محمد مسلم صاحب مرحوم (ایڈیٹر دعوت) کا یہ مضمون ’کچھ
یادیں کچھ باتیں ‘ کے تحت ہفت روزہ دعوت کے 4مئی اور 18مئی 1980 کے شماروں
میں شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون مسلم مجلس مشاورت کے قیام کے پس منظر کو سمجھنے
میں کافی مفید ثابت ہوسکتا ہے
پچھلے ہفتے ۱۹۶۱ء کے مسلم کنونشن کا تذکرہ آیاتھا۔اس موقع پر دہلی کے
مسلمانوں کا ایک دانشور طبقہ یہ چاہتا تھا کہ وہ اس میں شریک ہو اور جب اسے
سیکولر بنادیاگیا تو اس نے یہ چاہا کہ اس کا بائیکاٹ کرے اور شہر میں ہر
طرف اس کے خلاف فضا پیدا کی جائے۔ ان میں سے بعض لوگ اب اﷲ کو پیارے ہوچکے
ہیں اوربعض بحمدہ بقید حیات ہیں۔ایک دن ان حضرات میں سے ایک صاحب کادعوت
نامہ ملا کہ اسی شب میں ان کے یہاں ایک نشست ہے جس میں مجھے بھی شریک ہونا
چاہئے۔ وہاں جاکر دیکھا تو ۲۰،۲۵ ممتاز اصحاب شریک مجلس تھے اوران کا ذہن
اس بات کے لیے تیار ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کے نام سے اگر کوئی کنونشن
بلایاجائے اور وہ کوئی آگے کی راہ نکال سکے تواس کی مذمت کے پروگرام
بناناضروری ہے۔ جب میری باری آئی تو میں نے ان سے کہا کہ اس انداز سے سوچنا
صحیح نہیں، بلکہ ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کوئی شریک ہو یا نہ لیکن کانفرنس
کامیاب رہے، نیز جو اصحاب کوئی تجویز اپنے ذہن میں رکھتے ہوں تو وہ کنوینر
کے نام بھیج دیں تاکہ وہ لوگ اس پر بات کرلیں ۔ آپس کا لڑائی جھگڑا کسی وقت
چلتا ہو تو چلتا ہو لیکن اب یہ انداز کار بدلنا ضروری ہے۔ بہرحال کافی بحث
ومباحثہ کے بعد سب حضرات اس پر راضی ہوگئے کہ اگر وہ لوگ کنونشن سے کسی طرح
کا تعاون نہ کرسکیں تو کم از کم اس سے اختلاف نہ کریں۔اس زمانے میں’دعوت‘
کے سہ روزہ ایڈیشن میں ہم نے کنونشن سے پہلے اہلاً وسہلاً مرحبا کے عنوان
سے کچھ ضروری نکات پیش کیے تاکہ شرکائے اجلاس اس پر غور کرسکیں۔ اس اجلاس
میں ان نکات پر توغور نہیں ہوسکا لیکن اتنا یادہے کہ صدر جلسہ سے لے کر بہت
سے شرکا ء تک نے مل کر یہی کہا کہ اصل ضرورت ان مسائل پر غور کرنے کی تھی
نہ کہ احتجاج کرکے چلے جانے کی۔ کنونشن نے کچھ تجویزیں بھی منظور کیں اور
صدر جلسہ کی رائے تھی کہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی کمیٹی بنادی
جائے لیکن یہ بات بھی نہیں چل سکی اور مولاناحفظ الرحمن صاحب مرحوم نے
کہاکہ جب جمعیۃ علماء موجود ہے تو وہی ان کو عملی جامہ پہانے کے لیے کافی
ہے۔
مولانا حفظ الرحمن صاحب تھوڑے عرصے کے بعد بیمار ہوگئے اور میرا یہ خیال ہے
کہ انھیں اس کا آخرتک افسوس رہا کہ وہ ایک بات طے کرکے اس پر عمل نہ
کراسکے۔ اﷲ تعالیٰ جدوجہد اورخلوص کے اس پیکر بزرگ کی مغفرت فرمائے اور ان
کو اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت کرے ۔ مسلمانوں کی مختلف جماعتوں سے اشتراک
عمل کی کوششیں ۱۹۴۸ء ہی سے جاری تھیں۔ مولانا آزاد کے کنونشن کے بعد ۱۹۵۰ء
میں علی گڑھ میں ایسا ہی ایک اجتماع ہوا،پھر۱۹۶۱ء میں لیکن ۱۹۶۴ء میں ایک
ایسا وقت آیا جس نے ملک کے ہر مسلمان کا دل ہلادیا اوریہ مشرقی ہند میں آدی
باسی بیلٹ میں مسلمانوں کی عظیم تبا ہ کاری کا واقعہ تھا۔ رانچی اورچائباسہ
کے علاقے سے لے کر جمشید پور اور اڑیسہ میں راؤڑ کیلا اور مضافات میں چند
دن کے لیے یہ معلوم ہوتاتھا کہ مسلمان ایک شکار ہیں جن کو شکار کرنے کے لیے
ہر شخص ٹوٹا پڑ رہا ہے۔ لوگ جمشید پور کے کارخانے میں دروازے بند کرکے اور
لوہے کی چھڑیاں تیز کرکے وہاں کے مسلمان ملازمین پر ٹوٹ پڑے، رانچی کے
میڈیکل کالج میں ساتھی طلبہ نے اپنے ساتھیوں پر یورش کی اور دیہات کا حال
تو عجیب ہی تھا، اس واقعہ کے تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد جب مسلم اکابر مختلف
دیہاتوں میں گئے اور وہاں دیواروں پر گوشت کے سوکھے ہوئے چیتھڑے اور ہڈیوں
کے سوکھے ہوئے ڈھانچے دیکھے تو کون تھا جو اپنے آنسو ضبط کرسکتا۔
۱۹۶۴ء میں جب مسلم کنونشن کی ضرورت پیدا ہوئی تو اس میں سب سے زیادہ سرگرم
حضرات ڈاکٹر سید محمود مرحوم، ملا جان محمد مرحوم، مولانا ابوالحسن علی
ندوی،مولانا ابواللیث صاحب، مفتی عتیق الرحمن صاحب،مولانا منظور نعمانی
صاحب، حاجی محمد اسمٰعیل صاحب، اورجناب سلیمان سیٹھ صاحب تھے۔ مولانا اسعد
مدنی صاحب کوبھی اس میں بہ اصرار داخل کیاگیا۔ یونس سلیم صاحب دلّی میں
نہیں تھے لیکن وہ بھی اس سے دلچسپی لے رہے تھے۔ اس طرح کچھ ذمہ دارافراد
اور ممتاز جماعتو ں کے لیڈر اس کام میں مصروف ہوگئے کہ یہ اجتماع منعقد
ہو۔اس اجتماع کے لیے تقریباً ۲۔۳ ماہ تک لوگوں نے کلکتہ ، لکھنؤ، اور دلّی
کو ایک کردیا تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب جمعیۃ علماء کے موجود قابض گروہ نے
مفتی عتیق الرحمن صاحب کے خلاف جو اس تنظیم کے ورکنگ صدر تھے، سرگوشیاں
شروع کردی تھیں، لیکن یہ واقعات کھل کر سامنے نہیں آئے تھے۔ ادھر عام ملکی
سطح پر اکثریتی عوام اور سرکاری سطح پر حکومت اس اجتماع کو پسند نہیں کررہی
تھی اورڈاکٹر محمود صاحب پر یہ ذمہ داری آپڑی تھی کہ وہ اس کے لیے بہتر فضا
سازگار کریں۔ اس زمانے میں مسٹرلال بہادر شاستری وزیراعظم اورمسٹر(گلزاری
لعل) نندا وزیر داخلہ تھے اور دونوں کی یہ خواہش تھی کہ یہ اجتماع نہ ہو۔
۱۹۶۴ء کا دور۱۹۸۰ء کے دور سے بہت مختلف تھا اور فسادات نے خوف وہراس کے
علاوہ ایسی مرعوبیت بھی پیدا کردی تھی جس میں کم ازکم مشرقی ہند کے
مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ رہے تھے اور باقی علاقوں میں بھی لوگ انتہائی غیر
مطمئن نظرآرہے تھے۔ لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کوکنونشن کا مرکز قرار دیا گیا
لیکن توقع نہیں تھی کہ حکومت یہ اجتماع ہونے دے گی۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر
محمود صاحب مرحوم اسی زمانے میں مسٹر لال بہادر شاستری سے ملے اور ان سے
کہا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پر توجہ کریں۔ شاستری جی کی زبان سے اتفاق سے
نکل گیا کہ مسلمان کسی بات پر متفق تو ہیں ہی نہیں، اس لیے آخر کیابات سنی
جائے، کس کی بات قبول کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پھرتو اس لکھنؤ کنونشن
سے آپ کو اتفاق کرنا ہی چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پر شاستری جی سے کہا کہ وہ
اسی مضمون کا ایک پیغام دے دیں۔ تاہم مرکزی حکومت کے بعد ریاستی حکومت اور
اس کے نوکر شاہی کا معاملہ باقی رہ جاتا تھا جسے ڈاکٹر فریدی مرحوم نے اپنے
ہاتھ میں لیا۔یوپی کی وزیراعلیٰ سچیتا کرپلانی تھیں جو ڈاکٹر صاحب کی مریضہ
اور احسان مند رہی تھیں، فریدی صاحب نے ان کوکنونشن منعقد کرنے کے بارے میں
سمجھایا، اوریہ مرحلہ بھی آسان ہوگیا۔ بعد میں ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ
سچیتا نے ان سے کہا کہ اگر انھیں مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل کا علم ہوتا تو
ہرگزر اجازت نہ دیتیں۔ ننداجی جو مرکزی وزیر داخلہ تھے گوسادھو کہلاتے
تھے،لیکن آریہ سماجی ذہنیت میں ڈوبے ہوئے اور اس کنونشن کوناکام بنانے کے
لیے پوری طرح تیار تھے۔
یہ اجتماع ندوہ میں منعقد ہوا، اجتماع سے پہلے سب لیڈروں نے ایک متفقہ
فہرست تیار کی اوراسی کے مطابق لوگوں کو مدعو کیاگیا۔ مجھے یاد ہے کہ
بھوپال کے ایک بڑے مسلمان زعیم جنھو ں نے آزادی سے پہلے مولانا آزاد سے
تربیت حاصل کی تھی اور بعد میں پارلیمنٹ کے ممبر بھی بن گئے تھے، لکھنؤ
تشریف لائے اور خواہش کی کہ وہ اس کنونشن میں شریک ہوں، وہ جب لکھنؤ آئے تو
اس وقت ان کی پارلیمنٹ کی ممبری ختم ہوچکی تھی، ذاتی جائداد بھی وہ بے چارے
ملت کی خاطر قربان کرچکے تھے۔ اور خدا جانے کس طرح وہ کچھ رقم فراہم کرکے
تشریف لائے تھے لیکن فہرست کے سلسلے میں چونکہ سب وعدہ کرچکے تھے کہ کسی
کااضافہ نہیں ہوگا اس لیے بادل ناخواستہ ان سے معذرت کرنی پڑی۔
کنونشن کے سلسلے میں ہر وقت یہ اندیشہ بھی لگا رہتا تھا کہ اگر یہ ناکام
ہوا تو مسلمانوں کی مایوسی اور بڑھ جائے گی تاہم حکمت سے تمام کارروائی
ہوتی رہی۔ یہ بھی طے ہواکہ مسلم تنظیموں اورذمہ دار افراد کی ایک مجلس
مشاورت بنائی جائے۔ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کرے تمام لیڈر ایک ساتھ دورہ
کریں تاکہ مسلمانوں پر یہ تاثر قائم ہو کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور ان کے سب
رہنما ایک جان ہوکر آگے بڑھنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ بھی خیال ہو ا کہ یہ
اتحاد مرکزی سطح سے اتر کرریاسی اور ضلع اور تحصیل کی سطح تک پیدا ہولیکن
مولانا اسعد مدنی کا اصرار تھا کہ صرف مرکزی سطح تک ورنہ زیادہ سے زیادہ
ریاستی سطح تک اسے لے جایا جائے اور اس سے نیچے نہ پھیلے۔
کنونشن میں بعض حضرات مدعو ہوئے بغیر کسی طرح گھس آئے تھے اور اسی طرح ایک
جماعت کے ایک دومغلوب الغضب آدمی تھے جن کی وجہ سے بار بار یہ اندیشہ لاحق
ہوتا تھا کہ کہیں کچھ لوگ اٹھ کرنہ چلے جائیں اور کنونشن کے ناکام ہونے کا
بلند بانگ اعلان کردیں۔ مغربی بنگال کے ایک کاظم علی مرزا نے یہ خدمت انجام
بھی دی۔
ادھر ندوہ کے سیکڑوں طلبہ کنونشن کے لوگوں کی خدمت توکر ہی رہے تھے لیکن ان
کی ایک بڑی تعداد اجتماعی طورپر ہمہ وقت دعاؤں میں مصروف تھی کہ یہ کنونشن
کامیاب ہو، کنونشن میں جمشید پور، رانچی، اور روڑکیلا اور دوسرے متاثرہ
علاقوں کے ذمہ دار اصحاب بھی شریک تھے۔ اور رو رو کر اپنی ملت کی بے بسی کا
حال بیان کررہے تھے کہ جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن باربار بعض
لیڈروں کی وجہ سے انتشار کا اندیشہ تھا۔ شاید ایسا ہی کوئی لمحہ تھا جب
مولاناعلی میاں ندوی جن کو آنکھ کی تکلیف کی وجہ سے تقریر کی سخت ممانعت
تھی، بے چین ہوکر کھڑے ہوئے اور گویا اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ساتھ ہی
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب آپ سب حضرات یہاں سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب
تک کہ باہم متحد ہوکر کوئی اجتماعی شکل نہ دے لیں۔
٭٭٭
بات لکھنؤکنونشن کی ہورہی تھی۔ ڈاکٹر سید محمود صاحب مرحوم نے اپنے خطبۂ
صدارت میں مسلمانوں سے کہاتھا کہ وہ اپنے دکھ درد کی کسک کو محسوس کرنے
والے ہی نہیں بلکہ انسانیت کے غم میں گھلنے والے بھی ہیں، وہ ایک چشمۂ صافی
ہیں جس کے صاف شفاف پانی سے سیرابی کا ہر ایک کو حق ہے۔ اور مسلمانوں کو
اپنا مقام پہچاننا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب بظاہر ایک انگریزی تعلیم یافتہ انسان
تھے لیکن اسلامی علوم اور تاریخ کا ان کامطالعہ بہت وسیع تھا اور اﷲ نے ان
کو ایسا گداز دل بھی عطاکیاتھا کہ وہ اپنا خاصا وقت خدا کے نیک بندوں کے
پاس بیٹھنے اور ان سے استفادہ کرنے میں گزارتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کوئی یہ
سمجھ بھی نہیں سکتاتھاکہ یہ شب بیدار اور تہجد و اشتراق تک کی نمازوں کے
انتہائی پابند ہیں۔ اپنے اسی خطبے میں ڈاکٹر صاحب نے کہاکہ مسلمان نیک اور
سادہ ہیں اور اپنی اجتماعیت کے آرزومند، اس لئے اگر ان کے رہنما اکٹھا ہوکر
آگے نہ بڑھ سکے تو خدا اور خلق دونوں کے سامنے اس کی پرسش ہوگی۔
لکھنؤ کا یہ اجتماع بڑی کڑی منزلوں سے گزرکر بالآخر کامیابی پر ختم ہوا اور
یہ طے کیاگیاکہ تمام مسلم تنظیموں کے نمائندے نیز دوسرے ناوابستہ اہم
مسلمان اس میں شریک ہوں اور مسلم مجلس مشاورت کے نام سے مشترکہ امور میں
اپنی اجتماعی کوششوں کو آگے بڑھائیں ۔ کنونشن میں کئی تجویزیں منظور ہوئیں
لیکن اس کی اہم ترین تجویز یہ تھی کہ اس ملک کی اکثریت اگر ملک کو محبت
واعتماد عطا نہیں کرسکی ہے تو یہ قرض مسلمانوں پر عائد ہوتاہے کہ وہ ملک
میں باہمی خوش اعتمادی اور محبت پیدا کریں۔
کنونشن کے اگلے پروگرام کے سلسلے میں ملّا جان محمد صاحب مرحوم نے ایک
تجویز پیش کی کہ سب مسلمان لیڈر ایک ساتھ مل کر ان علاقوں میں چلیں جہاں کے
مسلمان سب سے زیادہ فسادات کا شکار ہوئے ہیں اور ان کو ڈھارس دیں۔ اس دورے
کاپروگرام بن گیا اور رانچی سے اس کا آغاز ہوا۔ دورے میں جن لوگوں کو جانا
تھا ان میں ڈاکٹر سیدمحمود صاحب کے علاوہ مفتی عتیق الرحمن صاحب، مولانا
اسعد مدنی صاحب، مولانا ابواللیث صاحب، مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب،
مولانا منظور نعمانی صاحب، ملّا جان محمد صاحب، محمد اسمٰعیل صاحب، سلیمان
سیٹھ صاحب اور یہ خاکسار شامل تھے۔
لکھنؤ سے خوداعتمادی کی اس فضا کے ساتھ ابھی لوگ واپس ہی ہوئے تھے کہ اچانک
یہ خبر شائع ہوئی کہ دلی میں ایک جمہوری کنونشن منعقد کیاجارہاہے جس کے
داعی مولانا سید اسعد مدنی صاحب ہیں۔ غالباً ۱۰،۱۵ دن کے اندر اندر یہ
کنونشن ہو بھی گیا۔ مسٹر مرار جی ڈیسائی (اس وقت کے وزیرخزانہ) اس کے اہم
مقرر تھے۔ ڈیسائی صاحب نے اپنی تقریر میں لکھنؤ کے مسلم کنونشن پر شدید
اعتراضات کئے اور اسے فرقہ پرست بتایا۔ مفتی عتیق الرحمن صاحب بھی اس میں
شریک تھے۔ انہوں ڈیسائی صاحب کی تقریر کے بعد تقریر کی اور کہاکہ ملک میں
جو کچھ ہورہاہے اس کی فرقہ پرستی پر ڈیسائی صاحب کی نظر نہیں جاتی لیکن
مسلمان ایک جگہ بیٹھ کر رو بھی لیتے ہیں تو وہ بات سب کو کھٹک رہی ہے۔
ڈیسائی صاحب بھی منھ پھٹ آدمی ٹھہرے فوراً ہی بڑی درشتی سے بولے کہ وہ ایسی
باتیں سننے کے عادی نہیں۔ مفتی صاحب بہت بامروت بزرگ ہیں مگر اس وقت غصے
میں اٹھ کھڑے ہوئے اور کہاکہ آپ کیا راجہ ہیں کہ آپ کی غلط بات پر اعتراض
نہیں کیاجاسکتا۔ مرار جی ڈیسائی بھی غصے میں کھڑے ہوگئے لیکن بیرسٹر
نورالدین صاحب مرحوم نے بیچ بچاؤ کردیا۔ تاہم اسی وقت اندازہ ہوگیاکہ حکومت
کا رخ کیا ہے۔
۹؍اگست کو مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد پڑی اور اکتوبر میں اس دورے کا آغاز
تھا۔ اس میں مولانا اسعد مدنی صاحب کے علاوہ سب لوگ شریک ہوئے۔ رانچی جہاں
سے مشرقی ہند کے سفر کا آغاز ہورہاتھا وہاں بھی یہ ہواکہ ایک خاص مدرسے کے
بزرگ جن کو شیخ الاسلام مولانا مدنی سے بیعت کا شرف بھی حاصل تھا وہ اور ان
کے ساتھی اساتذہ مجلس استقبالیہ اور ساری سرگرمیوں سے دور رہے۔ باقی پورا
رانچی ایسا معلوم ہوتاتھا کہ وارفتہ وار نکل آیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس دورے میں یہ پروگرام بنایاتھا کہ وہ جلسوں اور
ملاقاتوں کے علاوہ ہر مقامی پارٹی کے دفتر جاتے تھے خواہ وہ سوشلسٹ اور
کمیونسٹ ہوں یا آر ایس ایس اور جن سنگھ یا کانگریس وغیرہ۔ ان کا کہناتھا کہ
محبت کاپیغام پہنچانے والوں کو چاہئے کہ سب کے سامنے اپنا پیام محبت پیش
کریں۔
رانچی میں مولانا انیس الدین احمد صاحب مرحوم، مولانا احمد علی قاسمی صاحب،
عبدالمغنی صاحب، مولانا انیس الرحمن صاحب اور دوسرے ذمہ دار حضرات ان سب
مہمانوں کی تشریف آوری کے لئے ایک مجلس استقبالیہ بناچکے تھے۔ ان مہمانوں
کا خیال تھا کہ وہ ایک فساد زدہ اور اجڑے ہوئے علاقے میں جارہے ہیں اس لئے
نہ جانے ان کے قیام کا بھی کوئی معقول بندوبست ہو یا نہ ہو۔ لیکن رانچی
اسٹیشن پر آکر ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ اسٹیشن سے قیام گاہ تک پورے
راستے پر انسان قطار در قطار صف بستہ کھڑے تھے اور پورا شہر دروازوں اور
محرابوں سے مزین تھا۔ میں نے دیکھاکہ مولانا ابواللیث صاحب، مولانا علی
میاں اور مولانا منظور نعمانی ایک گاڑی میں بیٹھے تھے اور تینوں کی آنکھوں
سے آنسو رواں تھے۔
رات کو ایک بڑے میدان میں جلسہ ہوا جس میں یہ معلوم ہوتاتھا کہ پوری بستی
امنڈ آئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے پہلے ہی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے کہلوادیاتھا
کہ جلسے کا انتظام کرنے کے لئے پولیس ہرگز تعینات نہ کی جائے۔ چنانچہ وہ
شہر جہاں مسلمان ہندوؤں کے اور ہندو مسلمانوں کے محلوں سے گزرتے ہوئے ڈرتے
تھے اور ہر ایک دوسرے سے خوف زدہ تھا وہیں جلسۂ عام میں ہندو اور مسلمان
شانہ بشانہ بیٹھے تھے۔ ملاقاتوں میں وہاں کے غیرمسلموں نے اصرار کرکر کے
اپنے یہاں بلایا اور صاف دلی سے اعتراف کیاکہ فرقہ وارانہ فسادات کے موقع
پر انسان انسانیت کے درجے سے گرگئے تھے۔ یہ اعتراف اوریہ محبت وہ پہلا
کرشمہ تھا جس کا اس دورے میں اظہار ہوا۔ اور یہی ہم سب کی دلی خواہش بھی
تھی کہ لوگوں کے دل بدلتے جائیں۔
٭٭٭ |