یوم دفاع۔۔۔ جذبوں اور ولولوں کی گولڈن جوبلی
نشانِ حیدر
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے
لقب ’’حیدر‘‘ سے منسوب ہے۔ یہ نشان صرف ان افسروں اور جوانوں کو دیا جاتا
ہے جو دفاع وطن کے لئے انتہائی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان
قربان کردیں ۔
محمد امجد
۔۔۔۔
تحریک پاکستان کی شمع شہیدوں کے لہو سے روشن ہوئی اور اس نے آگے چل کر وہ
چراغ جلائے جن کی روشنی میں مسلمانان برصغیر نے منزل پاکستان حاصل کرلی ۔
پھر ہجرت کا وہ سفر بھی لہو رنگ رہا۔ آزادی کی قیمت مسلمانوں نے اپنا خون
دے کر چکائی تھی۔ بہت سے گمنام، آزادی کے حصول میں جانیں گنوا بیٹھے مگر اﷲ
کے وعدے کے مطابق وہ زندہ ہیں، شاد ہیں۔ اسی طرح آزادی کی شمع آج بھی روشن
ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے وجود کے خلاف جو
سازشیں بنی گئی، ان کی انتہاء کا کوئی عالم نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ
ہماری قوم کی جہد مسلسل اور افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں کی
قربانیاں ان کے تمام عزائم کی راہ میں حائل ہوگئی۔ کئی روشن چہرے اس خاک
وطن کی روشنی کے لیے خاک ہوگئے ۔ ان کی جدائی کا درد آج بھی ہم سب محسوس
کرتے ہیں، ان کے حسین چہرے آج بھی ہمارے قومی چہرے کا حسن ہیں ۔ انہی کی
مثالوں، یادوں، تصویروں اور نشانیوں کی بدولت ہمارا قومی سفر جاری ہے۔ جب
مشکل گھڑی آن پڑتی ہے، ان کے چہرے ہی ہم میں جرات پیدا کرتے ہیں، نامساعد
حالات میں ان کی تصویریں ہمیں حوصلہ بخشتی ہیں ، ناامیدی میں وہ حرارت پیدا
کرتے ہیں اور جب وطن کے لیے قربانی دینے کا وقت آپہنچتا ہے تو ان کی
نشانیاں اور مثالیں ہی ہمیں میدان کارزار میں اتار کر وہ جوش اور جذبہ عطا
کرتی ہیں کہ بڑے سے بڑے دشمنوں کے دلوں پر ہیبت طاری ہوجاتی ہے۔ احمد ندیم
قاسمی نے انہی کے لیے کہا تھا:
شہیدوں کا لہو وہ درد ہے جس کی چمک دل میں
کئی چہرے بناتی، کئی یادیں اگاتی ہے
انہی چیزوں، انہی یادوں سے بنتی ہیں وہ تصویریں
کہ جن سے قوم اپنا قصر مستقبل سجاتی ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی شہدا، غازیوں کی بدولت ہم آج دنیا میں اپنا وجود
برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ قوموں کو ان کا خون اور قربانی ہی زندہ رکھتی ہے۔
تحریک آزادی، حصول پاکستان ، قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لیے کتنی
قربانیاں دی گئیں ان کا شمار نہیں ۔ قوم ان کی قربانیوں کی سینے سے لگائے
ہوئے ہے۔ انہیں اعزازات بھی دیئے گئے۔ تاہم شہداء کے لیے شہادت سے بڑا کوئی
اعزاز نہیں۔ ایسے ایسے گمنام ہیرو بھی ہیں، جو وطن کی حفاظت میں مٹ گئے مگر
شہادت پا کر ابدی حیات پا گئے۔ ان کے کارنامے گو کہ ہمارے سامنے نہیں، تاہم
اس وقت ہم آزاد وطن میں آزادی کی جو سانسیں لے رہے ہیں، انہی کی مرہون منت
ہیں۔ اس وقت پاکستان کے وجود کو جو خطرات لاحق ہیں ان میں دہشت گردی نمایاں
ہے۔ یہ اس کینسر کی مانند ہے جو جسم کے اندر ہی پلتا ہے اور اندر ہی اندر
وجود کو ختم کردیتا ہے۔ دہشت گردوں نے بھی ہمارے وجود کو کھوکھلا کرنے کی
بھرپور کوشش کی۔ غیرملکی عناصر بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس طرح گزشتہ ایک
دہائی سے وطن عزیز کا کونہ کونہ چھلنی ہوگیا۔ اس صورتحال میں افواج پاکستان
نے بیرونی محاذوں کے علاوہ اس اندرونی عفریت کے خلاف بھی ڈٹ گئیں۔دہشت
گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب میں انہوں نے جو لازوال قربانیاں
پیش کیں، ان کی مثال نہیں ملتی۔ اس طرح قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری و ساری
ہے اور آزادی کی شمع اسی سے روشن ہے۔ شہدائے وطن کا اتنا لہو بہا ہے کہ
آزادی کی شمع انشاء اﷲ روشن رہے گی۔ آج جبکہ ہم یوم دفاع کے ولولہ انگیز
لمحات کی گولڈن جوبلی منا رہے اس موقع پر قوم کا ہر فرد شہدائے وطن کی
قربانیوں کا معترف ہے اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ ذیل میں چند ان
شہداء کا ذکر ہے جنہوں نے دفاع وطن کے دوران جرات و بہادری کے وہ کارنامے
انجام دیئے کہ پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ کے حقدار قرار
پائے ۔ لیکن شہداء کے چہرے بھی تو ایک ہوتے ہیں، ان کے مقصد اور مشن کی طرح
۔ اس لیے انہی چہروں میں ان تمام شہداء کے چہروں کا عکس دیکھا جاسکتا ہے
جنہوں نے ہمارے مستقبل اور آزادی کی خاطر اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان
کردیا۔
۔۔۔۔
نشان حیدر۔۔۔ تعارف
نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے۔ جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے
لقب ’’حیدر‘‘ سے منسوب ہے۔ یہ نشان صرف ان افسروں اور جوانوں کو دیا جاتا
ہے جو دفاع وطن کے لئے انتہائی بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان
قربان کردیں ۔
ہلال کشمیر
حکومت آزاد کشمیر کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جسے نشان حیدر کے مساوی تسلیم
کیا گیا ہے۔ نائیک سیف علی جنجوعہ شہید وہ واحد بہادر سپوت ہیں جنہیں یہ
اعزاز عطا کیا گیا۔
۔۔۔۔۔
کیپٹن محمد سرور شہید، نشان حیدر
کیپٹن محمد سرور 1910ء میں ضلع راولپنڈی کے موضع سنگھوڑی میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے 1944ء میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ 1948ء میں کشمیر
آپریشن کے دوران وہ پنجاب رجمنٹ کی دوسری بٹالین کی کمان کررہے تھے۔
27جولائی کو انہوں نے اوڑی سیکٹر میں دشمن کے انتہائی مضبوط مورچوں کی طرف
پیش قدمی کی۔ ابھی ان کی کمپنی دشمن کے پچاس گز کے فاصلے پر تھی کہ وہ مشین
گن، دستی بموں اور مارٹروں کی زبردست فائرنگ کی زد میں آگئے۔ اس موقع پر
غیرمعمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیپٹن محمد سرور دشمن کے بازو سے گزر
کر اپنی پلاٹون کو دشمن کے بنکروں سے بیس گز سے بھی کم فاصلے پر لے گئے۔
یہاں ان کے سامنے خار دار تاریں تھیں تاہم انہوں نے دستی بموں سے دشمن کی
مشین گنوں کو خاموش کردیا۔ مسلسل فائرنگ کی زد میں آکر ان کا دایاں بازو
زخمی ہوگیا تاہم انہوں نے ایک شہید ساتھی کی گن اٹھائی اور دلیری کے ساتھ
دشمن پر گولیاں برساتے رہے۔ وہ خار دار تاروں کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے
کاٹ رہے تھے کہ اس دوران خودکار ہتھیار وں سے نکلی ہوئی گولیوں کی بوچھاڑ
انہیں شہادت سے ہمکنار کر گئی۔
میجر طفیل محمد شہید، نشان حیدر
میجر طفیل محمد 1914ء میں ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1943ء میں
پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ1958ء میں ایسٹ پاکستان رائفلز کی ایک
کمپنی کی قیادت کررہے تھے کہ انہیں لکشمی پور (مشرقی پاکستان) میں موجود
دشمن کی فوج سے علاقہ خالی کرانے کا حکم ملا۔ انہوں نے کمال بہادری کا
مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بہادر ساتھیوں کے ہمراہ دشمن کا محاصرہ کرکے اس پر
دھاوا بول دیا۔ دشمن کی جوابی فائرنگ کی زد میں آکر وہ شدید زخمی ہوگئے
تاہم انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا اور اپنی ساتھیوں کی بے جگری سے قیادت
کرتے رہے۔ اس دوران دشمن کی مشین گن سے ان کے سیکنڈ ان کمانڈ شہید ہوئے تو
انہوں نے دستی بم سے مشین گن کو تباہ برباد کردیا۔ لڑائی دست بدست شکل
اختیار کرگئی۔ اسی دوران دشمن چوکی کا کمانڈر ایک جوان پر حملہ کے لیے دبے
پاؤں بڑھا تو میجر طفیل نے انہیں اپنی ٹانگ سے الجھا کر اپنے آہنی ہاتھوں
میں لے لیا۔ وہ دشمن سے علاقہ خالی کرانے تک ڈٹے رہے اور شدید زخمی ہونے کے
باوجود اپنے مشن کو بخوبی انجام تک پہنچایا۔ اسی روز وہ زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، نشان حیدر
میجر راجہ عزیز بھٹی کا تعلق ضلع گجرات سے تھا۔ وہ 1928ء میں ہانگ کانگ میں
پیدا ہوئے۔ 1950میں انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ تربیت کی
تکمیل پر ’’شمشیر‘‘ اور ’’نارمن گولڈ میڈل‘‘ کے اہل بھی قرار پائے۔ وہ
1965ء میں لاہور میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ میجر
عزیز بھٹی کی کمپنی کی دوپلاٹونیں بی آر بی نہر کے اس طرف جبکہ باقی دوسری
طرف متعین تھیں۔ انہوں نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین کمپنی کے ساتھ آگے
بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ توپخانے اور ٹینکوں سے لیس دشمن کے تابڑ توڑ حملوں
کا بڑی دیدہ دلیری سے مقابلہ کرتے رہے۔ 9 اور 10ستمبر کی رات دشمن نے اس
جگہ بھرپور حملہ کیا۔ میجر عزیز بھٹی کو نہر کے اس طرف آنے کا حکم ملا مگر
جب وہ راستہ بناتے ہوئے وہاں پہنچے تو دشمن وہاں قبضہ کرچکا تھا۔ اس
صورتحال میں انہوں نے کمال بہادری اور جارحانہ کارروائی کی قیادت کرتے ہوئے
دشمن کو نکال باہر کیا۔ انہوں نے اپنی کمپنی کو ازسرنو منظم کرکے دشمن کی
پیش قدمی کو نہ صرف روکا بلکہ اس پر تابڑ توڑ حملے بھی جاری رکھے۔ اسی
دوران دشمن کے ٹینک کا ایک گولہ انہیں آلگا جس سے وہ موقع پر ہی شہید
ہوگئے۔
میجر محمد اکرم شہید، نشان حیدر
میجر محمد اکرم 1938ء کو ڈنگہ، ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1963ء میں انہوں
نے فرنٹیرفورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ 1971ء کی جنگ میں وہ ضلع ہلی
(مشرقی پاکستان) میں ایک کمپنی کی قیادت کررہے تھے۔ دشمن کی فضائیہ،
توپخانے اور بکتر بند دستوں کی یلغار کو انہوں نے منہ توڑ جواب دیا اور ان
کی پیش قدمی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ دشمن اس ہزیمت کے پیش نظر
پورے ٹینکوں سے لیس پورے بریگیڈ سے حملہ آور ہوا مگر اس کے باوجود میجر
محمد اکرم اوران کے بہادر ساتھی ان کی پیش قدمی کی راہ میں حائل رہے۔ اسی
دوران ایک حملے میں وہ شہادت سے ہمکنار ہوئے۔
میجر شبیر شریف شہید، نشان حیدر
میجر شبیر شریف 1943ء کو کنجاہ، ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1964ء میں انہوں
نے فرنٹیر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ 1971ء میں وہ سلیمانکی سیکٹر میں
ایک کمپنی کی قیادت کررہے تھے۔ انہیں ایک اونچے بند پر قبضہ کرنے کی مہم
سونپی گئی جہاں سے دو دیہات زد میں آسکتے تھے۔ دشمن نے یہاں ایک سے زائد
نفری متعین کر رکھی تھی جس کی مدد کے لیے ایک ٹینک سکوارڈرن بھی موجود تھا۔
میجر شبیر شریف کو اس مقام تک پہنچنے کے لیے پہلے بارودی سرنگوں کے علاقے
کو عبور کرنا اور پھر 30فٹ چوڑی اور 10فٹ گہری نہر کو تیر کر عبور کرنا
تھا۔ دشمن کے توپخانے کی شدید فائرنگ کے باوجود انہوں نے یہ تمام مراحل طے
کئے اور سامنے سے دشمن پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے اپنے بہادر ساتھیوں کے
ہمراہ اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس معرکے میں دشمن کے 42سپاہی مارے
گئے اور 28قیدی بنا لیے گئے جبکہ چار ٹینک راکھ کا ڈھیر بنے۔ اگلے تین دن
دشمن تابڑ توڑ حملے کرتا رہا، تاہم وہ سب پسپا کردیئے گئے۔ ایک رات میجر
شبیر شریف اچانک مورچے سے باہر ہوئے اور دشمن کے ایک کمپنی کمانڈر کو ہلاک
کرکے اس سے اہم دستاویزات قبضے میں لے لیں۔ اگلے دن دوپہر کو دشمن نے پھر
بھرپور حملہ کردیا۔ میجر شبیر شریف اور ان کے بہادر ساتھی اس کے خلاف
بھرپور انداز سے ڈٹ گئے۔ وہ اپنے توپچی کی اینٹی کرافٹ گن سے دشمن ٹینکوں
پر گولہ باری کررہے تھے کہ دشمن ٹینک کا ایک گولہ لگنے سے وہ شہید ہوگئے۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، نشان حیدر
پائلٹ آفیسر راشد منہاس 1951ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1971ء میں انہوں نے
پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا۔ اگست 1971ء میں اپنی تربیت کے دوران وہ
معمول کی پرواز کے لیے جہاز کو رن وے پر لے جارہے تھے کہ ایک انسٹرکٹر ان
کے جہاز میں زبردستی گھس آیا اور جہاز کا کنٹرول سنبھال کر اسے فضامیں بلند
کردیا۔ جونہی راشد منہاس کو احساس ہوا کہ انسٹرکٹر کے ارادے ٹھیک نہیں اور
وہ جہاز کو دشمن ملک لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے جہاز کے کنٹرول
کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔ تاہم انسٹرکٹر کے تجربے کے سامنے ان کی
یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ اس دوران انہوں نے وطن کی آن کی خاطر ہر چیز داؤ
پر لگانے کا فیصلہ کرلیا اور وہ جہاز پر اس طرح جھپٹے کہ انسٹرکٹر بے بس
ہوگیا اور طیارہ سرحد سے 32میل اِدھر گر کر تباہ ہوگیا۔ اس طرح انہوں نے
پاک فضائیہ اور سب سے بڑھ کر وطن کی آن اور وقار کو اپنی جان کا نذرانہ پیش
کرکے بچا لیا۔
سوار محمد حسین شہید، نشان حیدر
سوار محمد حسین شہید 1949ء کو ڈھوک حسین جنجوعہ، گوجر خان میں پیدا ہوئے۔
1966ء میں انہوں نے پاک فوج میں شمولیت حاصل کی۔ 1971ء میں وہ 20لانسرز کے
ساتھ ظفروال اور شکر گڑھ کے محاذ پر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ اس دوران
انہوں نے یونٹ کے ہر معرکے میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ ٹینکوں کی گولہ باری کے
باوجود اپنی یونٹ کے ایک ایک مورچے میں جاکر انہیں گولہ بارود پہنچاتے رہے۔
اس کے علاوہ لڑاکا گشتی دستوں کے ساتھ پرخطر مہمات میں بھی پیش پیش رہے۔
ایک روز انہوں نے دشمن کو مورچے کھودتے دیکھا تو فوری طورپر سیکنڈ ان کمانڈ
کو اطلاع دی۔ پھر وہ اپنی ایک ایک ٹینک شکن توپوں کے پاس پہنچے اور دشمن
ٹینکوں پر فائرنگ کرواتے رہے جس کے نتیجے میں دشمن کے16ٹینک تباہ ہوگئے۔
10دسمبر کو وہ اپنے ایک ’’ریکائل لیس رائفل بردار‘‘ کو دشمن کے ٹینک دکھا
رہے تھے کہ دشمن ٹینک سے نکلی گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا سینہ چھلنی کردیا
اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے۔
لانس نائیک محمد محفوظ شہید، نشان حیدر
لانس نائیک محمد محفوظ شہید 1944کو محفوظ آباد، ضلع راولپنڈی میں پیدا
ہوئے۔ 1962ء میں انہوں نے پنجاب رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ 71کے
دوران وہ واہگہ اٹاری سیکٹر پر متعین ایک کمپنی کا حصہ تھے جسے پل کنجری پر
قبضہ کرنے کا حکم ملا۔ لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون ہراول دستہ تھی
لہٰذا اسے دشمن کے خود کار ہتھیاروں کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔اس دوران
دشمن نے توپوں کے دہانے بھی کھول دیئے۔ لانس نائیک محفوظ بے جگری سے لڑ رہے
تھے کہ ان کی مشین گن دشمن کے گولے کی ضرب سے تباہ ہوگئی۔ وہ اپنے ایک شہید
ساتھی کی ہلکی مشین گن ہاتھوں میں تھام کر دشمن کے اسی مورچے کی طرف بڑھے،
جہاں سے آنے والے فائر نے ان کی کمپنی کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اس دوران
ان کی ٹانگیں بھی شدید زخمی ہوچکی تھیں، مگر وہ مسلسل فائرنگ کرتے رہے اور
خود کو گھسیٹتے ہوئے دشمن کے بنکر پر جا جھپٹے۔ جوابی فائرنگ کے باوجود
انہوں نے دشمن سپاہی کی گردن دبوچ لی جس پر اس کے ساتھیوں نے سنگین سے ان
پر حملہ کردیا اور وہ شہید ہوگئے۔ لانس نائیک محمد محفوظ کی اس بہادری کا
اعتراف دشمن فوج نے بھی کیا۔
کیپٹن کرنل شیر خان شہید، نشان حیدر
کیپٹن کرنل شیر خان ،1970ء میں نواں کلی ، ضلع صوابی میں پیدا ہوئے۔ انہوں
نے 1994میں سندھ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ بعد میں انہیں نادرن لائیٹ
انفنٹری میں تعینات کردیا گیا ۔ 1999ء میں معرکہ کارگل کے دوران، لائن آف
کنٹرول کے ساتھ گلتری اور مشکوہ سیکٹر میں انہیں نے اگلی دفاعی لائنوں پر
عسکری قائد کی حیثیت سے بہادری اور جرات کی نئی داستانیں رقم کیں۔ انہوں نے
گلتری میں 15سے 17ہزارفٹ بلند اور برف پوش پہاڑوں پر پانچ فوجی چھاؤنیاں
قائم کیں ۔ 7اور 8جون کی درمیانی رات دشمن نے ان کی پوسٹ کے پیچھے نفوذ
کرنے کی کوشش کی جسے بھانپتے ہوئے انہوں نے موثر ناکہ بندی کی اور اس کو
بھاری نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کئی حملوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے کئی
فوجیوں کو جہنم واصل کیا اور دشمن فوج پر ہبیت طاری کردی۔5جولائی کو دشمن
نے دو بٹالین کی نفری اور توپخانے سے کیپٹن کرنل شیر کی پوسٹ پر کئی اطراف
سے حملہ کرکے کچھ حصہ قبضے میں لے لیا۔ تمام تر بے سروسامانی اور قلیل سپاہ
کے باوجود وہ دشمن پر بے خوفی سے ٹوٹ پڑے اور کھوئے ہوئے علاقے پر دوبارہ
قبضہ جما لیا۔ اس حملے کے دوران مشین گن کی فائر سے وہ شدید زخمی ہوئے
اوربعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر
حوالدار لالک جان 1967میں وادی یاسین ، گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں
نے 1984ء میں پاک فوج کی نادرن لائیٹ انفنٹری میں شمولیت اختیار کی۔ وہ
معرکہ کارگل کے دوران بے باک اور بہادر فرزند کی مانند ابھر کر سامنے آئے۔
مئی 1999ء میں جب انہیں معلوم ہوا کہ دشمن ایک بڑے زمینی حملے کی تیاری
کررہا ہے تو انہوں نے اگلے مورچوں پر جانے کا اصرار کیا۔ انہوں نے دشوار
گزار علاقوں میں بڑی بہادری سے دشمن کے بہت سے حملوں کو ناکام بنانے میں
اہم کردار ادا کیا۔ 7جولائی کو دشمن نے ان کی پوسٹ پر توپخانے سے شدید فائر
شروع کردیا۔ اسی دوران وہ گولی لگنے سے شدید زخمی بھی ہوئے تاہم دشمن کی
پسپائی تک اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے دشمن کے حملے کو ناکام بنا دیا
لیکن اس دوران زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔
نائیک سیف علی جنجوعہ شہید، ہلال کشمیر
نائیک سیف علی جنجوعہ 1922ء کو تحصیل مینڈھرحال تحصیل نکیال میں پیدا ہوئے۔
1940میں وہ فوج سے وابستہ ہوئے۔ 1948میں وہ ضلع پونچھ میں پیرکلیوا کے مقام
آزاد کشمیر رجمنٹ کی ایک پلاٹون کی قیادت کررہے تھے کہ دشمن کے ایک بریگیڈ
نے حملہ کردیا۔ ان کی پلاٹون نے اس دوران ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اس
حملے کو ناکام بنا دیا۔ ان کی پوسٹ پر دشمن نے ہلکے ٹینکوں، توپخانے حتیٰ
کہ ہوائی جہازوں سے حملہ کیا مگر تمام بے اثر رہے۔ دشمن نے پیر کلیوا کو
دیگر دفاعی پوسٹوں سے علیحدہ کرکے ان کی پوسٹ پر ہر سمت سے دباؤ بڑھا دیا۔
مگر نائیک سیف علی بہادری سے ڈٹے رہے۔ اسی دوران انہوں نے اپنی مشین گن سے
دشمن کا ایک ہوائی جہاز بھی مار گرایا۔ اس دوران وہ توپ کا ایک گولہ لگنے
سے شہید ہوگئے تاہم اس سے قبل انہوں نے دشمن کے تمام حملوں کو پسپا کردیا
تھا۔ ان کی اس بہادری پر انہیں حکومت آزاد کشمیر نے ہلال کشمیر عطا کیا جو
نشان حیدر کے مساوی تسلیم کیا گیا ہے۔
جرات و بہادری کی ان چند چہروں کے ذریعے تمام شہیدوں اور غازیوں کی بہادری
اور کارناموں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بھی اپنا آج ہمارے کل کے لیے
قربان کردیا تھا۔ آج قوم مستقبل کے جو محل سجا رہی ہے وہ انہی شہیدوں اور
غازیوں کی بدولت ممکن ہوئے ہیں۔ شہیدوں کے لہو سے ہمارے دلوں سے جو مہک اٹھ
رہی ہے اور ہمارے دل جو چمک رہے ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم انہیں
فراموش نہ کریں۔ ان ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو بھی خراج تحسین پیش کریں
جنہوں نے وطن کی خاطر اپنے بیٹے، بھائی اور باپ کھو دیئے ۔ آئیے آج یوم
شہداء کے روز شہداء اور ان کے لواحقین کو محبتوں اور خلوص کے گلدستے پیش
کریں کیونکہ
شہیدوں کا لہو وہ آسمان ہے جس کے سائے میں
سنور جاتی ہیں تاریخیں، نکھر جاتی ہیں تہذیبیں |