وزیراعظم نریندر مودی کی محنت و کاوش رنگ لانے لگی ہے۔ ان
کے مخالفین کے اچھے دن آنے لگے ہیں۔ اس کی ابتداء ویسے تو دہلی سے ہوئی
لیکن اس کی انتہاء ممکن ہے بہار میں ہوجائے۔ مودی جی میں اگر سمجھ بوجھ
ہوتی تو چھوٹی سی دہلی کی بڑی شکست سے عبرت پکڑتے ہوئے پروقار انداز میں
صوبائی انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے ۔ دہلی
میں تو بی جے پی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی ۔ صدر راج کے چلتے اقتدار کی
زمامِ کار بلاواسطہ بی جے پی کے ہاتھوں میں تھی۔ حزب اختلاف دوحصوں میں
منقسم تھا ۔ انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے کہیں جانے کا قصد نہیں کرنا
پڑتا تھا اور اوبامہ کوجشنِ جمہوریہ میں بلا کر عوام کو گمراہ کرنے کا بھی
نادر موقع تھا۔ کیجریوال کے دامن پر وقت سے پہلے استعفیٰ دے کر بھاگ کھڑے
ہونے کا داغ بھی تھا ، اس کے باوجود شاہ جی اور مودی جی کی پے درپے حماقتوں
نے کیجریوال کو ایسی کامیابی سے نواز دیا جس کا تصور بھی محال تھا۔
اس کے برعکس بہار میں بی جے پی کچھ عرصہ پہلے تک جنتادل (یو) کی جونیر
پارٹنر ضرور رہی لیکن اس
کوکبھیبھیاپنےبلبوتےپراقتدارنصیبنہیںہوا۔اسپارلیمانی انتخابات کا اگرجائزہ
لیا جائے جس میں بی جے پی نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی تو یہ بات صاف ہو
جاتی ہے کہ وہ حزباختلافکے انتشار کا نتیجہ تھا ۔بی جے پی کو اپنے دو
حواریوں کے ساتھ کل ملا کر ۸ء۳۵ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ جے ڈی یو ، آر جے
ڈی اور کانگریس نے جملہ ۳ء۴۴ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ
مودی جی کے اقتدار میں آتے ہی رائے دہندگان کا جھکاو بی جے پی کی جانب بڑھ
گیا ہو اس لئے کہ ضمنی انتخاب میں بھی جہاں بی جے پی اور ایل جے پی نے
مشترکہ طور پر ۹ء۳۷ فیصد ووٹ حاصل کئے وہیں کانگریس ، جے ڈی یو اور آرجے
ڈی نے مل کر ۶ء۴۵ فیصد ووٹ حاصل کئے۔ یہ گزشتہ سال اگست کی بات ہے جب مودی
جی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔ اب ایک سال گزر جانے کےبعد بھی اگر
کوئی یہ سمجھتا ہے کہ انکی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے تو اس سےبڑا مودی جی
کااندھابھکت کون ہوسکتا ہے؟
بہار کی حالیہ انتخابی مہم کا اگر گزشتہ سال کے قومی انتخابات کی مہم سے
موازنہ کیا جائے تو ایک زبردست مشابہت نظر آتی ہے۔ پچھلے سال کانگریس کا
یہ حال تھا کہ وہ اقتدار کے نشے میں چور بغیر کسی خاص حکمت عملی کے روایتی
انداز میں بے دلی کے ساتھ جلسے جلوس کررہی تھی ۔ اس دوران اس نے کوئی نیا
الحاق تو درکنار پرانے حلیفوں کا بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس بی جے پی
نے اپنی انتخابی منصوبہ بندی کیلئے پرشانت کشور جیسے ذہین مشتہر کی خدمات
حاصل کررکھی تھیں جو متنوع انداز میں مہم کی منصوبہ بندی کررہا تھا اور
مودی جی کی پرجوش قیادت میں بی جے پی اس پر عملدرآمد کررہی تھی ۔ اس دوران
ہر چھوٹی بڑی جماعت کو ساتھ الحاق کرنے کی کوشش بھی جاری تھی اور قومی
جمہوری محاذ میں شامل جماعتوں کی تعداد ۲۵ تک پہنچ گئی تھی ۔
اس بار نتیش کمار نے آسمان میں اڑنے کے بجائے زمین سے اپنے کام کا آغاز
کیا۔ مانجھی کو گھر بھیج کرمودی کی طرح خود کمان سنبھالی۔ لالو یادو اور کا
نگریس کے ساتھ اپنے الحاق کو مستحکم کیا۔ لالو یادو نے بھی کمال پختگی اور
سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے نتیش کمار کواس مہا گٹھ بندھن کا چہرہ بنا
یااور خود اس کے ریڑھ کی ہڈی بن گئے ۔ لالو نے اپنی انا قربان کردی اور
سماجوادی کو اپنے حصے میں ۵ نشستیں دے کر سیکولر محاذ کو ٹوٹنے سے بچا لیا۔
کانگریس کو ۴۰ نشستیں دے کر پر وقار انداز میں ساتھ لیا اورنتیش کمار نے
بھی اقتدار میں ہونے کے باوجود۱۰۰ نشستوں پر اکتفاء کرلیا۔ اس کے بعدان
لوگوں نےپرشانت کشور کی خدمات حاصل کیں تاکہ بی جے پی کو منھ توڑ جواب دیا
جاسکے ۔ اس کے برخلاف بی جے پی نے وہی روایتی پروپگنڈا، وزیراعظم پر بیجا
انحصار ، جلسے جلوس اور قسمیں وعدے شروع کردئیے جن پر پہلے تو لوگوں نے
انجانے میں اعتماد کرلیا تھا لیکن اب کسی کا اعتبار نہیں ر ہا۔ وزیر اعظم
نے ایک کے بعد ایک تین ریلیاں کیں جن کے سارے اثرات کو نتیش لالو اور سونیا
نے پٹنہ کی ایک مہاریلی کے ذریعہ زائل کردیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی فی الحال کئی محاذ پر ایک ساتھ جوجھ رہی ہے۔ کانگریس کی
منموہن سرکار دس سالوں میں جس قدر بدنام ہوئی تھی مودی سرکار اس ایک سال کے
عرصے میں اس سے زیادہ رسوا ہوچکی ہے۔ بی جے پی کے پاس کوئی وزیراعلیٰ کا
امیدوار نہیں ہے اور عوام جانتے ہیں کہ مودی جی دہلی کا تخت و تاج چھوڑ کر
بہار کا اقتدار سنبھالنے کیلئے نہیں آئیں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر
وزیراعلیٰ کی کرسی کےکئی خواہشمند ہیں اور ان کی ناراضگی سے بچنے کیلئے وہ
اپنے امیدوار کا اعلان کرنے سے کترا رہی ہے۔ اننت کمار نے جب کہا کہ
وزیراعظم کے نام پر ووٹ مانگا جائیگا تو سشیل مودی ناراض ہوگئے مگر ۸۰ سالہ
سی پی ٹھاکر نے کہہ دیا کہ وہ اس عہدے پر ذمہ داری ادا کرنے کیلئے تیار
ہیں۔پٹنہ سے بی جے پی کے رکن پارلیمان شتروگھن سنہا اس کیلئے بہت بڑا سر
درد بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے یعقوب میمن سمیت کئی مسائل میں پارٹی موقف کی
مخالفت کرنے کے بعد نتیش کمار کو بہار کا سرپرست تک قرار دے دیا۔
نتیش کمار نے اس بیچ ایک ایسی چال چلی جس نے بی جے پی کے کئی مہرے الٹ گئے۔
اروند کیجریوال کو بہار بلا نا اوران کو اپنا ہمنوا بنا کر پیش کرنا کئی
اعتبار سے اہم ہے۔ نتیش پر یہ الزام ہے کہ وہ بدعنوان لالو کا ساتھ ہوگئے
ہیں لیکن کرپشن کے خلاف لڑنے والے والے کیجریوال کی حمایت اس کو کمزور
کردیتی ہے۔ کیجریوال شہری علاقوں میں خاصے مقبول ہیں اس لئے ان کی حمایت کا
اثر بی جے پی کے شہری متوسط طبقے کے رائے دہندگان کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس
بار بہار کے ہر حلقۂ انتخاب میں ۸ تا ۱۰ہزار نوجوان ووٹرس ہیں وہ یقین
کیجریوال کی شخصیت کے اندر ایک کشش محسوس کرتے ہیں۔ یہ رائے دہندگان ذات
پات کو کم اہمیت دیتے ہیں ایسے میں جو نام نہاد اونچی ذات کے رائے دہندگان
بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے کے سبب نتیش سے دور ہوگئے ہیں ان میں سے کچھ
کیجریوال کے توسط سےقریب آسکتے ہیں۔ کیجریوال اور نتیش کمار کے درمیان
کوئی سودے بازی نہیں بلکہ بے لوث دوستی ہے۔ نتیش نے دہلی انتخاب میں
کیجریوال کی حمایت کی بدلے میں کچھ نہیں مانگا یہی کیجریوال نے بھی کیا اور
پھر دشمن کا دشمن تو دوست ہوتا ہی ہے۔
بی جے پی نے اس دوران جتن رام مانجھی اور پپو یادو کو بھی اپنے قریب کرنے
کی کوشش کی لیکن سچ تو یہ ہے کہ نئے حلیف تو درکنار اس کے پرانے ساتھی رام
ولاس پاسوان اور اوپندر خوشواہا بھی بی جے پی سے ناراض چل رہے ہیں ۔ سب سے
پہلے تو انہیں بی جے پی نعرے ’’اب کی بار بی جے پی سرکار‘‘ پر اعتراض ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے بجائے اس نعرے میں این ڈی اے ہونا چاہئے۔ ان
کو یہ شکایت بھی ہے کہ بی جے پی نشستوں کی تقسیم کو بلاوجہ ٹال رہی ہے ۔ اس
سے بی جے پی کی نیت کاشبہ بھی ظاہر ہورہا ہے اور تیاری بھی متاثر ہورہی ہے
۔خشواہا نے بی جے پی کو گزشتہ مرتبہ کی طرح صرف ۱۰۲ نشستوں پر انتخاب لڑنے
کا مشورہ دیا ہے۔ جبکہ بی جے پی کم از کم ۱۶۰ نشستوں پر لڑنا چاہتی ہے۔ اس
کھائی کو پاٹنے کیلئے ۳۱ اگست کو امیت شاہ کی قیادت میں حلیف جماعتوں کے
ساتھ ایک نشست ہوئی لیکن اس میں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا ۔ اگر بی
جے پی ۱۵۰ پر بھی راضی ہو جائے تو بقیہ ۹۰ نشستوں کو چار جماعتوں میں کیسے
تقسیم کیا جائیگا ؟ اس لئے لوک جن شکتی ۷۵ نشتیں چاہتی ہے لوک سمتا پارٹی
کا ۶۶ پر دعویٰ ہے اور مانجھی کی ’ہم‘۴۰ کی خواہشمند ہے۔ اس بندر بانٹ میں
جو گلُ کھلیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
بی جے پی کی حامی جماعتوں میں بھی وزارت اعلیٰ کی کرسی کولےکر بھی اچھے
خاصے اختلافات ہیں ۔ مانجھی چونکہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اس لئے اپنے آپ کو
اس عہدے کا سب زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ رام ولاس پاسوان نے مسلمانوں کو بے
وقوف بنانے کیلئے پھر ایک بار مسلم وزیراعلیٰ کی تجویز پیش کی ہے ۔ اوپندر
خشواہا چاہتے ہیں کہ رام والاس پاسوان کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنا کر پیش
کیا جائے۔ اس سے زیادہ باہمی عدم اعتماد کیا ہوسکتا ہے تمام تر اختلاف کے
باوجود سارے حامیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وزیراعلیٰ بی جے پی کا نہ ہو
۔ ایل جی پی کے رامچندر پاسوان تو بی جے پی پر ودھان پریشد کے انتخاب میں
ان کے امیدوار کی شکست کا الزام بھی لگا چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ ہمارے
کارکنا ن اس زیادتی کوٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔
بی جے پی کا سب سے بڑا ہتھیار نتیش کمار سرکار کی ناکامی کا پرچار ہے لیکن
بدقسمتی سےنتیش کے دس سالہ اقتدار میں سے آٹھ سال بی جے پی اس کی حصہ دار
رہی ہے۔ بی جے پی بار بار یہ کہہ رہی ہے نتیش اور لالو کی دوستی ناپاک ،ابن
الوقتی اور غداری ہے ۔اس لئے کہ انہوں نے بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا لیکن
نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ آنے سے قبل لالو کا ساتھ چھوڑا تھا تو کیا
وہ اس وقت گنگا کی طرح پوتر دیش بھکتی تھی ۔رام ولاس پاسوان کاجوایک زمانے
تک بی جے پی کے سخت مخالف تھے لالو کو چھوڑ کر بی جے پی کے ساتھ آجانا ابن
الوقتی اور موقع پرستی نہیں ہے ؟ کیا عوام کو بے وقوف بنانا اسی قدر آسان
ہے جتنا بی جے پی سمجھتی ہے۔ گڈکری نے کہا تھا بہار کےخون میں نسل پرستی ہے
لیکن فی الحال گجرات میں جو ہو رہا ہے اس کےسامنے بہار تو بالکل بونا نظر
آنے لگا ہے۔ مودی جی بہار کو گجرات بنانے چلے تھے مگراس دوران خود گجرات
بہاربن چکا ہے۔ مودی سوچ رہے ہوں گے کہ ہاردک پٹیل کو اگر احتجاج کرنا ہی
تھا تو کم از کم بہار انتخاب بعد کرتا اس موقع پر ہنگامہ آرائی کرکے اس نے
بی جے پی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
ان تمام حقائق سے قطع نظر مہا گٹھ بندھن کا سب سے بڑا اثاثہ مودی جی کی
حماقتیں ہیں جو ان سے یکے بعد دیگرے سرزد ہورہی ہیں مثلا ً عین مہاریلی کے
دن ’من کی بات‘ میں تحویل اراضی بل پر اپنی شکست کا اعتراف کرکے انہوں نے
مخالفین کو اپنی دھنائی کا نادر موقع عطا کردیا۔ سارے ہی بڑے رہنما وں کی
تقریر میں اس کا ذکر تھا اور اس کے ذریعہ سے یہ بات ثابت کی گئی کہ مودی
غریب کسانوں کی زمین چھین کر سرمایہ داروں کو دینا چاہتے تھے ۔ حزب اختلاف
نے ان کو ایسا کرنے سے روک دیا اور اپنا موقف تبدیل کرنے پرمجبور کردیا ۔
اگر نریندر مودی اپنےوزارت عظمیٰ کے وقار کو داؤں پر لگابہار کے دنگل میں
نہیں کودتے تومہاریلی اس طرح کی تنقید کا نشانہ ہر گز نہیں بنتے ۔ وزیراعظم
کے ذمہ انتخابی مہم چلانے اورغیر ملکی دورے کرنے کے علاوہ بھی بہت سارے کام
ہیں اور سچ تو یہ ہے جن نمائشی کاموں میں مودی جی اپنا قیمتی وقت برباد
کررہے ہیں یہ سرے سے ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔
انتخابی مہم پر نگاہ ڈالیں تو نتیش کمار اسی حکمت عملی پر عملدرآمد کررہے
ہیں جو مودی جی نے گجرات میں اختیار کررکھی تھی۔ مودی جی بار بار گجرات کی
عوام کے عزت ووقار (سوابھیمان )کی دہائی دیتے تھے۔ ان کا الزام تھا کہ دہلی
کی برسرِ اقتدار سرکار دراصل گجرات کے سارےلوگوں کو(فسادات کے پس منظر میں)
قاتل اورزانی گردانتی ہے۔ یہ گجراتیوں کی تو ہین ہے اور وہ اس کو بحال کرنے
کیلئے کھڑا ہوئے ہیں اس لئے عوامی حمایت کے مستحق ہیں۔ مودی جی اپنے اوپر
لگنے والے ہر الزام کو بڑی عیاری کے ساتھ عوام کے سر منڈھ کر ان کا جذباتی
استحصال کر تے تھے ۔ اس طرح مودی جی نےتین مرتبہ گجرات کی عوام کو بے وقوف
بنایا ۔ اب ان کو چاہئے کہ وہ کم از کم اپنے مخالف کو ایسا کرنے کا موقع نہ
دیں لیکن ایسا کرنے کیلئے عقل و فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔
مودی جی نے پہلے تو ڈی این اے کی بات کہہ کر نتیش کمار کو اسےبہاریوں کی
توہین قرار دے کر ’ الفاظ واپس لو‘ تحریک چلا نے کا موقع دیا۔ اس کے بعد
مودی جی نےبہار کے پیکج کا اعلان کچھ اس طرح سے کیا گویا نیلامی ہورہی ہے ۔
اس کو لالو جی نے بہاریوں کی توہین قرار دیتے ہوئے کہہ دیا کہ ’بہاری ٹکاؤ
ہے بکاؤ‘ نہیں ہے۔ مودی جی نے بہار کو بیمارو کہا تو نتیش کمار نے بہار کا
موازنہ گجرات سے کر کے ثابت کردیا کہ کئی معاملات میں بہارگجرات سے بہتر
ہے۔ مودی جی نے نتیش کمار کو یاچک(مانگنے والا) کہہ کر ان پر ذاتی حملہ کیا
تو اسے بھی بہاریوں کی توہین سے جوڑ دیا گیا۔سوال کیا گیا کہ کیامودی جی
کاوزیراعلیٰ کی حیثیت سےمرکزی حکومت سے اپنا حق مانگنا جھولی پسارنا تھا۔
مودی جی کے اہانت آمیز سلوک نے پٹنہ ریلی کو سوابھیمان ریلی کا بنا دیا۔
سوابھیمان ریلی کے بعد مودی جی اپنی چوتھی ریلی کرنے کیلئے بھاگلپور پہنچے
۔پہلے اس ریلی کو ۳۰ اگست کو ہونا تھا لیکن چونکہ اسی دن پٹنہ میں مہاریلی
کا اعلان ہوگیا بی جے پی نے اسے دودن کیلئے ملتوی کردیا۔ اس ریلی سے قبل
نتیش کمار نے ٹویٹ کرے وزیراعظم کومزید سینہ کوبی اور نئے وعدوں کے بجائے
پرانے وعدوں کی تاریخ بتانے کیلئے کہا اس کے جواب مودی جی ۲۰۱۹ کی تاریخ
دے دی۔ اس بار مودی جی نے ڈرامہ بازی تو کم کی مگر آئندہ ۵ سالوں کیلئے ۳
لاکھ ۷۴ ہزار کروڈ کا وعدہ پھر بھی کردیا ۔ انہوں صحت کی بابت بہار کے
۲۰۰۵ کے بعد پچھڑنے ذکر کیا اور بھول گئے کہ اس دوران بی جے پی اقتدار میں
بھاگیدار تھی۔ مودی کی ریلی کے بارے کانگریسی رہنما علی انور نے کہا پٹنہ
جیسی ریلی کرنے کیلئے پردھان منتری کو دوسرا جنم لینا ہوگا ۔ اس دن مودی کی
قسمت ہی خراب تھی کہ ریلی سے پہلے بارش ہوگئی اور اس کے بعد شئیر بازار ۷۰۰
پوائنٹ گرگیا۔ اسی کے ساتھ ایک ناکام ریلی کی خبر بھی ذرائع ابلاغ سے اتر
گئی۔
پچھلے الیکشن میں مودی نے اپنے آپ کو چائے والے کے طور پر پیش کیا اور
نتیش کو مغرور بتاتے ہوئے ان پر مرکزی سرکار کی مدد کو ٹھکرنے کا، ان کے
ساتھ اپنی دعوت منسوخ کرنے کا اور مانجھی کی طشتری سے نوالہ چھین لینے کا
الزام لگایا۔ اس کے جواب میں نتیش کمار نے خود کو ایک غریب مجاہد آزادی کا
بیٹا بنا کر پیش کیا ۔ انہوں نے بہار کی تاریخ میں انقلابیوں کا حوالہ دیتے
ہوئے فرمایا کہ جن کے والدین نے قوم کیلئے کوئی کارنامہ نہیں انجام دیا وہ
ہمارے ڈی این اے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ دہلی انتخاب کے وقت بی جے پی نے
کیجریوال کے گوتر(سرشت) میںانارکی کا فقرہ کسا تھا جو اسے کافی مہنگا پڑا
لیکن بہار میں پھر اسی غلطی کا اعادہ کیا جارہا ہے۔نتیش کمار نےمودیجیکے۱۴
ماہ بعد ساری دنیا کی سیر کرلینے کے بعدبہار کا رخ کرنے پر بھی طنز کیا۔
انتخابات میں چمتکار ہوتے رہتے ہیں اس لئے ان تمام حقائق کے باوجود اگر بی
جے پی کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ ایک معجزہ ہی کہلائےگا۔
اٹل جی کی انتخابی شکست سے بی جےپی کو ایسا کرارہ جھٹکا لگا تھاکہ وہ دس
سال پیچھے چلی گئی اور یہی وجہ ہے کہ دس سال بعد پھر سے اقتدار میں آگئی
لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی جی کی شکست اس قدر ہیبت ناک ہوگی کہ بی جے پی کم
ازکم ۵۰ سال پیچھے جن سنگھ کے زمانے میں پہنچ جائیگی۔ کمل کے پھول میں کل
پانچ پنکھڑیاں ہیں جن میں ایک کو انہوں نے پہلے سال میں نوچ کر پھینک دیا
ہے ۔ اپنی مدتِ کار کے خاتمہ تک ساری پنکھڑیاں ایک ایک کرکےجھڑ جائیں گی
اور پھر سنگھ پریوار کے نیکر دھاری بھکت جن سنگھ والا چراغ لے کر ڈھونڈنے
نکلیں گے اور کیچڑ میں کھڑے ڈنٹھل کو دیکھ کر پوچھیں گےیہاں جو کمل بابو
ہوا کرتے تھے وہ کہاں غائب ہو گئے؟ لوگ کہیں گے ایک ٹھو جملیشور بابو آئے
رہےجو انہیں دس لاکھ کے کوٹ میں ٹانک کر اپنے ساتھ لے گئے ۔ بقول عزیز حامد
مدنی ؎
تازہ ہوا بہار کی، دل کا ملال لے گئی
پائے جنوں سے حلقۂ گردش حال لے گئی
|