرہ موجودہ حکومت نے بھی اپنایا ہوا ہے، آج انہی غفلتوں،
کوتاہیوں اور عدم توجہ کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں بجلی، پانی اور گیس کا
بحران شدت اختیار کر گیا ہے، واضح رہے کہ بجلی پانی اور گیس کی حیثیت ملکی
معیشت اور تجارت کے لیے جسم میں دوڑتے ہوئے خون کی مانند ہے، جس طرح خون کے
بغیر جسم کی نقل وحرکت اور مختلف اعضاء کی کارکردگی ممکن نہیں، اسی طرح
بجلی، پانی اور گیس کے بغیر ملکی معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا، حال یہ ہے کہ
بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ملک میں بدستور جاری ہے جبکہ دوسری جانب
پانی کی شدید قلت سے شہری پریشان ہیں، ملک کی 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت،
بھوک اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے، اس کے باوجود حکومت یکم اپریل سے
بجلی کے نرخوں میں 6.5فیصد، پیڑولیم کی نرخوں میں مزید اضافے اور آئی ایم
ایف کے دباؤ پر تمام اشیاء پر 16فیصد ویلیو ایڈیڈ ٹیکس لگانے کی تیاری
کررہی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو بجلی، پیٹرولیم اور گیس کے نرخوں میں
مزید اضافے سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آجائیں گے جبکہ
ویلیو ایڈیڈ ٹیکس کے نفاذ سے مہنگائی کے طوفان کے خلاف عوامی رد عمل کا
سامنے آنا ایک فطری عمل ہوگا، لیکن اس کے باوجود ہمارے ارباب اقتدار چین کی
بانسری بجاتے ہوئے سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر گامزن ہیں، جو عوام کے
بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کے بجائے صرف اس بات پر خوشی کے شادیانے
بجاتے تھے کہ ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 2 کروڑ تک
جاپہنچی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہمارے پاس گنوانے کے لئے بھی کچھ نہیں بچا، معیشت
تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے، زراعت کی تباہی کیلئے بھارت پہلے ہی
منصوبوں پر عمل پیرا ہے، ہر روز کسی نہ کسی شہر میں لوگ اپنے پیاروں کی
لاشیں اٹھاتے ہیں، ہر طرف لوٹ مار، افراتفری اور بدامنی کا دور دورہ ہے، ان
حالات میں ملک کی محب وطن عوام کا اور کتنا تیل نکالا جائے گا، کب تک عوام
بے چارگی کی صلیب پر لٹکی رہے گی، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے
مستقبل کو محفوظ بنانے اور عوام کے غموں اور دکھوں کا مداوا کرنے کی فکر
کریں؟ جناب وزیر اعظم صاحب پلوں کے نیچے سے اس حد تک پانی گزر چکا ہے کہ اب
محض بلند بانگ کھوکھلے دعوﺅں اور خلاف حقیقت بیانات سے عوامی مسائل حل ہونے
والے نہیں، لہٰذا قوم کو سبز باغ دکھانے اور خوبصورت الفاظوں کے گورکھ
دھندے میں الجھانے کے بجائے وقت کے تقاضوں کو سمجھئے، خیال رہے کہ حالات و
واقعات اور آنے والے طوفان کا تقاضہ آپ سے عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ |